تعویذ پہننا جائز ہے یا نہیں ؟

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

اکثر سوال کیا جاتا ہے کہ تعویذ پہننا جاٸز ہے یا نہیں ؟ اور وہابیہ کی طرف سے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ تعویذ پہننا شرک ہے۔

تعویذ پہننا صحابہ اکرام و تابعین سے دونوں ثابت ہے اور ایک مقام پر نبیﷺ نے خود ایک صحابی کو تعویذ پہننے کا حکم دیا۔

ذیل میں تعویذ پہننے کے جواز پر دلاٸل ملاحظہ فرماٸیں۔

حضرت سہیل بن حنیف فرماتے ہیں ہم سیلاب کے پانی سے گزرے تو میں نے اس میں نہا لیا جب نہا کر نکلا تو مجھے بخار ہو گیا جب نبیﷺ کو معلوم ہوا تو انہوں نے فرمایا ابوثابت کو کہو تعویذ لے لے،میں نے پوچھا کیا میں دم نہ کروا لوں ؟ تو نبیﷺ نے فرمایا نہیں دم تو سانس کی بیماری یا بخار یا کاٹے کے لۓ ہوتا ہے۔
(مستدرک الحاکم،جلد 6،حدیث نمبر 8270)
امام ذھبی نے تلخیص کرتے ہوۓ اس حدیث کو صحیح کہا ہے
تعویذ پہننا جائز ہے یا نہیں ؟



تابعین بھی تعویذ پہننے کو جاٸز سمجھتے تھے اور وہ خود تعویذ لکھ لکھ کر لوگوں کو پہناتے تھے۔
حضرت عطا بن ابی رباحؒ نے اس حاٸضہ کے متعلق جس کے گلے میں تعویذ وغیرہ ہو فرمایا اگر چمڑے میں ہو تو اسے (حیض کی حالت میں) اتار دے اور اگر نرسل میں ہو جو کہ چاندی سے بنی ہوتی ہے تو کوٸی حرج نہیں چاہے تو اتار دے اور اگر چاہے تو نہ اتارے۔
(سنن دارمی،روایت نمبر 1212،مصنف ابن ابی شیبہ،جلد 7،روایت نمبر 24010)



اس کے ساتھ ساتھ دوسرے بڑے تابعین بھی تعویذ پہننے کو جاٸز سمجھتے تھے۔
حضرت سعید بن المسیبؒ سے تعویذ کے بارے میں سوال ہوا تو فرمایا جب تعویذ چمڑے میں بند ہو تو اسے پہننے میں کوٸی حرج نہیں۔
(مصنف ابن ابی شیبہ،جلد 7،روایت نمبر 24009)

حضرت مجاہدؒ تو خود لوگوں کو تعویذ لکھ لکھ کر دیتے تھے اور پھر وہ تعویذ لوگوں کو خود پہناتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ،جلد 7،روایت نمبر 24011)

حضرت ابن سیرینؒ اور حضرت عطا بن ابی رباحؒ اس بات کو جاٸز سمجھتے تھے کہ کوٸی قرآن مجید کے کسی حصے کو لکھ کر بطور تعویذ پہن لے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ،جلد 7،روایت نمبر 24014،24016)

حضرت ضحاک بصریؒ بھی اس بات کو جاٸز سمجھتے تھے کہ کوٸی شخص قرآن مجید میں سے کچھ لکھ کر لٹکا لے اور جب غسل کرنے یا قضاۓ حاجت کے لۓ جاۓ تو اتار دے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ،جلد 7،روایت نمبر 24018)



اس سب کے بعد ہم ایک گواہی نبیﷺ کے اپنے گھر سے لے لیتے ہیں جس سے حجت تمام ہو جاۓ۔

حضرت جعفر صادق علیہ السلام اپنے والد محترم حضرت محمد باقر علیہ السلام سے روایت نقل فرماتے ہیں کہ وہ (امام محمد باقر علیہ السلام) اس بات میں کوٸی حرج محسوس نہیں کرتے تھے کہ قرآن مجید کو چمڑے میں لکھا جاۓ اور اس کو گلے میں لٹکا لیا جاۓ۔
(مصنف ابن ابی شیبہ،جلد 7،روایت نمبر 24012)



ان تمام دلاٸل سے روزِ روشن کی طرح یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ ایسا تعویذ جس میں قرآنی آیات لکھی گٸ ہوں پہننا جاٸز ہے اور ایسا تعویذ پہننے کی اجازت خود نبیﷺ نے عطا فرماٸی اور نبیﷺ کے صحابہ کرام اور تابعین سبھی اس بات پر متفق تھے کہ قرآنی تعویذ پہننا جاٸز ہے۔

کچھ لوگ بعض احادیث سنا کر لوگوں میں غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ معازاللہ تعویذ پہننا شرک ہے وغیرہ وغیرہ جن سب کا متن ایک ہی ہے اور ان کا مطلب بھی ایک ہی ہے ان میں سے ایک روایت ابن ماجہ کی حدیث نمبر 3530 ہے جو کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی سے منقول ہے کہ وہ فرماتی ہیں
ایک بڑھیا ہمارے گھر آیا کرتی تھی وہ سرخ باد کا دم کیا کرتی تھی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ایک روز میرے پاس آۓ تو دیکھا کہ میں نے ایک دھاگہ پہنا ہوا ہے جو مجھے اس بڑھیا نے دم کر کے دیا تھا حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے وہ توڑ کر پھینک دیا اور فرمایا نبیﷺ نے فرمایا ہے کہ دم،جھاڑ،تعویذ اور حب کا عمل یہ سب شرک ہیں،پھر فرماتی ہیں میں ایک دن گھر سے نکلی تو فلاں شخص نے مجھے دیکھ لیا۔میری جو آنکھ اس کی طرف تھی، اس سے پانی بہنے لگا۔ جب میں دم کرواتی تو پانی رک جاتا ،جب میں دم کرائے بغیر چھوڑ دیتی تو اس سے پانی بہنے لگتا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا وہ شیطان تھا، جب تو اس کی مرضی کا کام کرتی تھی، وہ تجھے چھوڑ دیتا، جب اس کی مرضی کے خلاف کرتی، وہ تیری آنکھ میں انگلی مار دیتا۔لیکن اگر تو وہ کام کرتی جو اللہ کے رسولﷺ نے کیا تھا تو تیرے لیے بہتر ہوتا اور تجھے ضرور شفا مل جاتی۔ تو اپنی آنکھ پر پانی کے چھینٹے مار اور کہہ:أَذْهِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ ، وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِي ، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا’’ بیماری دور کر دے، اے لوگوں کے رب ! شفا دے دے ۔ تو ہی شفا دینے والا ہے۔ تیری شفا کے سوا کوئی شفا نہیں ، ایسی شفا عطا فرما کہ کوئی بیماری باقی نہ رہے۔
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر 3530)

یہ حدیث آدھی سنا کر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ تعویذ پہننا شرک ہے جبکہ اگر پوری حدیث سناٸیں تو ان کا یہ جھوٹ بلکل کھل کر سامنے آجاۓ کیونکہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نبیﷺ نے جادو ٹونے والے تعویذ یا ایسے تعویذ جو بتوں وغیرہ کے نام پر یا کسی غیر مسلم نے لکھے ہوں ان کا پہننا شرک ہے کیونکہ کوٸی بڑھیا جو کہ اس روایت سے غیر مسلم معلوم ہوتی ہے اور جس کا تعویذ اور دم غیر اللہ پر ہوتا تھا اس کے بارے میں عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ ایسا دم تعویذ سب شرک ہیں کیونکہ بعد میں خود ہی انہوں نے نبیﷺ کا ایک دم اپنی بیوی کو سکھایا کہ نبیﷺ اس طرح دم کیا کرتے تھے اور جو وہ بڑھیا کرتی تھی وہ شیطانی دم تھا۔

یہ حدیث تو ان بعض لوگوں کے اپنے پیروں پر کلہاڑی ہے جو کہتے ہیں کہ ہر دم اور ہر تعویذ ہی شرک ہے۔

اوپر ہم نبیﷺ کا اپنا حکم نقل کر چکے کہ نبیﷺ تو خود صحابہ کو تعویذ پہننے کا حکم دیا کرتے تھے جو کہ قرآنی ہوا کرتا تھا۔
اور تابعین خود تعویذ لکھ لکھ کر لوگوں کو پہنایا کرتے تھے انہوں نے تو علم صحابہ سے حاصل کیا ہے اگر صحابہ قرآنی تعویذ کو بھی شرک سمجھتے تو تابعین کبھی قرآنی تعویذ کو جاٸز نہ کہتے۔

اگر یہ لوگ اب بھی نہ مانیں کہ قرآنی تعویذ پہننا جاٸز ہے اور محض وہ تعویذ و دم وغیرہ ہی ناجاٸز و شرک ہیں جو بتوں وغیرہ کے نام پر ہوں تو ان کو چاہیے کہ ہماری اس تحریر میں جن جن تابعین کا ذکر کیا ہے ہم نے ان سب پر شرک کا فتوی لگاٸیں کیونکہ وہ تو نہ صرف جاٸز سمجھتے تھے بلکہ خود لکھ لکھ کر لوگوں کو پہناتے بھی تھے اور اگر یہ لوگ ایسا نہ کر سکیں تو مان لیں کہ ہر تعویذ شرک نہیں ہوتا بلکہ قرآنی تعویذ پہننا جاٸز ہے اور باعث شفا ہے اور اپنی کم علمی کی بنا پر شرک شرک کی رٹ نہ لگاٸیں۔

دُعا ہے کہ اللہ ہم سب کو حق سننے سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ۔

تحقیق ازقلم:مناظر اسلام محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی
Powered by Blogger.