حدیث ثقلین کے ایک طرق میں خلیفتین کے الفاظ کی حقیقت

حدیثِ ثقلین میں خلیفتین کے الفاظ  کی حقیقت


السلام علی من اتبع الھدیٰ
کچھ دن قبل مجھے شیعوں کی جانب سے ایک تحریر موصول ہوئی جس میں انہوں نے ایک روایت کو دلیل بنا کر حضرت علیؓ کو خلیفہِ اول ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔
وہ روایت مشہور حدیث، حدیثِ ثقلین تھی جس کا ایک طُرق جس کی سند میں شریک بن عبداللہ النخعی تھا اور اس میں الفاظ ”الثقلین“ کی بجائے  ”الخلیفتین، پیش کیا شیعوں نے۔

وہ طُرق کچھ یوں ہے،
شریک بن عبداللہ اپنی سند سے زید بن ثابتؓ سے روایت کرتا ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا ”أنی تارک فیکم الخلیفتین من بعدی....“میں تم میں اپنے بعد دو خلیفے چھوڑ کر جا رہا ہوں،ایک اللہ کی کتاب اور دوسرا میرے اہلبیت،یہ دونوں ہرگز جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض پر میرے پاس آجائیں۔
(مصنف ابن ابی شیبہ،جلد 9،روایت نمبر 32337)
حدیث ثقلین کے ایک طُرق میں خلیفتین کے الفاظ کی حقیقت


اور یہ روایت شریک بن عبداللہ النخعی کی اسی سند کے ساتھ مسند احمد بن حنبل میں بھی انہیں الفاظ کے ساتھ موجود ہے۔
دیکھیں (مسند احمد،جلد 10،روایت نمبر 21911)


ان الفاظ کو شیعوں نے دلیل بنا کر یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے کہ یہاں نبیﷺ حضرت علیؓ کو اپنے بعد پہلا خلیفہ بنا رہے ہیں۔

جبکہ اس روایت میں یہ الفاظ غیر محفوظ ہیں اور اصل الفاظ ”ثقلین“ کے ہیں کہ ”تمہارے درمیان اپنے بعد دو بھاری/عظیم چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں“۔

اس روایت میں الفاظ کے بدلنے کی وجہ شریک بن عبداللہ ہے جس کا حافظہ خراب تھا اور روایت میں بہت زیادہ غلطیاں کیا کرتا تھا۔پہلے اس راوی کے حالات بیان کریں گے ہم اس کے بعد اس روایت کے بارے میں ثابت کریں گے کہ دیگر اسناد میں یہاں الفاظ ”ثقلین“ ہی ہیں نہ کہ ”خلیفتین“۔

امام ابن حجر عسقلانیؒ شریک کے ترجمے میں لکھتے ہیں۔
”آٹھویں طبقہ کا صدوق راوی ہے بکثرت غلطیاں کرتا تھا جب قاضی بنا تو اس کا حافظہ بدل گیا“۔
(تقریب التہذیب،جلد 1،صحفہ نمبر 377)


امام ذھبیؒ نے اس کا طویل ترجمہ نقل کیا ہے۔

لکھتے ہیں!
”عبدالجبار بن محمد نے امام یحیی بن سعید القطانؒ سے کہا کہ لوگ کہتے ہیں شریک آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گیا تھا،تو انہوں نے جواب دیا وہ تو شروع سے ہی اختلاط کا شکار تھا،جوزجانی کہتے ہیں یہ بُرے حافظے کا مالک تھا حدیث میں اضطراب کا شکار ہوتا تھا،ابراہیم بن سعید جوہری کہتے ہیں شریک نے چار سو احادیث میں غلطی کی ہے،امام یحیی بن معینؒ کہتے ہیں شریک نامی راوی ثقہ ہے لیکن یہ غلطی کرتا ہے،شریک کا بیٹا عبدالرحمنٰ کہتا ہے میرے والد کے پاس دس ہزار غریب روایات تھیں،امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں شریک جس روایت کو نقل کرنے میں منفرد ہو اس میں قوی شمار نہیں ہو گا،امام ابوحاتم رازیؒ فرماتے ہیں شریک سے روایات میں غلطیاں منقول ہیں،امام ابوزرعہؒ فرماتے ہیں شریک نے بکثرت احادیث نقل کی ہیں لیکن یہ وہم کا شکار ہو جاتا ہے اور بعض اوقات غلطی کر جاتا ہے“۔
(میزان الاعتدال،جلد 3،صحفہ نمبر 367)


ان سب سے معلوم ہوتا ہے کہ شریک بن عبداللہ کا حافظہ بہت زیادہ خراب تھا اور روایات میں بکثرت غلطیاں کیا کرتا تھا اور جس روایت میں یہ منفرد ہو وہ قابل قبول نہیں۔
یہی معاملہ یہاں ہے کہ شریک ”خلیفتین“ کے الفاظ روایت کرنے میں منفرد ہے اور کسی دوسری صحیح سند جس میں شریک نہ ہو اس میں ”خلیفتین“ کے الفاظ موجود ہی نہیں ہیں،بلکہ باقی ہر روایت میں ”الثقلین“ کے الفاظ ہی موجود ہیں۔

امام طبرانی نے جب شریک کی سند سے یہ روایت نقل کی جس میں ”الخلیفتین“ کے الفاظ موجود ہیں تو پھر شریک ہی کی سند سے اگلی روایت میں ”الثقلین“ کے الفاظ نقل کیے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام طبرانی کے نزدیک بھی ”الثقلین“ کے الفاظ ہی محفوظ شدہ ہیں۔

امام طبرانی لکھتے ہیں!
”حدثنا عبید بن غنام ثنا ابوبکر بن ابی شیبہ ثنا شریک عن الرکین بن الربیع عن القاسم بن حسان عن زید بن ثابتؓ قال،قال رسولﷺ أنی قد ترکت فیکم الخلیفتین کتاب اللہ وعترتي....“۔

پھر نقل کرتے ہیں!
”حدثنا عبید بن غنام ثنا ابوبکر بن ابی شیبہ ثنا عمر بن سعد ثنا شریک عن الرکین بن الربیع عن القاسم بن حسان عن زید بن ثابتؓ قال یرفعہ رسولﷺ وقال أنی تارک فیکم الثقلین من بعدی کتاب اللہ وعترتی اھل بیتی....“۔
(معجم الکبیر،جلد 5،روایت نمبر 4922،4923)


اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امام طبرانی کے نزدیک بھی اصل و محفوظ الفاظ ”الثقلین“ ہی ہیں نہ کہ ”الخلیفتین“۔

اب ہم دیگر اسناد و راویان کی روایات نقل کر کے ثابت کریں گے کہ اصل الفاظ ”ثقلین“ ہی ہیں۔

امام حاکم اپنی مستدرک میں نقل کرتے ہیں!

”حضرت زید بن ارقمؓ فرماتے ہیں نبیﷺ نے فرمایا ”انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ واھل بیتی...“میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں پہلی اللہ کی کتاب اور دوسری میرے اہلبیت یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے حتیٰ کہ یہ میرے پاس حوض پر آجائیں“۔
(المستدرک الحاکم،جلد 4،روایت نمبر 4711)


امام مسلم بھی طویل حدیث ثقلین کو اپنی صحیح میں حضرت زید بن ارقمؓ کی سند سے لے کر آئے،وہ نقل کرتے ہیں!

”حضرت زید بن ارقمؓ نے فرمایا نبیﷺ ایک دن مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ایک پانی کے کنارے جسے خُم کہا جاتا ہے ہمیں خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے جس میں فرمایا ”انا تارک فیکم ثقلین،اولھما کتاب اللہ،ثم قال واھل بیتی“میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں،ان میں سے پہلی اللہ کی کتاب ہے....اور پھر فرمایا (دوسری) میرے اہلبیت....“
(صحیح مسلم،حدیث نمبر 6225)


یہاں پر حضرت زید بن ارقمؓ کی گواہی مل رہی ہے کہ نبیﷺ نے خم کے مقام پر ”الثقلین“ کے الفاظ ہی ارشاد فرمائے نہ کہ ”الخلیفتین“ کے۔

ایک بار حضرت علی بن ربیعہؒ،حضرت زید بن ارقمؓ سے ملے تو پوچھا کیا آپ نے نبیﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سُنا ہے کہ ”انی تارک فیکم الثقلین ؟“ تو انہوں نے فرمایا ”ہاں“۔
(المسند الجامع لاحادیث الکتب السنة،جلد 5،صحفہ نمبر 509)


یہاں پر بھی حضرت زید بن ارقمؓ اس بات کی صراحت فرما رہے ہیں کہ نبیﷺ نے یہ جملہ ارشاد فرمایا تھا ”انی تارک فیکم الثقلین“۔

شیعوں کے معتبر ترین زاکرین میں سے ایک ملاباقر مجلسی ہے جس نے اپنی کتاب بحار الانوار میں پانچ سے چھ اسناد سے حدیث ثقلین نقل کی ہے جن میں ”الثقلین“ ہی کے الفاظ ہیں ان میں سے دو میں ذیل میں پیش کر رہا ہوں۔

ملا باقر مجلسی اپنی سند سے حضرت علیؓ سے روایت کرتا ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا!
”قد ترکت فیکم الثقلین کتاب اللہ وعترتی اھل بیتی فانہما لن یفتروقا حتی یردا علی الحوض“۔
کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک اللہ کی کتاب دوسرا میرے اہلبیت ان میں سے کوئی بھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہو گا یہاں تک کہ حوض پر آجائیں۔

اور پھر حضرت زید بن ارقمؓ کی سند سے نبیﷺ کا فرمان نقل کیا کہ آپﷺ نے فرمایا!
”انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ وعترتی اھل بیتی فانہما لن یفتروقا حتی یردا علی الحوض“۔
کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک اللہ کی کتاب دوسرا میرے اہلبیت ان میں سے کوئی بھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہو گا یہاں تک کہ حوض پر آجائیں۔

(بحار الانوار،جلد 23،صحفہ نمبر 133)



ملا باقر مجلسی نے اپنی کتاب میں شریک بن عبداللہ کی سند سے وہ روایت بھی نقل کی ہے جس میں ”الخلیفتین“ کے الفاظ ہیں لیکن شیعوں نے خود ہی حواشی میں اس بات کی صراحت کر دی کہ یہاں الفاظ ”الثقلین“ ہیں۔
دیکھیں (بحارالانوار،جلد 23،صحفہ نمبر 135)


اس سب سے ثابت ہوتا ہے کہ حدیثِ ثقلین میں محفوظ الفاظ ”الثقلین“ ہی ہیں نہ کہ ”الخلیفتین“ اور صرف اسی سند میں ”خلیفتین“ کے الفاظ ہیں جس میں شریک بن عبداللہ نخعی موجود ہے،جس کا حافظہ خراب تھا اور حدیث میں بکثرت غلطیاں کرتا تھا،اور ان الفاظ کے ساتھ وہ روایت کرنے میں منفرد ہے جس وجہ سے اس کی روایت قبول نہیں کی جا سکتی اور حضرت علیؓ سے بھی ”الثقلین“ ہی کے الفاظ ثابت ہیں نہ کہ ”خلیفتین“ کے۔

اب شیعوں کو چاہیے کہ غیر محفوظ روایات سنا کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی بجائے حق قبول کریں اور لوگوں میں حق بیان کرنا شروع کریں۔

دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو حق سننے و سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)

تحقیق ازقلم:مناظر اسلام محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی

Powered by Blogger.