خلفاء ثلاثہ کی خلافت شیعہ کتب سے
السلام علی من اتبع الھدیٰ
آج کی اس تحریر میں ہم خلفاء ثلاثہ کی خلافت کے حق ہونے پر شیعہ کتب سے چند دلاٸل نقل کریں گے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ شیعہ کی کتب میں کیا لکھا ہے اور یہ لوگ کیا باطل اعتقاد رکھتے ہیں۔
شیعہ کا ماننا یہ ہے کہ حضرت علیؓ نبیﷺ کے بعد خلیفہ بلافصل تھے اور حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ عثمانؓ کی خلافت ناحق و جبر کی خلافت تھی اور وہ سب معازاللہ فاسق و فاجر و مرتد تھے۔
لیکن اگر شیعہ کتب کا مطالعہ کیا جاۓ تو حقیقت کچھ اور ہی معلوم ہوتی ہے۔
اب آپ ملاحظہ فرماٸیں کہ خلفاء ثلاثہ کے بارے میں ان کی کتب میں کیا لکھا ہوا ہے۔
حضرت علیؓ کا نہج البلاغہ(جو کہ شیعہ کی سب سے معتبر کتاب ہے) میں حضرت امیر معاویہؓ کو لکھا گیا ایک مکتوب ہے جس میں لکھا ہے کہ
”جن لوگوں نے ابوبکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ کی بیعت کی تھی،انہوں نے میرے ہاتھ پر اسی اصول کے مطابق بیعت کی جس اصول پر وہ ان کی بیعت کر چکے تھے،اور اس کی بنا پر جو حاضر ہے اسے پھر نظر ثانی کرنے کا حق نہیں اور جو بروقت موجود نہ ہو اسے رد کرنے کا اختیار نہیں،اور شوریٰ کا حق صرف مہاجرین و انصار کو ہے،وہ اگر کسی پر ایکا کر لیں اور اسے خلیفہ سمجھ لیں تو اسی میں اللہ کی رضا و خوشنودی سمجھی جاٸے گی“۔
(نہج البلاغہ،مکتوب نمبر 6،صحفہ نمبر 562)
اس مکتوب میں حضرت علیؓ نے اپنی خلافت کو حق پر ثابت کرنے کے لۓ خلفاء ثلاثہ کی خلافت کو بطور حجت پیش کیا کہ لوگوں نے جس اصول پر ان سب کی بیعت کی اسی اصول پر میری بیعت کی ہے تو یہاں شیعہ سے ہمارا سوال ہے کہ اگر حضرت علیؓ کے نزدیک ان سب کی خلافت غصب و جبر و باطل تھی تو پھر انہوں نے اُن سب کی خلافت کو اپنی خلافت ثابت کرنے کے لۓ دلیل کیوں بنایا ؟
اور آگے فرماتے ہیں کہ شوریٰ کا حق صرف مہاجرین و انصار کو ہے،وہ اگر کسی پر ایکا کر لیں اور اسے خلیفہ سمجھ لیں تو اسی میں اللہ کی رضا و خوشنودی سمجھی جاٸے گی۔
اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ و عمرؓ و عثمانؓ کی خلافت برحق تھی کیونکہ ان پر شوریٰ کا اجماع ہو چکا تھا اور اسی میں اللہ کی خوشنودی تھی۔
ایک دوسرے مقام پر حضرت علیؓ کے فرمان سے پتہ چلتا ہے کہ وہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی جگہ خلافت لینے کو اپنا حق نہیں سمجھتے تھے۔
نبیﷺ کی وفات کے بعد حضرت عباسؓ اور حضرت ابوسفیانؓ حضرت علیؓ کی بیعت کرنے آۓ تو حضرت علیؓ نے فرمایا!
