احمد خان علی گڑھی کا کفر

السلام علی من اتبع الھدیٰ

آج کی اس پوسٹ میں ہم ایک شخص احمد علی خان جو کہ ”سر سید احمد علی خان“ کے نام سے مشہور ہے اس کو اسی کی کفریہ عبارات سے کافر ثابت کریں گے۔

یہ وہ شخص ہے جو نیچری فرقہ کا بانی ہے اور اس نے اسلام کو بدلنے کی کوشش کی۔



یہ بندہ قرآن و حدیث کی عقلی تاویل کرنے کا قاٸل اور جو حدیثیں اس کی باطل تاویل کے خلاف تھیں ان حدیثوں کا منکر تھا۔

اس نے اسلام کے بنیادی عقاٸد کو کس طرح بدلنے کی کوشش کی آٸیں دیکھتے ہیں۔

:فرشتوں کے بارے میں احمد علی خان کا نظریہ

فرشتوں پر ایمان لانا ایمان کا حصہ ہے جیسا کہ اللہ نے ارشاد فرمایا۔

”رسول ایمان لایا اس پر جو اس کے رب کے پاس سے اس پر اترا اور ایمان والے سب نے مانا اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو یہ کہتے ہوئے کہ ہم اس کے کسی رسول پر ایمان لانے میں فرق نہیں کرتے اور عرض کی کہ ہم نے سنا اور مانا تیری معافی ہو اے رب ہمارے! اور تیری ہی طرف پھرنا ہے“۔(سورة البقرة،آیت نمبر 285)

اس آیت میں اللہ نے ایمان والوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ فرشتوں کو مانتے ہیں۔

اور نبیﷺ سے بھی پوچھا گیا کہ ایمان کیا ہے تو فرمایا ”تم اللہ تعالیٰ،اس کے فرشتوں،اس کی کتاب،اس سے ملاقات اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور آخری اٹھنے پر ایمان لے آؤ“۔(صحیح مسلم،حدیث نمبر 97)

اس حدیث میں بھی نبیﷺ نے فرشتوں پر ایمان لانے کو ایمان فرمایا۔


!لیکن احمد علی فرشتوں کے وجود کا انکار کرتے ہوۓ لکھتا ہے کہ

”عام مسلمانوں کا بھی فرشتوں کے بارے میں یہی عقیدہ ہے جو عرب کے بُت پرستوں کا تھا،مگر ایسی خلقت(فرشتوں) کے در حقیقت میں موجود ہونے کی بھی کوٸی دلیل نہیں،کیونکہ اس بات کا ثبوت کہ ایسی خلقت درحقیقت ہے،نہیں ہے،قرآن سے فرشتوں کا ایسا وجود جیسا مسلمانوں نے اعتقاد کر رہا ہے ثابت نہیں“۔(تفسیر احمد علی خان،صحفہ نمبر 55)



جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ احمد علی فرشتوں کے وجود کا صاف انکار کر رہا ہے اور قرآن پر بہتان باندھ رہا ہے کہ فرشتوں کا وجود قرآن سے ثابت نہیں۔

!ایک دوسری جگہ پر فرشتوں کے ساتھ ساتھ شیطان کا انکار کرتے ہوۓ لکھتا ہے کہ

”جن فرشتوں کا قرآن میں ذکر ہے ان کا کوٸی اصلی وجود نہیں ہو سکتا،جس کو ملک یا ملاٸکہ کہا ہے جن میں سے شیطان یا ابلیس بھی ہے،پہاڑوں کی صلابت،پانی کی رقت،درختوں کی قوت نمو،برق کی قوت جذب و دفع غرضکہ تمام قویٰ جنسی مخلوقات موجود ہوٸی ہیں،اور جن مخلوقات میں ہیں وہی ملاٸک و ملاٸکہ ہیں جنکا ذکر قرآن میں آیا ہے،انسان میں ایک مجموعہ قواۓ ملکوتی و قواے بہیمی کا ہے،اور ان دونوں قوتوں کے بے انتہا ذریات ہیں،جو ہر قسم کی نیکی و بدی میں ظاہر ہوتے ہیں،یہی انسان کے فرشتے ہیں اور یہی انسان کے شیطان ہیں“۔(تفسیر احمد علی،صحفہ نمبر 56)



احمد علی خان یہاں پر فرشتوں کے ساتھ ساتھ شیطان کے انکار کرتا ہے اور اسے انسان کے اندر کی ہی ایک طاقت کہتا ہے کہ انسان کے اندر جو نیکی کرنے کی قوت ہے اس کا نام فرشتے ہیں اور جو براٸی کرنے کی طاقت ہے وہ اس کا شیطان ہے،یعنی کہ احمد علی فرشتوں و شیطان کو محض انسانی سوچ و نفس سمجھتا ہے۔اور ملاٸکہ کی جس طاقت کا ذکر قران میں ہوا ہے اس کے بارے میں یہ کہتا کہ یہ سب درختوں کی طاقت،پانی کی طاقت،بجلی کی طاقت پہاڑوں کی طاقت وغیرہ ہیں۔

!ایک جگہ پر احمد علی خان جبرٸیل کے بارے میں کہتا ہے کہ

”یہودی جس کو جبرٸیل کہتے ہیں وہ درحقیقت ملکہ نبوت خود نبیﷺ میں تھا جو وحی کا باعث تھا،اور ثابت ہوتا ہے کہ جبرٸیل درحقیقت کسی فرشتے کا نام ہی نہیں ہے“۔(تفسیر احمد علی خان،صحفہ نمبر 166)



یہاں پر احمد علی خان جبرٸیل کے بارے میں کہہ رہا ہے کہ یہ کوٸی فرشتہ نہیں تھا بلکہ نبیﷺ اور دوسرے انبیا کی طبیعت میں اپنا ایک خیالی کردار تھا۔


ایک واقعہ جو قرآن مجید میں موجود ہے اور ہم سبھی نے پڑھا ہوا ہے کہ غزوہ بدر میں اللہ نے تین ہزار فرشتے نازل فرما کر مسلمانوں کی مدد کی۔

!جیسا کہ اللہ نے فرمایا

”جب اے محبوب تم مسلمانوں سے فرماتے تھے کیا تمہیں یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تمہاری مدد کرے تین ہزار فرشتہ اتار کر۔“(سورة آل عمران،آیت نمبر 124)

!اس واقعے کے بارے میں احمد علی لکھتا ہے کہ

”بڑا مسٸلہ بحث طلب ہے اس آیت میں فرشتوں کا لڑاٸی میں دشمنوں سے لڑنے کے لۓ اترنا ہے،”میں اس بات کا بلکل منکر ہوں“(یعنی انکار کرتا ہوں) مجھے یقین ہے کہ کوٸی فرشتہ لڑنے کو سپاہی بن کر یا گھوڑے پر چڑھ کر نہیں آیا،مجھ کو یہ بھی یقین ہے کہ قرآن سے بھی ان جنگجو فرشتوں کا اترنا ثابت نہیں ہے،مگر تمام مسلمانوں کا اعتقاد اس کے برخلاف ہے وہ یہ یقین کرتے ہیں کہ درحقیقت فرشتوں کا دستہ لڑنے کو اترا تھا،وہ نادانی سے یہ بھی کہتے ہیں کہ فرشتوں کا لڑاٸی کے لۓ اترنا منصوص ہے اور اس سے انکار،قرآن کا انکار کرنا ہے،مگر ان کا یہ خیال محض غلط ہے“۔(تفسیر احمد علی،سورة آل عمران،صحفہ نمبر 52 تا 54)



یہاں پر احمد علی قرآن کی واضح آیت کا انکار کرتا ہے اور یہ اقرار کرتا ہے کہ میں اس بات کا منکر ہوں کہ کوٸی فرشتہ جنگ میں مدد کے لۓ آیا تھا۔اور کہتا ہے کہ یہ اعتقاد(کہ فرشتے آٸے تھے) مسلمانوں نے قرآن کے خلاف رکھا ہوا ہے۔


:جنت کے بارے میں احمد علی خان کا نظریہ


جنت کے بارے میں ہم سبھی مسلمان جانتے ہیں کہ نیک اعمال کرنے والے مسلمانوں کو آخرت میں جنت دی جاۓ گی۔

!اللہ ایک جگہ پر فرماتا ہے

”ان کے لیے بسنے کے باغ ہیں ان کے نیچے ندیاں بہیں وہ اس میں سونے کے کنگن بہنائے جایں گے اور سبز کپڑے کریب اور قنادیز کے پہنیں گے وہاں تختوں پر تکیہ لگائے کیا ہی اچھا ثواب اور جنت کی کیا ہی اچھی آرام کی جگہ“۔(سورة الکھف،آیت نمبر 31)

!ایک اور جگہ فرمایا

”احوال اس جنت کا جس کا وعدہ پرہیزگاروں سے ہے ، اس میں ایسی پانی کی نہریں ہیں جو کبھی نہ بگڑے اور ایسے دودھ کی نہریں ہیں جس کا مزہ نہ بدلا اور ایسی شراب کی نہریں ہیں جس کے پینے میں لذت ہے اور ایسی شہد کی نہریں ہیں جو صاف کیا گیا اور ان کے لیے اس میں ہر قسم کے پھل ہیں ، اور اپنے رب کی مغفرت کیا ایسے چین والے ان کے برابر ہو جائیں گے جنہیں ہمیشہ آگ میں رہنا اور انہیں کھولتا پانی پلایا جائے گا کہ آنتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے“۔(سورة محمد،آیت نمبر 15)


!ایک جگہ پر حوروں کا ذکر فرمایا کہ

”وہاں نیچی نگاہ والی حوریں ہیں جنہیں ان سے پہلے کسی جن و انس نے ہاتھ نہیں لگایا“۔(سورة الرحمنٰ،آیت نمبر 56)


ان آیات میں اللہ نے جنت اور اس کی نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے

!لیکن احمد علی ان سب کا مذاق اڑاتے ہوۓ لکھتا ہے کہ

”یہ سمجھنا کہ جنت مثل ایک باغ کے پیدا ہوٸی ہے،اس میں سنگ مرمر کے اور موتی جڑاٶ محل ہیں باغ میں شاداب و سر سبز درخت ہیں،دودھ و شراب و شہد کی ندیاں بہہ رہی ہیں،ہر قسم کا میوہ کھانے کو موجود ہے،ساقی و ساقنیں نہایت خوبصورت،چاندی کے کنگن پہنے ہوۓ ہیں جو ہماری ہاں کی گھوسنیں(دودھ بیچنے والی عورت) پہنتی ہیں،شراب پلا رہی ہیں،ایک جنتی ایک حور کے گلے میں ہاتھ ڈالے پڑا ہے،ایک نے ران پر سر دھرا ہے،ایک چھاتی سے لپٹا ہوا ہے،ایک نے لب جان بخش کا بوسہ لیا ہے،کوٸی کسی کونے میں کچھ کر رہا ہے کوٸی کسی کونے میں کچھ،ایسا بیہودہ پن ہے جس پر تعجب ہی کیا جا سکتا ہے،اگر بہشت یہی ہے تو بے مبالغہ ہمارے خرابات(شراب خانے) اس سے ہزار درجہ بہتر ہیں(معاز اللہ)“۔(تفسیر احمد علی،صحفہ نمبر 44)



اس جگہ احمد علی جنت اور اس کی نعمتوں کا مذاق اڑاتے ہوۓ کہہ رہا ہے کہ یہ سب بیہودہ پن ہے اور اگر جنت یہی ہے تو ہمارے شراب خانے اس سے ہزار درجہ بہتر ہیں۔


:جنات کے بارے میں احمد علی خان کا نظریہ

جنات کے بارے میں بھی ہم سبھی جانتے ہیں کہ اللہ نے ان کو آگ سے پیدا فرمایا اور یہ بھی ایک مخلوق ہے۔

جیسا کہ اللہ فرماتا ہے!

”اور جِنات کو اس سے پہلے بنایا بے دھوئیں کی آگ سے“۔(سورة الحجر،آیت نمبر 27)

!لیکن احمد علی خان لکھتا ہے کہ

”ان آیتوں میں ”جِن“ کا لفظ آیا ہے،اس سے وہ پہاڑی و جنگلی آدمی مراد ہیں جو حضرت سلیمان کے ہاں بیت المقدس بنانے کا کام کرتے تھے،اور ان پر یہ سب وحشی و جنگلی ہونے کی جو انسانوں سے چھپ کر جنگلوں اور پہاڑوں میں رہتے ہیں اس وجہ سے لفظ ”جِن“ کا اطلاق ہوتا ہے اس سے مراد وہ جِن نہیں جن کو مشرکین نے اپنے خیال میں ایک مخلوق سمجھ لیا ہے،اور جس پر مسلمان بھی یقین کرتے ہیں“۔(تفسیر احمد علی،جلد3،صحفہ نمبر67،68)



یہاں پر احمد علی خان نے قرآن کی آیات کا انکار کرتے ہوۓ جنات کو جنگلی و وحشی مخلوقات قرار دیا اور مسلمانوں کے اعتقاد کو مشرکین سے تشبیہ دی کہ مشرکین کا یہ نظریہ ہے جو مسلمانوں کا ہے۔

:رٶیتِ باری تعالیٰ کے بارے میں احمد علی خان کا نظریہ

اہلسنت کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ نبیﷺ نے اللہ تعالی کو دیکھا ہے،اگر کسی غیر مقلد نے اس چیز سے انکار بھی کیا ہے تب بھی آخرت میں وہ اللہ کے دیدار کا قاٸل ہے۔

!جیسا کہ نبیﷺ نے بھی فرمایا ہے

”جب جنت والے جنت میں داخل ہو جاٸیں گے تو اللہ فرماۓ گا،تمہیں کوٸی اور چیز چاہیے جو تمہیں مزید عطا کروں ؟ وہ جواب دیں گے کیا تو نے ہمارے چہرے روشن نہیں کیے!کیا تو نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا اور دوزخ سے نجات نہیں دی ؟ آپﷺ نے فرمایا چنانچہ اس پر اللہ پردہ اٹھا دے گا تو انہیں کوٸی چیز ایسی عطا نہیں ہوٸی ہو گی جو انہیں اپنے رب کے دیدار سے زیادہ محبوب ہو“۔(صحیح مسلم،حدیث نمبر 449)

!لیکن احمد علی خان اس چیز کا انکار کرتے ہوۓ  لکھتا ہے کہ

”خدا کو دیکھنا دنیا میں نہ ان آنکھوں سے ہو سکتا ہے اور نہ ان آنکھوں سے جو دل کی آنکھیں کہلاتی ہیں اور نہ قیامت میں کوٸی شخص خدا کو دیکھ سکتا ہے“۔(تفسیر احمد علی،جلد 3،صحفہ نمبر 204 )



حجر اسود اور کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کے بارے میں احمد علی خان :کا نظریہ


حجر اسود کے بارے میں سبھی مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ یہ جنت سے اتارا گیا تھا۔!جیسا کہ نبیﷺ نے فرمایا

”حجر اسود جنت سے اترا، وہ دودھ سے زیادہ سفید تھا، لیکن اسے بنی آدم کے گناہوں نے کالا کر دیا“۔(ترمذی،حدیث نمبر 877)


اور سبھی مسلمان جانتے ہیں کہ نماز کے لۓ قبلہ کہ طرف رُخ کرنا لازمی ہے۔اگر کوٸی شخص بلا کسی شرعی عذر قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز نہ پڑھے تو اس کی نماز نہیں ہوتی۔

!جیسا کہ اللہ فرماتا ہے

”اور اے محبوب تم جہاں سے آؤ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کرو اور اے مسلمانو! تم جہاں کہیں ہو اپنا منہ اسی کی طرف کرو کہ لوگوں کو تم پر کوئی حجت نہ رہے مگر جو ان میں ناانصافی کریں تو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو اور یہ اس لئے ہے کہ میں اپنی نعمت تم پر پوری کروں اور کسی طرح تم ہدایت پاؤ“۔(سورة البقرة،آیت نمبر 150)


!لیکن احمد علی خان ان دونوں چیزیوں کے بارے میں لکھتا ہے کہ

”حضرت ابراہیم نے عبادت کے لۓ ایک پتھر کھڑا کر دیا جو اب ہم مسلمانوں میں حجر اسود و یمین الرحمنٰ سے مشہور ہے“۔(تفسیر احمد علی،صحفہ نمبر 189)

!اور قبلہ کی طرف منہ کرنے کے بارے میں کہتا ہے کہ

”کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا اسلام کا کوٸی اصلی حکم نہیں ہے،(ایک اور جگہ لکھتا ہے)نماز میں سمت قبلہ کوٸی حکم اصلی مذہب اسلام کا نہیں ہے“۔(تفسیر احمد علی،صحفہ نمبر 201،207)



یہاں پر احمد علی خان حجر اسود کے جنت سے لاۓ جانے کا انکار کرتا ہے اور ساتھ ہی اس بات کا بھی انکار کرتا ہے کہ نماز میں قبلہ کی طرف منہ کرنے کا حکم اسلام میں دیا گیا ہے۔


:احمد علی خان کا حضرت عیسیٰ کے بارے میں نظریہ


مسلمانوں کو معلوم ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے بغیر باپ کے پیدا کیا تھا اور انہوں نے پیدا ہوتے ہی دودھ پینے کی عمر میں کلام کیا تھا۔

!جیسا کہ اللہ فرماتا ہے

”اور یاد کرو جب فرشتوں نے مریم سے کہا ، اے مریم! اللہ تجھے بشارت دیتا ہے اپنے پاس سے ایک کلمہ کی جس کا نام ہے مسیح عیسیٰ مریم کا بیٹا باعزت ہو گا دنیا اور آخرت میں اور قرب والا،اور لوگوں سے بات کرے گا پالنے میں اور پکی عمر میں اور خاصوں میں ہو گا، بولی اے میرے رب! میرے بچہ کہاں سے ہو گا مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ نہ لگایا“۔(سورة آل عمران،آیت نمبر 45،46)

یہاں پر فرشتوں نے حضرت مریم کو بشارت کی کہ تیرے ہاں بیٹا ہو گا اور پالنے(گود) میں لوگوں سے باتیں کرے گا،تو حضرت مریم نے فرمایا مجھے لڑکا کیسے ہو گا مجھے تو کسی مرد نے نہیں چھوا۔

!ایک اور مقام پر اللہ فرماتا ہے کہ

”تو اسے گود میں لے اپنی قوم کے پاس آئی بولے اے مریم! بیشک تو نے بہت بری بات کی، اے ہارون کی بہن تیرا باپ برا آدمی نہ تھا اور نہ تیری ماں بدکار،اس پر مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا وہ بولے ہم کیسے بات کریں اس سے جو پالنے میں بچہ ہے،بچہ نے فرمایا میں ہوں اللہ کا بندہ اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے نبی کیا“۔(سورة مریم،آیت 27 تا 30)

یہاں پر جب حضرت مریم حضرت عیسیٰ کو گود میں لے کر آٸیں تو قوم نے حضرت مریم کو کہا بغیر نکاح کے بچہ کہاں سے ہو گیا ؟ نہ تیرا باپ برا تھا نہ تیری ماں تو حضرت مریم نے بچے کی طرف اشارہ کر دیا،تو قوم نے کہا کہ یہ تو دودھ پیتا بچہ ہے تو حضرت عیسیٰ نے کلام فرمایا۔

!جبکہ احمد علی خان لکھتا ہے کہ

”حضرت عیسی کا بغیر باپ کے پیدا ہونا قرآن کی کسی آیت سے ثابت نہیں ہوتا“۔(تفسیر احمد علی،سورة آل عمران،صحفہ نمبر 35)



!دوسری جگہ لکھتا ہے کہ

”حضرت مریم کا نکاح یوسف سے ہوا تھا اور حسب قانون فطرت وہ اپنے شوہر یوسف سے حاملہ ہوٸیں(یعنی حضرت عیسیٰ کا باپ یوسف تھا)“۔(تفسیر احمد علی،سورة آل عمران،صحفہ نمبر 30)



!اور حضرت عیسیٰ کے بچپن میں کلام کرنے کا انکار کرتے ہوۓ لکھتا ہے کہ

”قرآن مجید سے ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت عیسیٰ نے ایسی عمر میں جس میں حسب فطرت انسانی کوٸی بچہ کلام نہیں کرتا کلام کیا“۔(تفسیر احمد علی،سورة آل عمران،صحفہ نمبر 31)



:میزان کے بارے میں احمد علی خان کا نظریہ

مسلمان یہ بھی جانتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ ایک ترازو میں انسانوں کی نیکیاں اور گناہ کا حساب کرے گا۔

!جیسا کہ اللہ فرماتا ہے

”اور ہم عدل کی ترازو رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہو گا،اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اسے لے آئیں گے،اور ہم کافی ہیں حساب کو“۔(سورة الانبیا،آیت نمبر 47)

!ایک اور مقام پر فرمایا

”اور اس روز وزن بھی برحق ہے پھر جس شخص کا پلا بھاری ہوگا سو ایسے لوگ کامیاب ہونگے،اور جس شخص کا پلا ہلکا ہوگا سو یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنا نقصان کر لیا بسبب اس کے کہ ہماری آیتوں کے ساتھ ظلم کرتے تھے“۔(سورة الاعراف،آیت نمبر 8،9)

!لیکن احمد علی خان کہتا ہے کہ

”عام مسلمانوں کا عقیدہ ہے اور اس پر انہوں نے بہت سی بے بنیاد حدیثیں بھی بنا لی ہیں کہ قیامت کے دن بندوں کے اعمال تولنے کے لۓ ایک ترازو ہو گی جس میں ایک پلڑا بہشت اور ایک پلڑا دوزخ کا ہو گا“۔(تفسیر احمد علی،جلد3،صحفہ نمبر 73)



یہاں پر احمد علی میزان کا انکار کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں پر بہتان بھی باندھ رہا ہے کہ مسلمانوں نے اس پر بہت سی حدیثیں گھڑ لی ہیں۔


:حضرت موسیٰ کے معجزے کے بارے میں احمد علی خان کا نظریہ

مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ نے اپنے انبیا کو معجزات عطا فرماۓ،جن میں سے ایک معجزہ حضرت موسیٰ کو یہ بھی عطا کیا گیا کہ انہوں نے اپنا عصا سمندر میں مارا اور اس میں سے خشک راستہ بن گیا اور حضرت موسیٰ اور ان کی قوم اس سے گزر گۓ اور جب فرعون نے اس میں سے گزرنا چاہا تو وہ سمندر دوبارہ مل گیا اور وہ ڈوب گیا۔

!جیسا کہ اللہ فرماتا ہے

”تو ہم نے موسیٰ کو وحی فرمائی کہ دریا پر اپنا عصا مار تو جبھی دریا پھٹ گیا تو ہر حصہ ہو گیا جیسے بڑا پہاڑ“۔(سورة الشعرا،آیت نمبر 63)

!لیکن احمد علی خان اس کے بارے میں لکھتا ہے کہ

”جس جگہ سے بنی اسراٸیل گزری تھی وہاں کا جغرافیہ ایسا تھا کہ وہاں رات کو پانی کم ہو جاتا تھا اور دن کو زیادہ تو حضرت موسیٰ رات کو جب سمندر میں خشک زمین نکل آٸی تو وہاں سے قوم کو لے کر چلے گۓ اور جب صبح فرعون اور اس کا لشکر وہاں اترا تو پانی بڑھ گیا اور وہ سب ڈوب گۓ“۔(تفیسر احمد علی،جلد 1،صحفہ نمبر 101 تا 104)



:نبوت کے بارے میں احمد علی خان کا نظریہ

نبوت اللہ کی طرف سے عطا کردہ ایک ایسی شان ہے جو اللہ نے اپنے خاص بندوں کو عطا فرماٸی اور اپنے نبیﷺ پر اس سلسلہ کو ختم کر دیا۔

!لیکن احمد علی خان نبوت کے بارے میں لکھتا ہے کہ

”نبوت ایک فطری چیز ہے،جو انبیا میں بمتقضاۓ اپنی فطرت کے مثل دیگر قواے انسانی کے ہوتی ہے،کسی خاص انسان میں ازروے خلقت و فطرت کے ایسا قویٰ ہوتا ہے کہ وہ اسی کا امام یا پیغمبر کہلاتا ہے،ایک لوہار بھی اپنے فن کا امام یا پیغمبر ہو سکتا ہے،شاعر بھی اپنے فن کا امام یا پیغمبر ہو سکتا ہے،ایک طبیب بھی فِن طب کا امام یا پیغمبر ہو سکتا ہے،مگر جو شخص روحانی امراض کا طبیب ہوتا ہے اور جس میں اختلاق انسانی کی تعلیم و تربیت کا ملکہ بمتقضاۓ اسکی فطرت کے خدا سے عنایت ہوتا ہے وہ پیغمبر کہلاتا ہے“۔(تفسیر احمد علی،سورة البقرة،صحفہ نمبر 31،32)



یہاں پر احمد علی خان یہ کہہ رہا ہے کہ نبوت ایک فطری چیز ہے جو قواے انسانی کے ہوتی ہے۔اور انسان میں بہت ساری قوتیں ہوتی ہیں اور بہت سارے فن ہوتے ہیں جو انسان جس فن میں ماہر ہو وہ اس فن میں اس چیز کا امام یا پیغمبر کہلا سکتا ہے۔(معازاللہ)


:احرامِ حج کے بارے میں احمد علی خان کا نظریہ

سبھی مسلمان جانتے ہیں کہ حج کے لۓ جو لباس پہنا جاتا ہے وہ نبیﷺ کی سنت ہے،اور مسلمان ہمیشہ سے اسی میں حج ادا کرتے ہیں،اور یہ ایک بہت اہم فریضہ ہے۔

جبکہ احمد علی خان احرامِ(لباس) حج کا مذاق اڑانے کے ساتھ ساتھ اس کو زمانہ جاہلیت کا رواج کہتا ہے۔

!لکھتا ہے کہ

”اس میں کوٸی شک نہیں کہ اسکا رواج زمانہ جاہلیت سے برابر چلا آرہا ہے،اور اسلام میں بھی قاٸم ہے،یہ پوشاک جو حج کے دنوں میں پہنی جاتی ہے ابراہیمی زمانے کی پوشاک ہے،حضرت ابراہیم کے زمانہ میں دنیاۓ سویلزیشن(تہذیب) میں جو تمدنی اموار سے علاقہ رکھتی ہے کچھ ترقی نہیں کی تھی،وہ قطع کیا ہوا کپڑا(ساٸیذ کے مطابق لباس کاٹنا)بنانا نہیں جانتے تھے،اس زمانہ کی پوشاک یہی تھی کہ ایک تہ بند باندھ لیا،(اور ساتھ ہی حضرت ابراہیم کی گستاخی کرتا ہے کہ) حج جو اس بڈھے خدا پرست(یعنی حضرت ابراہیم)کی عبادت کی یادگاری میں قاٸم ہوا تھا،تو اس عبادت کو اسی طرح اور اسی لباس میں ادا کرنا قرار پایا تھا،جس طرح اور جس لباس میں اُس نے(حضرت ابراہیم نے) کی تھی،محمدﷺ نے شروع سویلزیشن(تہذیب) کے زمانہ میں بھی اسی وحشیانہ صورت و وحشیانہ لباس کو ہمارے بڈھے دادا(ابراہیم) کی عبادت کی یادگار میں قاٸم رکھا“۔(تفسیر احمد علی،سورة البقرة،صحفہ نمبر 266،267)



آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح احرامِ حج کا مذاق اڑا رہا ہے اس کو وحشیانہ لباس کہہ کر۔اور کس طرح حضرت ابراہیم کی گستاخی کر رہا ہے ان کو ”خدا پرست بڈھا کہہ کر“،اور نبیﷺ کی شان میں بھی گستاخی کر رہا ہے کہ نبیﷺ نے جب دنیا ترقی کر رہی تھی تب بھی اس وحشیانہ لباس کو ہمارے بڈھے دادا(ابراہیم) کی یاد میں قاٸم رکھا۔معازاللہ


:خدا کے بارے میں احمد علی خان کا نظریہ

!احمد علی خان خدا کے بارے میں جو نظریہ رکھتا ہے وہ خود پڑھیں،لکھتا ہے کہ

”جو ہمارے خدا کا مذہب وہے وہی ہمارا مذہب ہے،خدا نہ ہندو ہے،نہ عرفی مسلمان،نہ مقلد،نہ لامذہب،نہ یہودی،نہ عیساٸی، وہ تو پکا چھٹا نیچری ہے،وہ خود اپنے آپ کو نیچری کہتا ہے“۔(مقالات سر سید،جلد 15،صحفہ نمبر 141)



آپ دیکھ سکتے ہیں کہ خدا پر بہتان باندھ رہا ہے کہ خدا خود کو نیچری کہتا ہے اور خدا نیچری ہے۔

آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایسا شخص جس نے چودہ سو سال کے مسلمانوں کے عقاٸد کو مشرکانہ عقاٸد اور مسلمانوں کے اموار کو کفار کے ساتھ ملایا۔کس طرح قرآن کے کھلی آیات کا انکار کیا اور کس طرح مسلمانوں پر بہتان باندھے۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ جو شخص قرآن کی کسی ایک آیت کا بھی منکر ہو وہ کافر ہے،جبکہ یہ بندہ پورے قرآن کا ہی منکر ہے۔

پس ثابت ہوا کہ احمد علی خان المعروف”سر سید احمد علی خان“ ایک کافر و زندیق شخص تھا،جس کے عقاٸد مسلمانوں والے نہیں تھے اور اس نے اسلام کو بدلنے کی ہر ممکن کوشش کی۔

تحقیق ازقلم:مناظر اسلام محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی

Powered by Blogger.