حضرت امیر معاویہؓ کا حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرؓ کو یزید کی بیعت کے لیے رشوت دینا
روافض کی طرف سے حضرت امیر معاویہؓ پر ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ انہوں نے لوگوں کو یزید کی بیعت کرنے کے لیے رشوت دینے کی کوشش بھی کی، اس اعتراض پر روافض ایک روایت پیش کرتے ہیں جو کہ کچھ یوں ہے!
”ابراہیم بن محمد بن عبدالعزیز بن عمر بن عبدالرحمن بن عوف اپنے والد (محمد) سے اور وہ اِن کے دادا (عبدالعزیز) سے روایت کرتے کہ حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرؓ نے حضرت معاویہؓ کو یزید کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا تھا، تو حضرت معاویہؓ نے حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرؓ کی جانب ایک لاکھ درہم ہدیہ بھیجا، حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرؓ نے وہ دراہم قبول کرنے سے انکار کر دیا اور واپس بھیج دیے، اور فرمایا میں دنیا کے بدلے دین کو نہیں بچ سکتا، پھر آپؓ مکہ کی جانب نکل گٸے اور راستے میں فوت ہو گۓ“.
(المستدرک الحاکم، جلد 5، رویت 6015)
یہ روایت پیش کر کے روافض کہتے ہیں کہ جب حضرت عبدالرحمنؓ نے یزید کی بیعت کرنے سے منع کر دیا تو حضرت امیر معاویہؓ نے اپنے بیٹے یزید کی بیعت کروانے کے لیے ان کو ایک لاکھ دراہم بطور رشوت بھیجے، لیکن حضرت عبدالرحمنؓ نے یہ کہہ کر واپس بھیج دیے کہ میں دنیا کے بدلے دین کو نہیں بیچوں گا.
لیکن اس روایت سے کسی قسم کا استدلال جاٸز نہیں کیونکہ یہ روایت موضوع و باطل ہے.
اس کی تفصیل ملاحظہ فرماٸیں.
اس روایت کے تینوں رایوں، ابراہیم اس کے باپ محمد اور محمد کے باپ عبدالعزیز پر جروحات موجود ہیں اور ان کی حدیث سے استدلال جاٸز نہیں، ذیل میں ان تینوں کا ترجمہ ملاحظہ فرماٸیں.
ابراہیم بن محمد بن عبدالعزیز:
امام ذھبیؒ اس کے ترجمہ میں فرماتے ہیں!
”یہ واہی الحدیث ہے، شیخ ابن عدیؒ کہتے ہیں اس کی نقل کردہ زیادہ تر روایات منکر ہیں، امام بخاریؒ کہتے ہیں محدثین نے اس کے بارے میں خاموشی اختیار کی، اسی کے مشورے پر امام مالکؒ کو کوڑے لگاۓ گٸے تھے“.
(میزان الاعتدال، جلد 1، صحفہ 104،105)
ان جروحات سے ثابت ہوتا ہے کہ ”ابراہیم بن محمد“ ثقہ نہیں ہے اور اس کی احادیث مستند نہیں اور اس سے منکر روایات منقول ہیں.
محمد بن عبدالعزیز:
امام ذھبیؒ اس کے ترجمہ میں فرماتے ہیں!
”امام بخاریؒ کہتے ہیں یہ منکر الحدیث ہے، امام نساٸیؒ کہتے ہیں یہ متروک ہے، امام دارقطنیؒ کہتے ہیں یہ ضعیف ہے، امام ابوحاتم الرازیؒ فرماتے ہیں یہ تین بھاٸی ہیں اور تینوں حدیث میں مستقیم نہیں ہیں“.
(میزان الاعتدال، جلد 6، صحفہ 250)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ “محمد بن عبدالعزیز“ بھی منکر الحدیث ہے اور اس کی احادیث کو ترک کر دیا گیا تھا.
عبدالعزیز بن عمر:
امام عراقیؒ اس کے بارے میں نقل فرماتے ہیں!
”ابن القطان مالکیؒ کہتے ہیں یہ مجہول الحال ہے“.
(ذیل میزان الاعتدال، صحفہ 340)
اس سے ثابت ہوتا ہے ک ”عبدالعزیز بن عمر“ مجہول الحال ہے، یہ کب پیدا ہوا کب فوت ہوا یہ سب بھی نامعلوم ہے، اور اس بات کا کوٸی ثبوت موجود نہیں کہ اس نے حضرت امیر معاویہؓ کا زمانہ پایا.
ان دلاٸل سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ پوری سند ہی باطل ہے اور یہ روایت موضوع و منکر ہے اس لیے اس سے استدلال کرتے ہوٸے صحابیِ رسولﷺ پر ایسا الزام لگانا کسی صورت جاٸز نہیں، روافض کو بھی چاہیے کہ ایسی موضوع و منکر روایات کی بنیاد پر اپنا عقیدہ کھڑا رکھنے کی بجاٸے حق کو قبول کریں.
تحقیق ازقلم: مناظر اہلسنت وجماعت محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی