غصبِ فدک کی حقیقت شیعہ کتب سے

السلام علی من اتبع الھدیٰ

آج کی اس پوسٹ میں ہم باغ فدک کے غصب کی حقیقت بیان کریں گے کہ باغ فدک کیا تھا اور اس پر کی جانے والی بحث کی حقیقت کیا ہے۔

یہ پوسٹ میں دو حصوں میں تقسیم کر رہا ہوں.پہلے حصے کے اندر میں انبیا کی میراث کو شیعہ کتب سے بیان کروں گا اور دوسرے حصے میں باغ فدک کی تقسیم کو شیعہ کتب سے بیان کروں گا۔


حصہ اول:(انبیا کی میراث)

ایک وڑیو نظر سے گزری جس میں اہلتشیع کے ایک زاکر نے یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے کہ علم انبیا کی میراث نہیں ہوتا اور وڑیو کے Thumbnail پر لکھا ہوا ہے کہ یہ روایت (انبیا میراث نہیں چھوڑتے) صرف حضرت ابو بکر صدیقؓ نے بیان کی جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں۔


تو پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ روایت صرف حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ہی بیان نہیں کی بلکہ اہلتشیع کتابوں میں بھی یہ بات موجود ہے کہ انبیا کی میراث مال و دولت نہیں ہوتی۔


امام جعفر صادق نے فرمایا!”علما وارثِ انبیا ہیں،اور انبیا درہم و دینار کے مالک نہیں ہوتے، بلکہ وہ(علما) تو وارث ہوتے ہیں ان(انبیا) کی احادیث کے،۔۔۔یہ علم ہم اہلبیت کا ہے کیونکہ جو علم پیغمبر نے امت کے لۓ جھوڑا ہے اس کے وارث ہم اہلبیت ہیں۔۔۔“۔

(اصول الکافی،جلد 1،صحفہ نمبر 71)


شیعہ کتاب کی روایت سے بھی ثابت ہو رہا ہے کہ انبیا مال و دولت میراث میں نہیں چھوڑتے بلکہ علم چھوڑتے ہیں۔

ایک مقام پر حضرت علیؓ نے اپنے بیٹے محمد حنفیہ کو نصیحت کرتے ہوۓ فرمایا!”دین میں فقیہ بننے کی کوشش کرو،اس لۓ کہ فقہا ہی انبیا کے وارث ہوتے ہیں، انبیا ورثہ میں درہم و دینار نہیں چھوڑتے بلکہ ورثہ میں علم چھوڑتے ہیں“۔

(من لا یحضرہ الفقیہ،جلد 4،صحفہ نمبر 301)


حضرت علیؓ کے فرمان سے بھی ثابت ہو رہا ہے کہ انبیا میراث میں جاٸیداد و دولت نہیں چھوڑتے بلکہ علم ہی چھوڑتے ہیں،تو اب شیعوں کو چاہیے کہ حق مان لیں۔


لیکن اگر پھر بھی شیعے نہیں مانتے تو ان کی ہی کتاب میں ایک اور بات لکھی ہے کہ:

امام جعفر صادق نے فرمایا!رسول اللہ ﷺ نے اپنے ترکہ میں ایک تلوار، ایک زرہ، ایک چھوٹا نیزہ، ایک پالانِ شتر، اور ایک چت کبرا خچر چھوڑا اور ان سب کے وارث حضرت علی بن ابی طالبؓ ہوۓ“۔

(اصول الکافی،جلد 2،صحفہ نمبر 116)


شیعوں کی اپنی تضاد شدہ کتب سے بھی یہ ثابت ہو گیا ہے کہ انبیا کی میراث علم ہوتا ہے اور اگر نبیﷺ نے کچھ چھوڑا بھی تھا تو وہ حضرت علیؓ کو مل گیا یعنی کہ کچھ بھی غصب نہیں ہوا.اور اس میں فدک کو شامل ہی نہیں کیا گیا۔



لہذا ثابت ہوا کہ علم ہی انبیا کی میراث ہے اور آل محمد کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہیں کی گٸ اور ان کا کوٸی مال غصب نہیں کیا گیا۔


حصہ دوم:(فدک کی تقسیم)


یہ بات تو ہم سبھی جانتے ہیں اور دونوں فریق اس پر متفق بھی ہیں کہ فدک بغیر جنگ کے ہی نبیﷺ کو دے دیا گیا تھا۔

اس پر شیعہ کتاب سے ایک حوالہ بھی دے دیتا ہوں۔

ملا باقر مجلسی نبیﷺ کی وفات کے بعد کے حالات بیان کرتے ہوۓ لکھتا ہے کہ ”(ابوبکر نے) چاہا کہ فدک کو بی بی فاطمہؓ سے غصب کر لیا جاۓ۔اور حضرت رسولﷺ فدک پر بغیر جنگ کے قابض ہوۓ تھے۔

(جلاء العیون،جلد 1،صحفہ نمبر 235)


اس عبارت سے یہ ثابت ہو گیا کہ شیعوں کے نزدیک بھی فدک بغیر جنگ کے نبیﷺ کو ملا۔

اس بات کو زہن نشین کر لیں۔

اس کے بعد ہم شیعہ مذہب میں ہی اس مال کی تقسیم کو دیکھتے ہیں۔

شیعہ مذہب کی معتبر ترین کتب میں سے ایک الکافی ہے۔


اس میں محمد بن یعقوب کلینی مال کی تقسیم کے باب میں لکھتا ہے کہ

”جو چیز جنگ یا غلبہ سے ان کے پاس آٸی اس کا نام فٸے ہے۔کیونکہ وہ لوٹی ہے ان کی طرف جنگ میں غالب آنے سے“

پھر لکھتا ہے 

”اور جو چیز بغیر جنگ و پیکار کے حاصل ہو جاۓ وہ ”انفال“ ہے وہ مخصوص ہے اللہ اور رسول سے دوسرے کی اس میں شرکت نہیں۔شرکت تو اس پر ہے جس پر جنگ ہو (یعنی جنگ کی گٸ ہو)۔

پھر ان دونوں کی تقسیم بیان کرتا ہے کہ

جو جنگ سے ملا اس کے چار حصے ہوں گے اور وہ رسول کے لۓ ایک جس کی تقسیم چھ حصوں میں ہو گی تین رسول کے اور تین یتیموں مسکینوں اور مسافروں کے

پھر کہتا ہے

”لیکن انفال (شیعہ مذہب میں وہ مال جو بغیر جنگ کے حاصل ہوا جس میں فدک بھی ہے)میں یہ طریقہ نہ ہو گا۔وہ سب رسولﷺ کا ہو گا اور امیر المومنین کا،اور کسی کا اس میں حصہ نہیں۔اس پر لفظ فۓ کا اطلاق نہ ہو گا بلکہ اس کو انفال کہیں گے“۔

(اصول الکافی،جلد 3،صحفہ نمبر 185)


اس بات سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ شیعہ مذہب کے مطابق بھی فدک بی بی کا حق نہیں تھا،بلکہ وہ نبیﷺ کا اور ان کے بعد امیر المومنین(یعنی جو خلیفہ ہو اس) کا تھا۔


اس کے بعد ہم اِسی کتاب میں موجود امام جعفر صادق کے قول کی طرف آتے ہیں جس سے یہ چیز بلکل واضح ہو جاۓ گی۔


شیعہ اصولِ رجال کے مطابق معتبر ترین سند سے امام جعفر کا قول نقل کیا گیا۔

وہ فرماتے ہیں ”انفال وہ ہے جو بغیر جنگ حاصل ہو یا کسی قوم نے صلح کرنے پر دیا ہو یا عطا کیا ہو اس میں تمام بنجر زمینیں اور وادیاں شامل ہیں۔پس یہ سب رسولﷺ کا حق ہے اور ان کے بعد امام کا وہ جیسے چاہے اسے صَرف کرے۔

(اصول الکافی،جلد 3،صحفہ نمبر 186)


اس قول سے مکمل واضح ہو گیا کہ ہر وہ چیز اور زمین جو بغیر جنگ کے ہی قبضے میں آجاۓ وہ رسولﷺ کا ہے اور رسول کے بعد امام کا وہ جیسے مرضی استعمال کرۓ۔


شیعہ کی معتبر ترین روایات سے یہ ثابت ہو گیا کہ فدک کی تقسیم نہیں ہو گی نہ ہی وہ نبیﷺ کے بعد خلیفہ کے علاوہ کسی کا ہے۔

تو ثابت ہوا کہ فدک بی بی فاطمہؓ کا حق نہیں تھا.بلکہ اصولی طور پر یہ خلیفہ کی ملکیت تھا۔

اب شیعہ کچھ اس طرح کے اعتراض کریں گے کہ ہمارے نزدیک نبیﷺ کے بعد خلیفہ حضرت علیؓ ہی ہیں تو یہ بے معنی اعتراض ہے کیونکہ اس وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ (چاہے شیعہ کے مطابق زبردستی بیعت ہوٸی) کی بیعت کر لی گٸ تھی اور ان کو اپنا امام مانا گیا تھا اور حضرت علیؓ بھی ان کے خلاف نہ گۓ تو یہ اعتراض بھی باطل ہو گیا کہ امام حضرت علیؓ خلیفہ ہیں تو یہ مال ان کا ہی ہوا۔


لیکن پھر بھی شیعہ اگر نہ مانیں تو نہج البلاغہ کی طرف آتے ہیں۔

نہج البلاغہ میں حضرت علیؓ کا فرمان نقل کیا گیا ہے کہ:

”امام کا فرض تو بس یہ ہے کہ جو کام اسے اپنے پروردگار کی طرف سے سپرد ہوا ہے(اسے انجام دے) (.ان میں سے ایک یہ ہے.) (غصب کۓ ہوۓ) حصوں کو اُن کے اصلی وارثوں تک پہنچاۓ“۔

(نہج البلاغہ،خطبہ نمبر 103،صحفہ نمبر 267)


تو میں پوچھنا چاہوں گا کہ اگر فدک واقعی بی بی فاطمہؓ کا حق تھا اور غصب کیا گیا تھا تو حضرت علیؓ نے اپنے دورِ خلافت میں وہ حسنین کریمین کو واپس کیوں نہ دیا ؟

یہاں پر یہ کہانی نہیں چلنی کہ اہلبیت اپنا حق قیامت کے دن پر چھوڑ دیتے تھے اور مطالبہ نہیں کرتے تھے،کیونکہ یہاں امام کے فراٸض کا ذکر کیا ہے حضرت علیؓ نے جو اللہ نے ان کے ذمے لگاۓ،تو فراٸض کے سامنے انسان کی اپنی مرضی نہیں چلتی۔

شیعوں سے ہمارا ایک اور مطالبہ ہے کہ چلیں اگر یہ بھی وقتی طور پر مان لیا جاۓ کہ اہلبیت اپنا حق فیصلے کے دن پر چھوڑ دیتے تھے تو حضرت امام حسن یا امام حسین نے کبھی یہ کہا ہو کہ ہم قیامت کے دن فدک کا فیصلہ کرواٸیں گے۔

اگر شیعہ ہمارا مطالبہ پورا نہ کر سکیں اور ان دلاٸل کا رد نہ کر سکیں تو ان کو مان لینا چاہیے کہ ان کے زاکر ان کو چودہ سو سال سے کہانیاں سنا رہے ہیں۔

ثابت ہوا کہ انبیا کی میراث نہ ہونے کی حدیث حضرت ابوبکر صدیقؓ نے گھڑی نہیں ہے،بلکہ یہ شیعہ کتب سے بھی ثابت ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ فدک بی بی فاطمہؓ کا حق نہیں تھا۔

دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو حق سننے سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ۔

تحقیق ازقلم:مناظر اہلسنت والجماعت محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی

Powered by Blogger.