اسلام میں پسند کی شادی کرنا کیسا ؟

 اسلام میں پسند کی شادی کرنا کیسا ؟


اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

آج کی اس پوسٹ میں ہم اسلام میں مرد و عورت کے لیے پسند کی شادی کرنے کے بارے میں بیان کریں گے کہ کیا اسلام میں پسند کی شادی کرنا جاٸز ہے یا نہیں ؟


اسلام میں مرد و عورت کو پسند کی شادی کرنے کا پورا اختیار حاصل ہے،لیکن اس کی کچھ شراٸط بھی ہیں جو کہ آپ تحریر میں ملاحظہ فرماٸیں گے۔


اللہ قرآن میں پسند کی شادی کرنے کے بارے میں فرماتا ہے

”نکاح کرو ان عورتوں سے جو تمہیں پسند ہوں دو،دو سے تین،تین سے چار،چار سے پھر اگر تمہیں ڈر ہو کہ دو میں انصاف نہیں سکو گے تو پھر ایک سے ہی کرو“۔

(سورة النسا آیت نمبر 3)


اس آیت میں اللہ نے مرد کو پسند کی شادی کرنے کی اجازت دی ہے کہ جس عورت کو تم پسند کرتے ہو اس سے شادی کر لو۔


اور نبیﷺ نے بھی محبت کرنے والوں کو نکاح کرنے کا حکم دیا ہے۔


نبیﷺ کا فرمان ہے

”دو محبت کرنے والوں میں نکاح سے بہتر کوٸی چیز نہیں“۔

(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1847)



اس حدیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص کسی عورت سے محبت کرتا ہو تو اس سے نکاح کر لینا چاہیے۔


امام ابن جوزی بھی کہتے ہیں کہ

”جو شخص کسی کی محبت کا شکار ہو تو وہ اسی عورت سے شادی کرنے کی کوشش کرے جس کے عشق میں مبتلا ہوا ہے یہ شادی کرنا بھی تب جاٸز ہے جب اس عورت سے شادی کرنا جاٸز ہو(یعنی کہ وہ عورت پہلے سے شادی شدہ نہ ہو)“۔

(ذم الھویٰ صحفہ نمبر 202)



اسلام میں عورت کی شادی کے لۓ اس کی اجازت لینے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔اور اگر عورت نکاح کی اجازت نہ دے تو اس کا نکاح اس شخص سے کرنا جاٸز نہیں جسے وہ پسند نہیں کرتی۔


نبیﷺ نے فرمایا

”بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جاۓ جب تک اس سے پوچھ نہ لیا جاۓ(کہ آیا اسے یہ شخص پسند ہے یا نہیں) اور کنواری کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جاۓ جب تک اس کی اجازت نہ لی جاۓ،صحابہ نے پوچھا اللہ کے رسولﷺ ! کنواری کی اجازت کس طرح ہو گی ؟(کیونکہ کنواری لڑکی شرماتی ہے) تو نبیﷺ نے فرمایا(پیغامِ نکاح سن کر) اس کا خاموش رہنا ہی اس کی اجازت ہے“۔

(صحیح بخاری حدیث نمبر 5136)



اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ عورت کی اجازت لینا ضروری ہے اگر اسے مرد پسند ہو تب ہی اس سے نکاح کریں اور اگر اسے مرد پسند نہ ہو تو اس کا نکاح اس مرد سے نہ کیا جاۓ۔


کنواری لڑکی کی خاموشی شرعی طور پر اس کی اجازت میں شامل ہو گی۔کیونکہ اگر وہ اس مرد کو پسند نہیں کرتی تو زبان سے انکار کر دے۔لیکن اگر جب اس کو پیغام دیا گیا اور اس نے انکار نہیں کیا اور خاموش ہی رہی تو شادی کے بعد لڑکی کو اس بات کا حق نہیں کہ وہ ناپسندیدگی کا اظہار کرے اور یہ کہے کہ اس کے گھر والوں نے اس کے ساتھ زبردستی کی۔


اگر اس کے انکار کے باوجود اس کے گھر والے زبردستی اس کا نکاح اس سے کر دیں تو لڑکی اپنی مرضی سے خلع لے سکتی ہے۔

جیسا کہ اس واقعے سے پتہ چلتا ہے۔

حضرت خنسا بنت خدام کے والد نے ان کا نکاح ان کی مرضی کے خلاف کسی سے کر دیا تو جب نبیﷺ کو انہوں نے یہ سب بتایا تو نبیﷺ نے وہ نکاح فسخ(ختم) کر دیا۔

(صحیح بخاری حدیث نمبر 5138)



ایسا ہی ایک اور واقعہ کچھ یوں ہے کہ 

ایک جوان عورت نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوٸی اور عرض کی کہ میرے والد نے اپنے فاٸدے کے لۓ میرا نکاح اپنے بھتیجے سے کر دیا تو نبیﷺ نے اسے اختیار دیا(یعنی کہ نکاح میں رہنا چاہتی ہے یا نہیں) تو اس عورت نے کہا میرے والد نے جو کر دیا میں اس اجازت دیتی ہوں،میں بس یہ چاہتی تھی کہ عورتوں کو پتہ چل جاۓ کہ باپ کو انکے بارے میں ان کی رضامندی کے بغیر ان کی شادی کرنے کا اختیار نہیں۔

(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1874)



اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گھر والوں کے لیے جاٸز نہیں کہ وہ زبردستی لڑکی کی مرضی کے خلاف اس کا نکاح کسی سے کریں۔


اب ہم ایک مسٸلے کی طرف آتے ہیں کہ آیا کورٹ میرج جاٸز ہے یا نہیں ؟

کورٹ میرج ایک لحاظ سے جاٸز بھی ہے اور ایک لحاظ سے ناجاٸز بھی۔


کورٹ میرج میں عموما ہوتا یہ ہے کہ گھر والوں کے رضامندی کے بغیر ان سے کر چھپ کر ہی لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کے ساتھ شادی کر لیتے ہیں،تو نبیﷺ نے ایسے نکاح کے بارے میں فرمایا کہ یہ باطل ہے۔


نبیﷺ کا فرمان ہے

”جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے،اور یہ تین مرتبہ فرمایا،پھر فرمایا اگر ولیوں کا جھگڑا ہو جاۓ تو حاکم ولی ہو گا،اس کا بھی جس کا کوٸی ولی نہیں(یعنی یتیم)“۔

(سنن ابوداٶد حدیث نمبر 2083)



اس حدیث سے دو چیزیں پتہ چلتی ہیں،ایک تو یہ کہ چھپ کر بغیر ولی کی اجازت کے نکاح کرنا باطل ہے اور اللہ کے عذاب کا باعث ہے۔


دوسری بات یہ پتہ چلتی ہے کہ اگر ولیوں میں جھگڑا ہو جاۓ تو پھر حاکم ولی ہو گا۔


اس کا مطلب یہ کہ جو لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں وہ اپنے گھر والوں سے بات کریں اور نکاح کا پیغام بھیجیں۔تب اگر لڑکا یا لڑکی کے ولیوں میں جھگڑا ہو جاۓ یعنی بعض کہیں کہ نکاح کر لیں لیکن بعض کہیں کہ نہ کرو تو تب حاکم(جج) ولی ہو گا اور اسکی اجازت پر نکاح کرنا جاٸز ہے۔اور یہی کورٹ میرج کی جاٸز صورت ہے۔


چھپ کر گھر والوں کو بتاۓ بغیر نکاح کرنا حرام ہے جو کہ ذیل میں بیان کردہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔


نبیﷺ نے فرمایا

”نکاح اعلانیہ کرو اور اس پر دف بجاٶ“۔

(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1895)


ایک اور مقام پر فرمایا

”حلال و حرام(نکاح)میں فرق دف اور نکاح میں آواز(گانے بجانے کی آواز) سے ہوتا ہے“۔

(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1896)



ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ نکاح اعلانیہ طور پر کرنا چاہیے اور (گھر والوں سے)چھپ چھپا کر کیا گیا نکاح حرام ہے۔


ان احادیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ نکاح پر دف بجانا اور گانا بجانا جاٸز ہے(بشرط یہ کہ گانہ کفریہ کلمات پر مشتمل نہ ہوں)۔


دعا ہے کہ اللہ ہمیں حلال طریقے سے نکاح کرنے اور اس سنت کو مکمل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ۔(آمین)


تحقیق ازقلم:مناظر اہلسنت والجماعت محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی


Zulqarnain Hanfi Barelvi

Powered by Blogger.