ذبیح اللہ کون ؟ حضرت اسماعیل یا حضرت اسحاق

ذبیح اللہ کون حضرت اسماعیل علیہ السلام یا حضرت اسحاق علیہ السلام قرآن و حدیث اور باٸبل کی روشن میں


اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

جیسا کہ مسلمانوں کی ایک قلیل جماعت کا یہ نظریہ رہا ہے اور ساتھ ہی مسیحی حضرات کا نظریہ بھی یہی ہے کہ حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے حضرت اسحاق کو ذبح کرنے کے لۓ خدا کے سامنے پیش کیا تھا نہ کہ حضرت اسماعیل کو تو آج کی اس پوسٹ میں ہم ان شاء اللہ قرآن و حدیث اور باٸبل کی روشنی میں یہ ثابت کریں گے کہ حضرت اسماعیل ہی ذبیحِ اللہ ہیں نہ کہ حضرت اسحاق۔


مسیحی حضرات باٸبل کی جس آیت سے حضرت اسحاق علیہ السلام کو ذبیح اللہ ثابت کرتے ہیں وہ کچھ اس طرح سے ہے۔


”کچھ عرصے بعد خدا نے ابرہام (ابراہیم) کو آزمایا اور اس نے اس سے کہا:ابرہام! اس نے جواب دیا حاضر ہوں،تب خدا نے کہا: اپنے اکلوتے بیٹے اضحاق (اسحاق) کو جسے تو پیار کرتا ہے ساتھ لے کر موریاہ کے علاقہ میں جا اور وہاں ایک پہاڑ پر جو میں تجھے بتاٶں گا'اسے سوختنی قربانی کے طور پر نذر کر“۔

(عہد نامہ قدیم،پیداٸش،باب 22،فقرہ 1,2)



باٸبل کی اس آیت کو پیش کر کے مسیحی حضرات کہتے ہیں کہ خدا نے جس کو ذبح کرنے کا حکم دیا وہ اسحاق ہے نہ کہ اسماعیل،تو میں بتاتا چلوں کہ باٸبل کی یہ آیت جس میں اضحاق کے الفاظ ہیں تحریف شدہ معلوم ہوتی ہے اور یہ بات میں آگے ثابت کروں گا کہ مختلف واقعات کو مدنظر رکھا جاۓ تو یہاں پر اضحاق کا لفظ تحریف شدہ معلوم ہوتا ہے،اب ہم باٸبل کی کچھ دوسری آیات کو لگا کر ثابت کریں گے کہ یہ آیت تحریف شدہ ہے۔


سب سے پہلے غور کریں کہ اس آیت میں لفظ ہے ”اکلوتا بیٹا“ اکلوتے کا مطلب ہوتا ہے ایک ہی بیٹا۔

یعنی یہ تب کی بات ہے جب ابراہیم کے پاس صرف ایک ہی بیٹا تھا۔تو اب ہم باٸبل کی روشنی میں ہی دیکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پہلا بیٹا کون تھا حضرت اسماعیل علیہ السلام یا حضرت اسحاق علیہ السلام۔


اس سے یہ آیت خودبخود ہی تحریف شدہ ثابت ہو جاۓ گی۔


باٸبل ایک جگہ پر ابراہیم کے بارے میں کہتی ہے کہ

”ابرہام کے ہاں اولاد نہیں ہوٸی تو ان کی بیوی ساری (سارہ) نے ابراہیم کو اپنی کنیز ہاجرہ کے پاس بھیج دیا تو ہاجرہ حاملہ ہو گٸ،جب ساری (سارہ) کو پتہ چلا تو اس کو شک پڑا کہ کہیں ہاجرہ مجھے کم تر نہ سمجھے اس لۓ اس نے ہاجرہ کو نکال دیا تو راستے میں ایک فرشتے نے ہاجرہ کو کہا کہ واپس جاٶ تمہارے ہاں ابرہام کا بیٹا پیدا ہو گا اس کا نام اسماعیل رکھنا،تو وہ واپس آگٸ“۔

(عہد نامہ قدیم،پیداٸش،باب 16،فقرہ 1 تا 11)




پھر باٸبل کہتی ہے کہ

ابرہام سے ہاجرہ کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا اور ابرہام نے اس کا نام اسماعیل رکھا۔جب ابرہام کے ہاں ہاجرہ سے اسماعیل پیدا ہوا تب ابرہام کی عمر چھیاسی 86 سال تھی“۔

(عہد نامہ قدیم،پیداٸش،باب 16،فقرہ 15،16)




باٸبل کی ان آیات سے واضح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسماعیل ہی پہلا بیٹا تھا اب ایک اور چیز کو مدنظر رکھیں کہ جب اسماعیل پیدا ہوا تو ابراہیم کی عمر 86 سال تھی۔اب ہم اسحاق کی پیداٸش کب ہوٸ یہ بھی باٸبل سے ہی دیکھتے ہیں۔


تو باٸبل میں اسحاق کی پیداٸش کا تذکرہ کچھ یوں لکھا ہوا ہے کہ

”ایک دن خدا نے ابرہام سے کہا بے شک تیری بیوی سارہ سے تجھ کو بیٹا ہو گا اس کا نام اضحاق (اسحاق) رکھنا۔جب خدا نے یہ سب ابراہیم کو کہہ لیا تو ابراہیم نے اپنے بیٹے اسماعیل اور اپنے تمام مَردوں کو لے کر اُسی دن خدا کے حکم کے مطابق ختنہ کیا،ابراہیم ننانوے 99 برس کا تھا جب اس کا ختنہ ہوا اور اس کا بیٹا اسماعیل تیرہ 13 برس کا تھا،ابراہیم اور اس کے بیٹے اسماعیل کا ختنہ اُسی دن ہوا“۔

(عہد نامہ قدیم،پیداٸش، باب 17،فقرہ 19 تا 26)



دوسری جگہ باٸبل کہتی ہے

”خداوند نے اپنا وعدہ پورا کیا اور سارہ حاملہ ہوٸی اور ابراہیم کے بڑھاپے میں ٹھیک مقرر وقت پر ان کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ابراہیم نے اس کا نام اضحاق (اسحاق) رکھا جب اضحاق پیدا ہوا تو ابراہیم کی عمر سو 100 سال تھی“۔

(عہد نامہ قدیم،پیداٸش،باب 21،فقرہ 1 تا 5)



اوپر والی دونوں باتوں سے ہی یہ پتہ چلتا ہے کہ اضحاق دوسرا بیٹا تھا اور اسماعیل پہلا بیٹا تھا کیونکہ باٸبل کے مطابق اسماعیل اسحاق سے تقریباً 14 سال پہلے پیدا ہوۓ۔


تو جیسا کہ الحمد للہ ہم یہ ثابت کر چکے کہ باٸبل کی وہ آیت تحریف شدہ ہے جس میں اضحاق کا نام ہے ذبیح کے طور پر،اور جب نام نکل جاۓ گا تو پھر سارا واقعہ ہی سمجھ میں آجاتا ہے کہ اکلوتے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تو پہلے بیٹے حضرت اسماعیل ہی تھے اور ان ہی کو ذبح کرنے کے لۓ لے کر جایا گیا۔


اب ہم آتے ہیں قرآن و حدیث کی طرف کہ ان سے ہمیں اس بارے میں کیا رہنماٸی ملتی ہے۔


اللہ تعالی قرآن مجید میں اس واقعے کا ذکر یوں کرتا ہے

”(ابراہیم نے دعا کی)الٰہی مجھے لائق اولاد دے،تو ہم نے اسے خوشخبری سنائی ایک عقل مند لڑکے کی، پھر جب وہ اس کے ساتھ کام کے قابل ہو گیا کہا اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا میں تجھے ذبح کرتا ہوں اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے کہا اے میرے باپ کیجئے جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے ، خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے، تو جب ان دونوں نے ہمارے حکم پر گردن رکھی اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹایا اس وقت کا حال نہ پوچھ،اور ہم نے اسے ندائی فرمائی کہ اے ابراہیم، بیشک تو نے خواب سچ کر دکھایا ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو، بیشک یہ روشن جانچ تھی، اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے کر اسے بچا لیا، اور ہم نے پچھلوں میں اس کی تعریف باقی رکھی، سلام ہو ابراہیم پر، ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو،بیشک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہیں، اور ہم نے اس کو اسحاق نبی کی بشارت دی جو صالح لوگوں میں سے ہوگا“۔(سورة الصافات آیت نمبر 100 تا 112)


ان آیات سے بعض مسلمان محدثین نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ آیات حضرت اسحاق کے ذبیح اللہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں کیونکہ اس میں اسحاق کے نبی ہونے کی بشارت دی گٸ ہے۔


جبکہ یہ بات سراسر غلط ہے کیونکہ اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو امتحان میں کامیاب ہونے پر دوسرے بیٹے کی بشارت دیتے ہوۓ یہ فرمایا کہ اسحاق نبی کی بشارت دی جو صالح لوگوں میں سے ہوگا۔


یہی بات امام ابن کثیر بیان کرتے ہیں۔


اور مسلمانوں کی جس جماعت کے نزدیک حضرت اسحاق ذبیح اللہ ہیں وہ اسراٸیلی روایات کو اپنی دلیل کے طور پر لیتے ہیں۔


امام ابن کثیر ان اسراٸیلی روایات کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

”یوں تو اسراٸیلیات میں قصہ ذبیح کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے جو سراسر خلافِ واقعہ ہے اور تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہ سب من گھڑت باتیں ہیں،(پھر لکھتے ہیں) قرآن شریف کی سورة الصافات میں جو ذکر ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قصہ صرف حضرت اسماعیل ذبیح کا ہے۔(آگے انہوں نے واقعہ بیان کیا)“۔

(البدایہ والنہایہ،جلد 1،صحفہ 168)



اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ ذبیح اللہ حضرت اسماعیل ہی ہیں نہ کہ حضرت اسحاق،اور یاد رہے محدثین کا اجماع بھی اسی بات پر ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام ہی ذبیح اللہ ہیں۔


ہم نے الحَمْدُ ِلله دلاٸل کے ساتھ یہ ثابت کیا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام ہی ذبیح اللہ ہیں نہ کہ حضرت اسحاق علیہ السلام،اب مسیحی حضرات کو بھی چاہیے کہ باٸبل میں کی گٸ تحریف کو مان کر حق کو قبول کریں۔


تحقیق ازقلم:مناظر اسلام محمد ذوالقرنین الحنفی البریلوی

Powered by Blogger.