معاویہ رسول اللہ کلمہ ؟
السلام علی من اتبع الھدیٰ
میرے پاس مرزا علی انجینٸیر کا ایک کلپ پہنچا جس میں وہ یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ ہمارے(اہلسنت کے) بابوں نے چشتی رسول اللہ،شبلی رسول اللہ اور ”معاویہ رسول اللہ“ پڑھوایا ہوا ہے۔
اس تحریر میں ہم صرف ”معاویہ رسول اللہ“ والی بات پر کلام کریں گے کیونکہ ہمارے نزدیک جن رسالوں میں چشتی و شبلی رسول اللہ والا واقعہ آیا ہے وہ رسالے ہی گھڑے ہوۓ ہیں اور یہاں ”معاویہ رسول اللہ“ پر مرزا یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ ”پڑھوایا ہوا ہے“۔
یہ بات ذہن نشین کر لیجیے کہ ”پڑھوایا ہوا ہے “۔
اب اس کا ”معاویہ رسول اللہ“ والی بات پر علمی رد ہم اسی کے لگاۓ گۓ حوالے پر کریں گے اور ثابت کریں گے کہ یہ عام عوام کو کس طرح گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اپنے کلپ میں اس نے حوالہ ”تاریخ ابن کثیر،جلد 8،صحفہ نمبر 184“ کا دیا ہے۔
اب ہم وہ مکمل روایت نقل کرتے ہیں اور پھر اس روایت کی حقیقت بھی بیان کرتے ہیں۔
ابن کثیر میں واقعہ کچھ یوں لکھا ہوا ہے کہ
”ابن جریرؒ نے بیان کیا کہ حضرت عمرو بن العاصؓ،اہل مصر کے وفد کے ساتھ حضرت امیر معاویہؓ کے پاس آۓ تو آپ نے راستے میں وفد والوں سے کہا کہ جب تم حضرت امیر معاویہؓ کے پاس جاٶ تو ان کو سلامِ خلافت(یعنی السلام علیک یا امیر المومنین) نہ کہنا وہ اسے پسند نہیں کرتے،اور جب حضرت عمروؓ ان سے پہلے آپ کے پاس گۓ تو حضرت امیر معاویہؓ نے اپنے دربان سے کہا کہ انہیں اندر لاٶ اور اسے اشارہ کرو کہ وہ انہیں اندر آنے کے بارے میں ڈراۓ اور خوفزدہ کرۓ نیز فرمایا میرا خیال ہے کہ عمروؓ کسی بات کے لۓ ان سے آگے آیا ہے اور جب وہ انہیں آپ کے پاس اندر لاۓ اور انہوں نے ان کی توہین کی تو جب ان میں سے کوٸی شخص داخل ہوتا تو کہتا ”السلام علیک یا رسول اللہ“ اور جب حضرت عمروؓ آپ کے پاس سے اٹھے تو کہنے لگے تمہارا بُرا ہو میں نے تمہیں انہیں سلامِ خلافت کہنے سے روکا تھا اور تم نے انہیں سلامِ نبوت کہا ہے“۔
(تاریخ ابن کثیر،جلد 8،صحفہ نمبر 184)
(60 ہجری کے واقعات کا بیان)
یہ حوالہ مرزا نے لگایا اور دعویٰ کیا کہ ”معاویہ رسول اللہ پڑھوایا گیا ہے“
جبکہ اس پورے واقعے میں کہیں پر بھی پڑھوانے کا ذکر نہیں ہے بلکہ یہ لکھا ہوا ہے کہ ان لوگوں نے خود سے یہ سلام کیا اور حضرت عمروؓ نے تو اس وجہ سے ان پر غصہ کیا اور ان پر لعنت کی۔
ابن کثیر میں یہ واقعہ آدھا نقل کیا گیا ہے اور سند بھی بیان نہیں کی گٸ اور مکمل تفصیل بھی نہیں بیان کی گٸ ابن کثیر نے یہ واقعہ ابن جریر طبری کے حوالے سے نقل کیا ہے تو اب ہم تاریخ طبری سے دیکھتے ہیں کہ امام ابن جریر نے مکمل واقعہ کیا نقل کیا ہے۔
امام طبریؒ اپنی سند سے یہ واقعہ نقل کرتے ہیں کہ
”فلیح کہتا ہے مجھے خبر پہنچی کہ حضرت عمرو ابن العاصؓ اہل مصر کا ایک وفد لے کر حضرت امیر معاویہؓ کے پاس گۓ تو حضرت عمروؓ نے ان سے کہا جب تم امیر معاویہؓ کے پاس جاٶ تو ان کو خلافت کا سلام(السلام علیک یا امیر المومنین) نہ کہنا اس سے ان کی نظر میں تمہاری عظمت اور بھی بڑھ جاۓ گی،جب وہ سب حضرت امیر معاویہؓ کے پاس پہنچے تو حضرت امیر معاویہؓ نے اپنے حجاب (دروازے پر کھڑے ہونے والے نوکر/دربان) سے کہا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمروؓ نے ان کے نزدیک میرے رتبے کو کم کر دیا ہے،جب یہ آٸیں تو ان کو خوب ستانا،پہلا شخص جو سامنے آیا وہ ابن خیاط تھا جس کو نوکروں نے بہت ستایا تھا اس نے داخل ہوتے ہی (بے حواسی میں) کہا ”السلام علیک یا رسول اللہ“ اور اسی کو دیکھتے ہوۓ باقی سب نے بھی ایسا ہی کہا،پھر جب حضرت عمروؓ ان کے پاس آٸے تو فرمایا اللہ کی لعنت ہو تم پر میں نے تم کو سلامِ خلافت کہنے سے منع کیا تھا اور تم نے ان کو سلامِ نبوت کہا ہے“۔
(تاریخ طبری،جلد 9،صحفہ نمبر 148)
(60 ہجری کے واقعات کا بیان)
اب اس پورے واقعے میں مرزا یا مرزا کا کوٸی مقلد ہمیں یہ دکھاۓ کہ اس پورے واقعے کے مطابق کہیں پر یہ لکھا ہوا ہو کہ حضرت امیر معاویہؓ کے سامنے ”السلام علیک یا رسول اللہ“ کہنے کا حکم خود حضرت امیر معاویہؓ نے دیا ہو یا حضرت عمرو ابن العاصؓ یا کسی درباری نے دیا ہو ؟
اس واقعے کے مطابق نوکروں نے وفد کو بہت ستایا جس وجہ سے وہ حواس باختہ ہو گۓ اور انہوں نے ایسا کام کیا،اور پھر حضرت عمروؓ نے تو ان پر اس وجہ سے لعنت کی۔
تو یہ تو تھی مرزا کی خیانت کے وہ کس طرح کسی بات کو گھما کر کہاں فِٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور لوگوں کو گمراہ کرتا ہے۔
اور اس کے جاہل مقلد یہ کہہ کر خوش ہوتے رہتے ہیں کہ بھٸ ہمارے امام نے تو جو کہا ہے اس کا صحفہ بھی لگایا ہے۔
اس کے مقلدین کبھی خود مکمل صحفہ پڑھنے کی زحمت نہیں کرتے اور صحابہ پر بکواس کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔
اب ہم آتے ہیں اس واقعے کی حقیقت کی طرف۔
تو یہ بات بھی ذہن نشین کر لیں کہ یہ واقعہ سِرے سے ثابت ہی نہیں بلکہ منقطع ہونے کی وجہ سے سخت ضعیف بلکہ وضع کے زمرے میں آتا ہے۔
تاریخ طبری کا جو حوالہ میں نے لگایا ہے اس میں آپ دیکھیں کہ حواشی میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ۔
”اس کی سند میں فلیح ہے اور اس نے امیر معاویہؓ کا زمانہ نہیں پایا“۔
فلیح بن سلیمان یہاں پر ”اخبرت“ کے صیغے سے روایت نقل کر رہا ہے کہ مجھے خبر پہنچی لیکن یہاں خبر دینے والے کا کوٸی اتہ پتہ نہیں کہ وہ کون ہے سچا ہے یا جھوٹا ہے ؟
اور سند میں انقطاع ہونا سند کو سخت ضعیف بناتا ہے۔
فلیح تبع تابعین میں سے ہے اب اس کے حالات ملاحظہ فرماٸیں۔
امام ابن حجر عسقلانیؒ اس کے بارے میں لکھتے ہیں
”فلیح بن سلیمان ساتویں طبقہ کا صدوق کثیر الخطا راوی ہے اور 168 ہجری میں فوت ہوا“۔
(تقریب التہذیب،جلد 2،صحفہ نمبر 21)
اور ساتویں طبقے میں امام ابن حجرؒ نے تبع تابعین کو شامل کیا ہے۔
(تقریب التہذہب،جلد 1،صحفہ نمبر 13)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ راوی تبع تابعی ہے اور اس نے حضرت امیر معاویہؓ کا زمانہ نہیں دیکھا اور یہ 168 ہجری میں فوت ہوا تو اس کا اپنے سے سو سال پرانا واقعہ بغیر متصل سند کے بیان کرنا کس طرح قابل اعتماد ہو سکتا ہے جب یہ پیدا بھی نہ ہوا تھا۔
اور امام ذھبیؒ نے تو اس پر کٸ محدثین کی جروحات نقل کی ہیں لکھتے ہیں۔
”اس کو امام یحییٰ بن معینؒ،امام ابو حاتم رازیؒ،امام نساٸی،امام ابوداٶدؒ اور ابوکامل وغیرہ نے ضعیف کہا ہے،ابوکامل تو کہتے ہیں ہم اس پر احادیث وضع کرنے کا الزام عاٸد کرتے ہیں کیونکہ یہ اصحابِ رسولﷺ کی شان میں گستاخی کرتا تھا،امام ذھبیؒ فرماتے ہیں امام بخاریؒ نے اس کی چند روایات پر اعتماد کیا ہے اور پھر لکھتے ہیں کہ یہ 168 ہجری میں فوت ہوا“۔
(میزان الاعتدال،جلد 5،صحفہ نمبر 425)
اس سب سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ شخص تابعی نہیں تبع تابعی ہے اور اس پر کثیر تعداد میں ضعیف ہونے کی جروحات کے ساتھ ساتھ صحابہ کی گستاخی کرنے کی جرح بھی موجود ہے۔
اس لۓ اس کی روایت پر کیونکر اعتماد کیا جا سکتا ہے حب کہ اس کی روایت منقطع بھی ہو۔
ہم نے بفضل باری تعالیٰ دلاٸل سے ثابت کیا کہ یہ واقعہ اول تو سنداً ثابت ہی نہیں اور اگر کوٸی پلمبری اس کو غیر ثابت نہیں بھی مانتا تو بھی اس سے ہمارا یہی مطالبہ رہے گا کہ اس پورے واقعے میں مرزا کی اس بکواس کہ ”پڑھوایا ہے“ کا ثبوت دکھا دے کہ حضرت امیر معاویہؓ یا حضرت عمرو ابن العاصؓ میں سے کسی نے ایسا کہنے کا کہا ہو الٹا ہم تو دکھا چکے کہ حضرت عمروؓ نے تو ان لوگوں پر اس وجہ سے لعنت کی۔
اب مرزا کو چاہیے کہ اپنی ہٹ دھرمی چھوڑ کر حق کو قبول کرۓ اور لوگوں میں اعلانیہ رجوع کرۓ اور مانے کہ میں نے خیانت سے کام لیا۔
دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو حق سننے و سمجھتے کی توفیق عطا فرماۓ اور اس فتنہِ پلمبری سے محفوظ فرماۓ۔(آمین)
تحقیق ازقلم:مناظر اسلام محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی