آیت بنیان مرصوص حضرت علی کی شان میں نازل ہوئی ؟
آج کل ایک روایت کافی زیادہ پوسٹ کی جا رہی ہے، اور اس میں اہلسنت عوام بھی شامل ہے، روایت کچھ اس طرح ہے کہ حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں!
”اللہ تعالیٰ کا فرمان ”بے شک اللہ ان لوگوں کو محبوب رکھتا ہے جو اس کی راہ میں صف باندھ کر لڑتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے (الصف، آیت 4)“ (یہ آیت) حضرت علیؓ، حضرت حمزہؓ، حضرت عبیدہؓ، حضرت سہل بن حنیفؓ، حضرت حارث بن صمہؓ اور حضرت ابو دجانہؓ کی شان میں نازل ہوئی“۔
(شواہد التنزیل)
یہ روایت ”حاکم حسکانی“ نے اپنی کتاب ”شواہد التنزیل“ میں نقل کی ہے روایت کی سند کچھ یوں ہے!
”حدثنا عن ابی بکر السبیعی عن علی بن محمد بن مخلد، والحسین بن ابراہیم قالا حدثنا حسین بن حکم حدثنا حسن بن حسین حدثنا حبان عن الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباس“.
(شواہد التنزیل، جلد 2، صحفہ 251)
لیکن یہ روایت موضوع ہے اس کو بیان کرنا جاٸز نہیں، ذیل میں روایت کے باطل ہونے کی تفصیل ملاحظہ فرماٸیں!
اس کتاب کا مصنف ”عبید اللہ بن عبداللہ بن احمد المعروف حاکم حسکانی“ خود شیعہ ہے اور یہ ایک شیعہ کتاب ہے، اور شیعہ کی طرف سے بھی شاٸع کی جاتی ہے۔
امام ذھبیؒ اس کے ترجمہ میں فرماتے ہیں!
”مجھے اس کی مجلس کی ایک تحریر ملی جو اس کے شیعہ ہونے پر دلالت کرتی ہے“.
(تذکرة الحفاظ، صحفہ 1200)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک شیعہ کتاب ہے جس سے کوٸی روایت بیان کرنا جاٸز نہیں.
اور یہ روایت سنداً بھی باطل ہے کیونکہ اس کی سند کے سارے راوی بھی شیعہ، کذاب اور مجہول ہیں، ملاحظہ فرماٸیں.
اس روایت کا راوی ”حسین بن حکم“ شیعہ مفسر ہے، اس نے تفسیر لکھی اور اس کی تفسیر کے مقدمہ میں شیعہ محقق خود ہی لکھتا ہے کہ!
”حسین بن حکم بن مسلم زیدی شیعہ ہے“.
(تفسیر الحبری، صحفہ 17)
اس روایت کا راوی ”حسن بن حسین عرنی کوفی“ بھی شیعہ کے اکابرین میں سے ہے اور اس نے منکر روایات بیان کی ہیں، امام ذھبیؒ اس کے ترجمہ میں فرماتے ہیں!
”امام ابوحاتمؒ کہتے ہیں یہ شیعہ کے اکابرین میں سے ایک تھا، ابن عدیؒ کہتے ہیں اس کی نقل کردہ روایات ثقہ راویوں کی روایت سے مشابہت نہیں رکھتی، ابن حبانؒ کہتے ہیں اس نے ثقہ راویوں کے حوالے سے غیر مستند اور مقلوب روایات بیان کی ہیں، (پھر امام ذھبیؒ نے اس کی کچھ منکر روایات کو بیان کیا)“.
(میزان الاعتدال، جلد 2، صحفہ 277 تا 279)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس روایت کے یہ دونوں راوی بھی شیعہ ہیں اور منکر روایات بیان کرتے تھے.
اس روایت کا راوی ”کلبی“ جو کہ ”محمد بن ساٸب کلبی“ ہے یہ کذاب، متروک سباٸی تھا، امام ذھبیؒ اس کے ترجمہ میں فرماتے ہیں!
”امام بخاریؒ کہتے ہیں کلبی کو یحییٰؒ و ابن مہدیؒ نے متروک قرار دیا ہے، سفیان کہتے ہیں کلبی نے مجھ سے کہا کہ میں تمہیں ابو صالح کے حوالے سے جو حدیث بیان کروں وہ جھوٹ ہو گی، یحییٰ بن یعلیٰؒ کے والد نے بھی اس کو ترک کر دیا تھا، یزید بن زریع کہتے ہیں کلبی سباٸی تھا، اور اعمشؒ کہتے ہیں سباٸیوں سے بچ کر رہو کیونکہ لوگوں نے ان کا نام کذاب رکھا ہے، جوزجانی اور دیگر حضرات نے کہا ہے کلبی کذاب ہے، امام دارقطنیؒ کہتے ہیں ایک جماعت نے کہا ہے کلبی متروک ہے، ابن حبانؒ کہتے ہیں دین میں اس کا مسلک اور اس کی کذب بیانی اتنی نمایاں ہے کہ اس کے بارے میں کچھ اور کہنے کی ضرورت نہیں، اس نے ابوصالح کے حوالے سے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے تفسیر روایت کی ہے اور ابوصالح نے حضرت ابن عباسؓ کی زیارت نہیں کی اور کلبی نے ابو صالح سے سماع نہیں کیا، (مزید فرماتے ہیں) اس کا ذکر کتابوں میں کرنا جاٸز نہیں ہے تو اس سے استدلال کرنا کیسے جاٸز ہو گا“.
(میزان الاعتدال، جلد 6، صحفہ 175 تا 177)
ان تمام جروحات سے ثابت ہوتا ہے کہ کلبی کذاب و متروک ہے اس سے کسی صورت استدلال جاٸز نہیں، اس نے ابوصالح سے ابن عباسؓ کے حوالے سے تفسیر نقل کی ہے اور ابو صالح نے تو حضرت ابن عباسؓ کی زیارت ہی نہیں کی اور کلبی نے بھی ابوصالح سے سماع نہیں کیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کھلم کھلا جھوٹ بولا کرتا تھا اور اس نے تو سفیان کو خود کہا تھا کہ جب میں تم کو کوٸی روایت ابوصالح کے حوالے سے بیان کروں تو وہ جھوٹ ہو گی.
اور یہ روایت بھی کلبی نے ”عن ابی صالح عن ابن عباس“ بیان کی ہے جس سے واضح پتہ چلتا ہے کہ یہ روایت بھی جھوٹی ہے.
ان تمام دلاٸل سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ روایت موضوع ہے کیونکہ اس کی ساری سند ہی شیعہ و کذاب و مجہول راویوں سے بھری ہوٸی ہے اور یہ روایت رات کے اندھیرے میں بیٹھ کر گھڑی گٸ ہے، اس لیے اس سے کسی صورت استدلال جاٸز نہیں اور نہ ہی اس روایت کو بیان کرنا جاٸز ہے.
تحقیق ازقلم: مناظر اہلسنت وجماعت محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی