نبی کی تاریخ ولادت امام احمد رضا اور پیر شیخ عبدالقار جیلانی کی نظر میں
ماہ ربیع الاول میں منکرینِ عید میلاد النبیﷺ کی طرف سے اہل اسلام پر بہت سارے باطل اعتراضات کیے جاتے ہیں جن میں سے ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ اعلیٰحضرت امام احمد رضا خان بریلویؓ کے نزدیک تو نبیﷺ کی تاریخ ولادت 8 ربیع الاول ہے اور پیر شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کے نزدیک نبیﷺ کی تاریخ ولادت 10 محرم ہے۔
آج کی اس تحریر میں ہم منکرین کے اسی اعتراض کا علمی تعاقب کریں گے آیا اس اعتراض میں کس قدر سچاٸی ہے اور کس قدر فریب و مکاری
پیر شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کے بارے میں منکرین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی کتاب ”غنیة الطالبین“ میں نبیﷺ کی تاریخ ولادت 10 محرم لکھی ہے۔
یہ بات کہہ کر منکرین نہ ہی آپ کو یہ بتاٸیں گے کہ یہ بات کس تناظر اور کس جگہ پر نقل کی گٸ آیا یہ ان کا موقف ہے بھی یا نہیں۔
ایک بات سبھی اہل علم جانتے ہیں کہ کسی کتاب میں مصنف کا نقل کردہ ہر جملہ اس کا موقف نہیں ہوتا بعض مقامات پر مصنف کسی معاملے میں دوسرے لوگوں کے موقف بھی نقل کرتا ہے،اور یہی واقعہ یہاں پیش آیا کہ پیر شیخ عبدالقادر جیلانیؓ نے یوم عاشورہ کے بارے میں علما کے موقف نقل کیے اور یہ ولادت کی بات بھی انہی علما سے نقل کی نہ کہ یہ ان کا اپنا موقف ہے۔
غوث اعظمؓ، یوم عاشورہ کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوۓ لکھتے ہیں کہ
”بعض علما فرماتے ہیں اسے(دس محرم کو) عاشورہ اس لۓ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسی دن دس انبیا کرام علیہ السلام کو دس اعزاز عطا فرماۓ (پھر نو اعزاز نقل کر کے لکھتے ہیں) دسواں اعزاز یہ ہمارے نبیﷺ کی ولادت اسی دن ہوٸی“۔
(غنیة الطالبین، صحفہ نمبر 535)
تو یہ تھی وہ عبارت جس کو دلیل بنا کر منکرین یہ کہتے ہیں کہ غوث اعظمؓ کے نزدیک نبیﷺ کی تاریخ ولادت 10 محرم ہے،کوٸی شخص ہمیں اس عبارت میں کوٸی جملہ ایسا دکھا دے جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ یہ جو علما کے اقوال انہوں نے نقل کیے ہیں یہ ان کا موقف ہے!
ہم یہ بات اوپر بیان کر چکے کہ مصنف کا کسی بات کو نقل کرنا اس کا موقف ہونا ثابت نہیں ہوتا۔
غوث اعظمؓ نے غنیة الطالبین میں کہیں پر بھی نبیﷺ کی ولادت یا وفات کی تاریخ کے حوالے سے اپنا موقف بیان ہی نہیں فرمایا۔
اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ منکرین کے اس دعوے میں کتنی سچاٸی ہے اور کتنا فریب ہے۔
اب آتے ہیں اعلیٰحضرتؓ امام احمد رضا خان بریلویؓ کے بارے میں منکرین کے دعویٰ کی طرف کہ ان کے نزدیک نبیﷺ کی تاریخ ولادت 8 ربیع الاول ہے۔
اعلیٰحضرتؓ کا منہج یہ تھا کہ وہ کسی مسٸلہ کے بارے میں اپنے موقف کے ساتھ ساتھ طرفین کے موقف اور ان کے اقوال بھی نقل کیا کرتے تھے اور پھر اپنا موقف و اس کی وجوہات بیان کیا کرتے تھے۔
اعلیٰحضرت امام احمد رضا خان بریلویؓ نے اپنے رسالہ ”نطق الھلا بارخ ولاد الحبیب و الوصال“ میں نبیﷺ کی تاریخ ولادت اور تاریخ وفات پر مدلل و مفصل بحث فرماٸی ہے،
اور اسی رسالہ میں فرماتے ہیں!
”نبیﷺ کی تاریخ ولادت کے بارے میں اقوال بہت مختلف ہیں،دو،آٹھ،دس،بارہ وغیرہ وغیرہ، مگر مشہور و معتبر بارہویں تاریخ ہے، مکہ معظمہ میں ہمیشہ اسی تاریخ مکان مولد اقدس(جہاں نبیﷺ کی ولادت ہوٸی) کی زیارت کرتے تھے اور اس مکان میں اسی تاریخ مجلسِ میلادِ مقدس ہوتی ہے،علامہ قسطلانیؒ فرماتے ہیں مشہور یہ ہے کہ نبیﷺ 12 ربیع الاول بروز پیر کو پیدا ہوۓ،امام المغازی محمد بن اسحاقؒ وغیرہ کا یہی قول ہے،(پھر لکھتے ہیں) شرح مواہب میں امام ابن کثیرؒ سے ہے ”جمہور کے نزدیک یہی مشہور ہے،یہی وہ ہے جو مشہور ہے اور اسی پر عمل ہے“۔
(فتاویٰ رضویہ، جلد 26، صحفہ نمبر 411،412)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اعلیٰحضرت امام احمد رضا خان بریلویؓ کے نزدیک بھی نبیﷺ کی تاریخ ولادت 12 ربیع الاول ہی ہے اور اسی کو وہ جمہور کے نزدیک مشہور مانتے ہیں۔
اب آتے ہیں اس طرف کہ اعلیٰحضرتؓ نے 8 ربیع الاول تاریخ ولادت ہونے کے قول کے بارے میں کیا فرمایا۔
اگلے صحفہ پر اعلیٰحضرتؓ فرماتے ہیں!
”اگرچہ اکثر محدثین و مورخین کا نظریہ ہے کہ ولادت باسعادت 8 ربیع الاول کو ہوٸی اہل زیجات کا اسی پر اجماع ہے اور ابن حزم وغیرہ کا بھی یہی موقف ہے،(فرماتے ہیں) ہم نے حساب لگایا تو نبیﷺ کی ولادت اقدس والے سال محرم کا غرہ وسطیہ(آغاز) جمعرات کے روز پایا تو اس طرح ماہ ولادت کریمہ کا غرہ وسطیہ بروز اتوار اور غرہ ہلالیہ بروز پیر ہوا اس طرح پیر کے روز ماہ ولادت مبارکہ 8 ربیع الاول بنتی ہے،یہی وجہ ہے کہ اہل زیجات کا اس پر اجماع ہے،محض غرہ وسطیہ کو دیکھنے سے طرفین کے علاوہ تمام اقوال کا محال ہونا ظاہر ہو جاتا ہے اور حق کا علم شب و روز کو بدلنے والے(اللہ) کے پاس ہے“۔(یہاں پر اعلیٰحضرتؓ نے اہل زیجات والا حساب کتاب لگا کر فرمایا کہ ان کے اس حساب سے تاریخ ولادت 8 ربیع الاول ہی بنتی ہے،لیکن پھر اس کے رد میں فرماتے ہیں) شک نہیں کہ تلقی امت بلقبول (جس چیز پر امت کا اجماع ہو جاۓ) کے لۓ شان عظیم ہے اور نبیﷺ نے فرمایا عید الفطر اس دن ہے جس دن لوگ عید کریں اور عید الضحیٰ اس دن ہے جس دن لوگ عید الضحیٰ کریں“۔
(فتاریٰ رضویہ،جلد 26، صحفہ نمبر 412،413)
اعلیٰحضرتؓ نے اہل زیجات کا حساب لگا کر فرمایا کہ ان کے اس حساب کے مطابق تو نبیﷺ کی تاریخ ولادت 8 ربیع الاول بنتی ہے لیکن نبیﷺ نے تلقی امت بلقبول کو اختیار کرنے کا حکم دیا کہ عید اسی دن کرو جس دن لوگ کریں یعنی جس دن پر مسلمانوں کا اجماع ہو جاۓ۔
اسی وجہ سے اعلیٰحضرتؓ نے 12 ربیع الاول کو ہی نبیﷺ کی راجح اور صحیح تاریخ ولادت قرار دیا کیونکہ 12 ربیع الاول پر ہی جمہور محدثین و مورخین کا اجماع ہے۔
اور یہی بات آگے ایک مسٸلہ کے جواب میں فرماتے ہیں!
”(مسٸلہ 224) مشہور ہے کہ نبیﷺ کی تاریخ ولادت 12 ربیع الاول کو ہوٸی لیکن زید کہتا ہے کہ دراصل پیداٸش 9 ربیع الاول کو ہوٸی اور 12 ربیع الاول کو وفات ہوٸی اس لۓ 12 ربیع الاول کو عید منانا ممنوع ہے!“
(الجواب)
شرع مطہر میں مشہور بین الجمہور ہونے کے لۓ وقعت عظیم ہے (یعنی جو بات جمہور کے نزدیک زیادہ مشہور ہو وہ خود بہت بڑی دلیل ہوتی ہے) اور مشہور بین الجمہور (جمہور میں مشہور) ہی 12 ربیع الاول ہے اور علم ہیات و زیجات کے حساب سے 8 ربیع الاول ہے اور یہ جو شبلی وغیرہ نے 9 لکھی ہے کسی حساب سے درست نہیں،تعامل مسلمین(یعنی مسلمانوں کا عمل) حرمین شریفین و مصر و شام بلاد اسلام و ہندوستان میں 12 پر ہی ہے اور اس پر ”عمل کیا جاۓ“، اور روزِ ولادت اگر 8 یا 9 بھی مان لی جاۓ تب بھی 12 کو عید منانے میں کون سی ممانعت ہے ؟ وہ وجہ کہ اس شخص نے بیان کی(کہ 12 کو وفات ہوٸی) خود جہالت ہے،اگر مشہور کا اعتبار کرتا ہے تو ولادت اور وفات دونوں 12 ربیع الاول ہے،ہمیں شریعت نے نعمت الہیٰ ملنے پر چرچا کرنے اور غم پر صبر کرنے کا حکم دیا ہے اور ماتم سے منع کیا ہے،اور اگر علم زیجات کا حساب لیتا ہے تو تاریخ وفات بھی 12 نہیں بلکہ 13 ربیع الاول ہے،بہر حال معترض کا اعتراض بے معنی ہے واللہ اعلم“۔
(فتاویٰ رضویہ، جلد 26، صحفہ نمبر 427،428)
اس سے معلوم ہوتا ہے اعلیٰحضرتؓ کے نزدیک بھی نبیﷺ کی تاریخ ولادت 12 ربیع الاول ہی ہے اور انہوں نے اسی پر عمل کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے اور فرمایا کہ اسی پر پورے عالم اسلام کے مسلمانوں کا عمل ہے، اور اگر کوٸی شخص نبیﷺ کی تاریخ ولادت 12 نہیں بھی مانتا تو بھی میلاد منانے پر اعتراض بنتا ہی نہیں۔
ان سب دلاٸل سے ہم نے الحَمْدُ ِلله بفضل باری تعالیٰ یہ ثابت کیا کہ پیر شیخ عبدالقادر جیلانیؓ اور امام احمد رضا خان بریلویؓ پر منکرین جو اعتراضات کرتے ہیں وہ سب باطل ہیں اور یہ اعتراضات مکاری کے سوا کچھ نہیں،غوث اعظمؓ نے نبیﷺ کی تاریخ ولادت کے بارے میں اپنا موقف ”غنیة الطالبین“ میں بیان ہی نہیں فرمایا اور اعلیٰحضرتؓ کا اپنا موقف ”12 ربیع الاول ہی بیان فرمایا اور اسی پر امت کا اجماع ہونا ثابت کیا“۔
اگر کوٸی شخص، نبیﷺ کی تاریخ ولادت پر محدثین و مورخین کا اجماع پڑھنا چاہے تو ہماری پرانی تحریر کا مطالعہ کر سکتا ہے۔
نبیﷺ کی تاریخ ولادت 12 ربیع الاول ہونے کا بیان
اور اگر کوٸی شخص میلاد النبیﷺ پر ہماری تحریر پڑھنا چاہے تو ہماری اس تحریر کا مطالعہ کر سکتا ہے۔
میلاد قران و حدیث و آثار کی روشنی میں
تحقیق ازقلم: مناظر اہلسنت والجماعت محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی