کیا امام بخاری نے حضرت علی و فاطمہ و حسین کے ساتھ علیہ السلام لکھا ؟
السلام علی من اتبع الھدیٰ
کچھ عرصہ قبل مرزا انجینٸر کا ایک کلپ سامنے آیا جس میں وہ اپنی جہالت بکھیرتے ہوۓ کہہ رہا ہے کہ محدثین نے تو اپنی کتب میں صرف انبیا اور اہلبیت کے ساتھ علیہ السلام لکھا ہے کسی اور کے ساتھ نہیں لکھا۔
اور دلیل دے رہا ہے کہ اسلام 360 پڑھیں امام بخاریؒ نے صحیح بخاری میں حدیث نمبر 3748 میں امام حسین کے ساتھ ”علیہ السلام“ لکھا ہے اور حدیث نمبر 6318 میں حضرت علی و فاطمہ کے ساتھ ”علیھا السلام“ لکھا ہے،(ساتھ کہتا ہے کہ) ترجمہ میں مولوی بیٹھا ہوا ہے اس لۓ ترجمہ میں ”علیہ السلام“ نظر نہیں آۓ گا مولوی کو اٹھا کر باہر پھینک دو اور اوپر عربی میں دیکھو ”علیہ السلام“ نظر آ جاۓ گا۔
تو یہ تھا اس کا جاہلانہ بیان ساتھ ہی اس نے سنن ابو داٶد و ترمذی وغیرہ میں بھی یہ کلمات ہونے کا دعویٰ کیا ہے کہ امام بخاریؒ کے علاوہ ان محدثین نے بھی یہ الفاظ لکھے ہیں،میں صرف یہاں بخاری میں موجود ان کلمات پر لکھوں گا اسی سے آپ کو اندازہ ہو جاۓ گا کہ باقی کتب میں یہ کلمات ہونے کی کیا حقیقت ہے۔
یاد رہے کہ بخاری و دیگر کتبِ احادیث کے قدیم نسخے جو کہ ان محدثین کے شاگردوں نے سماع کر کے نقل کیے ان میں سے بعض نسخے ہی موجود ہیں جبکہ باقی نسخے مفقود ہو چکے ہیں۔
اہل علم جانتے ہیں (اور ہم حدیث عمار کی حقیقت قدیم نسخوں کی روشنی والی تحریر میں بھی یہ بیان کر چکے) کہ صحیح بخاری کے قدیم نسخوں میں سے صرف ابن سعادة کا نسخہ ہی موجود ہے،باقی قدیم نسخے مفقود ہو چکے۔
ابن سعادة کے نسخے میں دیکھتے ہیں کہ یہ حدیث کس طرح بیان کی گٸ ہے۔
امام ابن سعادة کے نسخے میں حدیث نمبر 3748 جو کہ فضاٸل امام حسن و حسین میں لکھی گٸ ہے اس طرح ہے کہ۔
”عن انس بن مالک اتي عبیداللہ بن زیاد براس الحسین فجعل فی طست“۔
(صحیح بخاری نسخہ ابن سعادة،باب فی مناقب الحسن و الحسین رضی اللہ عنھما)
مرزا کی ساری جہالت یہیں پر زمین بوس ہو گٸ ہے کہ سب سے قدیم نسخے میں ”علیہ السلام“ تو دور کی بات ہے ”رضی اللہ عنہ“ بھی موجود نہیں۔
اور یہ بات بھی تمام اہل علم جانتے ہیں کہ قدیم کتب میں صرف نبیﷺ کے نام کے ساتھ ہی ”صلی اللہ علیہ وسلم“ لکھا ہوتا ہے محدثین جب کسی صحابی کا نام لکھتے تھے تو صرف نام لکھ دیتے تھے،دعاٸیہ صیغہ تبھی استعمال کرتے تھے جب باب میں نام آتا تھا جیسا کہ آپ ابن سعادة والے نسخے میں ہی دیکھ سکتے ہیں کہ صرف باب میں ہی دعاٸیہ کلمہ لکھا ہوا ہے جیسے
”مناقب الحسن و الحسین رضی اللہ عنھما،
مناقب زید بن رباح مولی ابي بکر رضی اللہ عنھما،
ذکر ابن عباس رضی اللہ عنہ“۔
اس کے علاوہ کہیں بھی اگر سند میں نام آتا تو صرف نام لکھ دیتے جیسے ”عن انس،عن زید،قال جابر بن عبداللہ،عن عاٸشہ،عن علی وغیرہ وغیرہ“۔
لہذا یہ کہنا کہ امام بخاری نے ”علیہ السلام“ لکھا ہے اور مولوی خیانت کر رہا ہے جہالت کے سوا کچھ نہیں،ہمارا مطالبہ مرزا سے یہ ہے کہ ہمیں زرا امام بخاری کا قلمی نسخہ ہی دکھا دے کہ جس میں انہوں نے ”علیہ السلام“ لکھا ہو۔
اس کے بعد امام مہلب بن ابی صفرة کے نسخے میں بھی اس جگہ صرف ”براس الحسین فجعل فی طست/فجعل ینکت“ لکھا ہوا ہے،یہاں بھی ”علیہ السلام“ تو دور ”رضی اللہ عنہ“ بھی نہیں لکھا ہوا۔
(صحیح بخاری نسخہِ امام مہلب،جلد 4،صحفہ نمبر 87)
اور امام مہلب کے اس نسخے کی سند امام بخاری کے شاگرد ”فربری“ تک جاتی ہے جس نے امام بخاریؒ سے تین بار بخاری کا سماع کیا،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام فربری کے نسخے میں بھی کوٸی دعاٸیہ کلمہ نہیں تھا۔
امام اسماعیل بن علی بن محمد البقاعی المتوفیٰ 806ھ نے اپنے نسخہ ”البقاعی“ میں تمام صحابہ کرام کے نام کے ساتھ ”رضی اللہ عنہ“ لکھا اور اس حدیث میں حضرت حسین کے نام کے ساتھ بھی انہوں نے ”رضی اللہ عنہ“ ہی لکھا۔
(نسخہِ البقاعی من صحیح البخاری)
اب ہم یہ بیان کریں گے کہ سب سے پہلے ”علیہ السلام“لکھنا کس نے شروع کیا۔
سب سے پہلے بخاری کے نسخے میں اہلبیت کے ناموں کے ساتھ مخصوص جگہوں پر ”علیہ السلام“ لکھنا ”شیخ الاسلام جمال الدین محمد بن عبداللہ بن مالک المتوفیٰ 672ھ“ نے شروع کیا جس کا سماع انہوں نے اپنے استاد ”امام علی بن محمد الیونینی“ سے کیا تھا۔
اور اسی وجہ سے اس نسخہ کو ”نسخہِ یونینیة“ کہا جاتا ہے۔
جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ نسخہ یونینیة میں اس حدیث میں امام حسین کے نام کے ساتھ ”علیہ السلام“ لکھا گیا ہے۔
(صحیح بخاری النسخة الیونینیة،جلد 5،صحفہ نمبر 26)
اور پھر جب سلطان عبدالحمید نے علما کو اکھٹا کر کے ”نسخہِ یونینیة“ کو مدنظر رکھ کر ”نسخہِ سلطانیہ“ تیار کروایا تب بھی انہوں نے اسی طرح تمام دعاٸیہ کلمات لکھواۓ جو ”نسخہ یونینیة“ میں تھے اس لۓ اُس میں بھی اس حدیث میں امام حسین کے نام کے ساتھ ”علیہ السلام“ لکھا گیا۔
(صحیح بخاری نسخہ سلطانیہ،جلد 5،صحفہ نمبر 63)
اور مشرق میں نسخہِ سلطانیہ ہی راٸج ہے اس لۓ آج شاٸع ہونے والے نسخوں میں بھی عربی میں ان جگہوں پر امام حسین کے نام کے ساتھ ”علیہ السلام“ ہی لکھا جاتا ہے۔
جس چیز کو مرزا امام بخاری کی بات کہہ رہا ہے اور مولوی کو اٹھا کر پھینکنے کی بات کر رہا ہے وہ چیز ہی اس حدیث میں مولویوں نے لکھی ہے نہ کہ امام بخاری نے۔
رہی بات تسبیحِ فاطمہ کی حدیث میں حضرت علیؓ و فاطمہؓ کے نام کے ساتھ ”علیہ السلام“ لکھے ہونے کی تو اس کی حقیقت بھی یہی ہے کہ قدیم نسخوں میں یہ الفاظ وہاں بھی نہیں ہیں۔
جیسا کہ ابن سعادة کے نسخے میں دیکھیں کہ وہاں یہ حدیث اس طرح ہے کہ
”عن ابن ابی لیلی عن علی ان فاطمہ شکت ما تلقی“۔
(صحیح البخاری نسخة ابن سعادة،باب التکبیر والتسبیح عند المنام)
اور امام اسماعیل بن علی بن محمد البقاعی المتوفیٰ 806ھ نے اپنے نسخہ ”البقاعی“ میں یہاں بھی ان کے نام کے ساتھ ”رضی اللہ“ لکھا ہے،دیکھیں
”عن ابن ابی لیلی عن علی رضی اللہ عنہ ان فاطمہ رضی اللہ عنہا شکت ما تلقی“۔
(نسخہِ البقاعی من صحیح البخاری)
اور اس جگہ بھی حضرت علی و فاطمہ کے نام کے ساتھ ”علیہ السلام“ لکھنے کا آغاز ”نسخہِ یونینیة“ سے ہوا۔
دیکھیں (صحیح بخاری نسخہِ یونینیة،جلد 7،صحفہ نمبر 87)
اور پھر نسخہ سلطانیہ کی وجہ سے یہ الفاظ بھی آج تک شاٸع ہو رہے ہیں۔
ان سب دلاٸل سے ثابت ہوتا ہے کہ بخاری کے قدیم نسخوں میں صحابہ کے نام کے ساتھ تو دعاٸیہ کلمات لکھے ہی نہیں جاتے تھے،یہ تو بعد کے علما نے شامل کیے ہیں۔
اس لۓ یہ کہنا کہ مولوی کو اٹھا کر باہر پھینک دو ان الفاظ کو بخاری سے باہر پھینکنے کے مترادف ہے،کیونکہ مرزا جن الفاظ کو بخاری کے الفاظ کہتا ہے وہ الفاظ ہی بعد کے مولویوں نے شامل کیے ہیں۔
اور یہی چیز دوسری کتب کے ساتھ بھی ہوٸی ان میں بھی یہ دعاٸیہ کلمات بعد میں لکھے گۓ۔
ہمارے نزدیک تو تمام صحابہ کے ساتھ ”علیہ السلام“ لکھنا جاٸز ہے،ہمیں ”علیہ السلام“ لکھنے پر کوٸی اعتراض نہیں بلکہ یہاں مرزے کی جہالت کا علمی رد کرنا مقصود تھا جس جہالت کی وجہ سے وہ علما پر زبان درازی کر رہا تھا کہ علما خاٸن ہیں۔
دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو فتنہِ انجینٸر سے محفوظ رکھے،اور حق سننے و سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ۔
ازقلم:مناظر اسلام محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی