نہج البلاغہ اور ماتم

 السلام علی من اتبع الھدیٰ

آج کی اس پوسٹ میں ہم نہج البلاغہ (جو کہ شیعہ کے نزدیک قرآن کے بعد سب سے زیادہ معتبر کتاب ہے) کی روشنی میں ماتم پر بات کریں گے کہ اس کتاب میں حضرت علیؓ کے فرامین کے مطابق ماتم کرنا کیسا ہے۔


شیعہ، امام حسینؓ کی شہادت کے غم اور بہت سارے افسانوں کا بہانہ بنا کر ماتم کرتے ہیں کہ امام حسینؓ کی شہادت اور یہ تمام افسانے ہمارے لۓ غم و پریشانی کا سبب ہیں اس لۓ ہم ان کی یاد میں ماتم کرتے ہیں۔


اگر اس بہانے کو دیکھا جاۓ تو اس لحاظ سے نبیﷺ کی وفات کا دن اس بات کا سب سے زیادہ حق رکھتا ہے کہ ان کی وفات کے دن پر سب سے زیادہ ماتم کیا جاۓ،اور اگر صحابہ کرامؓ کے نزدیک بھی ماتم جاٸز ہوتا تو وہ اس دن خود ماتم کرتے۔


لیکن نہج البلاغہ کی روشنی میں تو ہمیں کچھ اور ہی معلوم ہوتا ہے۔


حضرت علی نبیﷺ کی وفات پر ان کو غسل و کفن دیتے وقت فرماتے ہیں کہ!

”اگر آپ نے صبر کا حکم نہ دیا ہوتا اور نالہ و فریاد(رونے پیٹنے)سے روکا نہ ہوتا تو ہم آپ کے غم میں آنسوٶں کا ذخیرہ ختم کر دیتے،اور یہ درد منت پذیر درماں نہ ہوتا اور یہ غم و حزن ساتھ نہ چھوڑتا “۔

(نہج البلاغہ،خطبہ نمبر 232،صحفہ نمبر 549)

نہج البلاغہ اور ماتم


حضرت علیؓ تو نبیﷺ کی وفات پر فرما رہے ہیں کہ اگر آپ نے ہمیں ماتم کرنے سے روکا نہ ہوتا تو ہم اپنی آنکھوں کے تمام آنسو بہا دیتے اور اس درد کی دوا نہ ہوتی اور یہ غم کبھی ساتھ نہ چھوڑتا،لیکن آپ نے ہمیں صبر کرنے کا حکم دیا تھا۔


نہج البلاغہ سے بھی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ نبیﷺ نے تو مصیبت میں رونے پیٹنے سے منع فرمایا تھا اور صبر کرنے کا حکم دیا تھا اور ماتم کرنا تو صحابہ کرامؓ کی سنت بھی نہیں تو شیعہ پھر کس کی سنت پر عمل کر رہے ہیں ؟


ایک اور مقام پر حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ!

”مصیبت کے اندازہ پر اللہ کی طرف سے صبر کی ہمت حاصل ہوتی ہے،جو شخص مصیبت کے وقت ران پر ہاتھ مارے(ماتم و گریہ و زاری کرے)اس کا عمل اکارت(ضاٸع)ہو جاتا ہے“۔

(نہج البلاغہ،نصیحت نمبر 144،صحفہ نمبر 735)


حضرت علیؓ کی اس نصیحت سے بھی یہی معلوم ہو رہا ہے کہ جب کوٸی مصیبت آنے والی ہو تو اللہ کی طرف سے صبر کرنے کی ہمت مل جاتی ہے لیکن اگر کوٸی اپنی من مانی کرۓ اور مصیبت کے وقت گریہ و زاری شروع کر دے تو اس کے اعمال ضاٸع ہو جاتے ہیں کیونکہ اس نے اللہ کی طرف سے ملی آزماٸش پر اللہ کے حکم کے مطابق صبر کرنے کی بجاۓ رونا پیٹنا شروع کر دیا۔


ایک اور مقام پر حضرت علیؓ نے ماتم کے بارے میں سخت جرح کی۔

حضرت علیؓ جب صفین سے پلٹے اور کوفہ پہنچے تو قبیلہ شبام کی آبادی سے گرزے جہاں صفین کے مقتولین پر رونے کی آوازیں آپ کے کانوں میں پڑیں۔اتنے میں حرب جو کہ شبامی قبیلے کے سرداران میں سے تھا، حضرت علیؓ کے پاس آگیا تو آپ نے اس سے فرمایا!

کیا تمہارا ان عورتوں پر بس نہیں چلتا ؟ جو میں رونے کی آوازیں سُن رہا ہوں،اس رونے چلانے سے تم انہیں منع نہیں کرتے ؟

حرب جلدی سے آگے بڑھ کر حضرت علیؓ کے ہم رکاب ہو گیا تو حضرت علیؓ نے فرمایا!

پلٹ جاٶ تم۔ایسے آدمی کا مجھ جیسے کے ساتھ پیادہ چلنا وَالِی کے لۓ فتنہ اور مومن کے لۓ ذلت ہے“۔

(نہج البلاغہ، حکمت و نصیحت نمبر 322، صحفہ نمبر 788)


اس مقام پر حضرت علیؓ نے ماتم و رونے کی آوازوں کو سخت ناپسند فرمایا اور قبیلے کے سردار کو صرف اس وجہ سے اپنا ہمسفر نہیں بنایا کہ وہ اپنے قبیلے کی عورتوں کو ماتم سے منع نہیں کرتا تھا اور ایسے شخص کے ساتھ کے بارے میں فرمایا کہ ایسے شخص کے ساتھ چلنا مومن کے لۓ ذلت ہے۔


تو اب آپ خود اندازہ لگا لیں جس شخص نے اپنی قوم کی عورتوں کو ماتم سے نہیں روکا اس کے بارے میں حضرت علیؓ یہ فرما رہے ہیں کہ ایسا شخص مومن کے لۓ ذلت ہے تو جو شخص خود ماتم کرتا اور وہ خود کس قدر ذلیل ہو گا ؟

اور ایسا شخص امیر المومنینؓ کو کس قدر ناپسند ہو گا اس کا اندازہ آپ خود لگا لیں۔


امید ہے حق سمجھنے کی کوشش کرنے والے کے لۓ اتنے دلاٸل کافی ہیں اور ان سے سب پر حق واضح ہو گیا ہو گا کہ ماتم کرنا اللہ و رسولﷺ اور امیر المومنینؓ کے حکم کی خلاف ورزی کرنا ہے اور مصیبت کے وقت صبر سے کام لینا ہی اللہ و رسولﷺ اور امیر المومنینؓ کی تعلیمات ہیں۔

لیکن اگر پھر بھی کوٸی شخص من مانی کرۓ اور اس کے لۓ اتنے دلاٸل کافی نہ ہوں تو ان شاء اللہ ہم ایسے ڈھیٹ شخص کے لۓ ان کی دوسری کتب سے بھی ماتم کے بارے میں پوسٹ بنا دیں گے۔


دُعا ہے کہ اللہ ہم سب کو حق سننے و سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ۔(آمین)


تحقیق ازقلم:مناظر اسلام محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی

Powered by Blogger.