”اپنا رُخ موڑ لو،فخر و مباہات کے تاج اتار ڈالو، اس وقت(جب لوگ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی بیعت کر چکے اور وہ خلیفہ بن چکے) میرا طلب خلافت کے لۓ کھڑا ہونا یہ ایک گندلا پانی اور ایک لقمہ ہے جو کھانے والے کے گلوگیر ہو کر رہے گا،پھلوں کو ان کے پکنے سے پہلے چُننے والا ایسا ہے جیسے دوسروں کی زمین میں کاشت کرنے والا“۔
(نہج البلاغہ،خطبہ نمبر 5،صحفہ نمبر 100)
یہاں جب حضرت عباسؓ اور حضرت ابوسفیانؓ نے حضرت علیؓ کی بیعت کرنا چاہی تو انہوں نے انکار فرما دیا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کی جگہ خود خلیفہ بننے کو گندے پانی اور اٹک جانے والے پھل سے تشبیہ دے کر ناپسندیدہ فرمایا۔
اور ان کے اگلے قول سے تو یہ بات اور بھی واضح ہو جاتی ہے کہ وہ خود کو پہلا خلیفہ نہیں مانتے تھے کیونکہ آگے فرمایا ”پھلوں کو ان کے پکنے سے پہلے چُننے والا ایسا ہے جیسے دوسروں کی زمین میں کاشت کرنے والا“
اس سے ثابت ہوتا کہ وہ خود کو پہلا خلیفہ نہیں سمجھتے تھے کیونکہ انہوں نے خود کو پہلا خلیفہ بننے کو ایسے پھل سے تشبیہ دی ہے جو ابھی پکا نہیں یعنی ابھی اس کا وقت نہیں آیا،اور خود کے لۓ پہلے نمبر پر خلافت کو دوسرے کی زمین پر کاشت کرنے سے تشبیہ دی ہے۔
شیعہ کتب کے مطابق نبیﷺ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ کے خلیفہ بننے کے بارے میں پہلے سے ہی حضرت حفصہؓ کو بتا دیا تھا۔
سورة التحریم کی آیت نمبر 3 میں جہاں پر نبیﷺ کا اپنی زوجہ کو راز کی بات بتانے کا ذکر ہے تو اب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ راز کی بات کیا تھی۔
شیعہ کا سب سے معتبر مفسر جو کہ یعقوب کلینی کا بھی استاد ہے۔
علی بن ابراہیم القمی اپنی تفسیر ”تفسیرِ قمی“ میں اس آیت کی تفسیر میں اپنی صحیح سند کے ساتھ امام جعفر صادقؒ کا قول نقل کرتا ہے۔
امام جعفر صادقؒ فرماتے ہیں! نبیﷺ نے حضرت حفصہؓ سے فرمایا میں تم کو ایک راز کی بات بتاتا ہوں وہ کسی اور کو نہ بتانا،تو حضرت حفصہؓ نے فرمایا ٹھیک ہے تو نبیﷺ نے فرمایا،میرے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ خلیفہ بنیں گے اور پھر ان کے بعد آپ کے والد (یعنی حضرت عمرؓ) خلیفہ بنیں گے،تو انہوںؓ نے پوچھا آپﷺ کو یہ کس نے بتایا ؟ تو فرمایا اللہ نے مجھے بتایا ہے“۔
(تفسیرِ قمی،جلد 3،صحفہ نمبر 1083،سورة التحریم آیت 1 تا 5 کی تفسیر)
اور امام جعفرؒ کی یہی روایت تفسیر قمی کے حوالے سے ملا فیض کاشانی نے بھی اپنی تفسیر میں نقل کی ہے۔
لکھتا ہے”نبیﷺ نے حضرت حفصہؓ کو ایک راز کی بات بتاٸی کہ میرے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ خلیفہ بنیں گے اور ان کے بعد آپ کے والد (یعنی حضرت عمرؓ) خلیفہ بنیں گے،تو انہوںؓ نے پوچھا آپ کو یہ کس نے بتایا ہے ؟ تو نبیﷺ نے فرمایا مجھے علم رکھنے والے خبردار (اللہ) نے بتایا ہے“۔
(تفسیر الصافی،جلد 5،صحفہ نمبر 194)
شیعہ کتب کے ان دونوں دلاٸل سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نبیﷺ نے اپنی زندگی میں ہی حضرت ابوبکر صدیقؓ و حضرت عمرؓ کے خلیفہ بننے کے بارے میں اپنی زوجہ محترمہ کو خبر دے دی تھا۔
اب ہم حضرت ابوبکر صدیقؓ کے خلیفہ بلا فصل ہونے اور ان کے مومن ہونے پر ایک اور دلیل نقل کریں گے جس سے شیعہ کے غلط اعتقاد کا بھی رد ہو جاۓ گا کہ معاز اللہ حضرت ابوبکر صدیقؓ مومن نہ تھے اور ان کی خلافت حق نہ تھی۔
شیعہ کے معتبر ترین مفسرین میں سے بہت بڑا نام فضل بن حسن طبرسی اپنی تفسیر میں سورة الماٸدہ آیت نمبر 54 کہ!
”اے ایمان والو!تم میں جو کوٸی اپنے دین سے پھرے گا تو عنقریب اللہ ایسے لوگ لاۓ گا کہ وہ اللہ سے محبت رکھتے ہوں گے اور اللہ ان سے محبت رکھتا ہو گا،مسلمانوں پر نرم اور کافروں پر سخت،اللہ کی راہ میں لڑیں گے“۔
کی تفسیر میں لکھتا ہے!
”یہ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور ان کے ساتھی تھے جنہوں نے مرتدین (منکرین زکوة) سے جنگ کی“۔
(مجمع البیان،جلد 3،صحفہ نمبر 293،سورة الماٸدہ آیت نمبر 54 کی تفسیر)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور ان کے ساتھی اللہ سے محبت رکھتے تھے اور اللہ ان سے محبت رکھتا تھا اور وہ کامل مومن تھے۔
اس آیت کی تفسیر میں اور جتنے واقعات ہیں وہ سب قرآٸن کے خلاف ہیں اور بس ایک یہی واقعہ ہے جس میں مرتدین سے جنگ کی گٸ۔
اب ہم حضرت عمرؓ کی خلافت کے برحق ہونے اور ان کے مومن ہونے پر بھی شیعہ کی کتاب سے ہی دلیل نقل کریں گے۔
روایت کچھ یوں ہے!
امام جعفر صادقؒ نے ابو عبیدہ کو سورة الروم کی آیت 1 تا 5 کے بارے میں بتایا کہ یہ اللہ کا وعدہ مسلمانوں سے تھا کہ اس دن (جب فارس کو فتح کیا جاۓ گا) مومنین خوشی مناٸیں گے اللہ کی مدد کے سہارے، تو ابو عبیدہ نے پوچھا قرآن تو کہتا ہے کہ چند سال بعد یہ ہو گا حالانکہ نبیﷺ کی وفات کے بعد، حضرت ابوبکر صدیقؓ کا دورِ حکومت گزرنے کے بعد کیا مومنین نے حضرت عمرؓ کے دورِ حکومت میں (جنگ قادسیہ) سے اسے فتح نہیں کیا ؟ تو امام جعفرؒ نے فرمایا،کیا میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ قرآن کی تاویل اور تفسیر ہوتی ہے ؟ سارا معاملہ اللہ کی مشیت سے ہوتا ہے وہ جس کو چاہتا ہے مقدم کرتا ہے جس کو چاہتا ہے مٶخر کرتا ہے اور مومنین پر نصرت نازل کرنے کا اس کا فیصلہ حتمی تھا، اور اسی کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے کہ ”اس دن مومنین خوش ہوں گے اللہ کی مدد کی وجہ سے“۔
(الکافی،جلد 8،صحفہ نمبر 145)
اور اس روایت کو ملا فیض کاشانی نے بھی اپنی تفسیر میں نقل کیا۔
(تفسیر الصافی،جلد 5،صحفہ نمبر 489،سورة الروم آیت 1 تا 5)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورة روم آیت 1 تا 5 میں مومنین کے لۓ جس نصرت کا ذکر ہے وہ نصرت اللہ نے حضرت عمرؓ اور ان کے ساتھیوں کو عطا فرماٸی اور ان کے دور میں فارس فتح ہوا،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ روایت کے مطابق حضرت عمرؓ کامل مومن تھے اور اللہ کی نصرت ان کے ساتھ تھی۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت علیؓ کے نزدیک خلیفہ میں کن کن باتوں کا ہونا ضروری ہے،اور کیا حضرت ابوبکر و عمرؓ میں وہ خصویصات تھیں۔
حضرت علیؓ نے خلافت کی اہلیت کے بارے میں فرمایا!
”اے لوگو تمام لوگوں میں اس خلافت کا اہل وہ ہے جو اس کے نظم و نسق کے برقرار رکھنے کی سب سے زیادہ قوت و صلاحیت رکھتا ہو اور اس کے بارے میں اللہ کے احکام کو سب سے زاٸد جانتا ہو،اس صورت میں اگر کوٸی قتنہ پرداز فتنہ کھڑا کرۓ تو پہلے اس سے توبہ و بازگشت کے لۓ کہا جاۓ گا اگر وہ انکار کرۓ تو اس سے جنگ و جدال کیا جاۓ گا،میں دو شخصوں سے ضرور جنگ کروں گا ایک جو ایسی چیز کا دعویٰ کرۓ جو اس کی نہ ہو اور دوسرا وہ جو اپنے معاہدہ کا پابند نہ رہے“۔
(نہج البلاغہ،خطبہ نمبر 171،صحفہ نمبر 397)
تو یہ تھیں وہ خصوصیات جو خلیفہ میں ہونا ضروری ہیں اب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے کیا خصوصیات دیکھ کر حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ کی بیعت کی تھی۔
شیعوں کے معتبر ترین اماموں میں سے ایک محمد حسین کاشف الغطاء لکھتا ہے!
”جب حضرت علیؓ نے پہلے اور دوسرے خلیفہ (یعنی حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ) کی کلمہ توحید کی نشر و اشاعت،اور لشکروں کی تیاری و فتوحات کی توسیع میں مسلسل جدوجہد دیکھی اور انہوں نے اس میں اپنی ذات کو ترجیح نہیں دی،اور نہ ہی کسی پر ظلم و زیادتی کی تو حضرت علیؓ نے ان کی (یہ خدمات دیکھ کر) بیعت کر لی اور سلامتی اختیار کر لی“۔
(اصل الشیعة و اصولھا،صحفہ نمبر 123،124)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ کامل مومن تھے اور انہوں نے اپنے دورِ خلافت میں اسلام کی اشاعت کا کام کیا اور اسلام کو وسیع پیمانہ میں پھیلایا اور اپنی ذات کو ترجیح نہیں دی اور نہ ہی کسی پر ظلم و زیادتی کی تو پھر حضرت علیؓ نے بھی ان کی یہ خدمات دیکھ کر ان کی بیعت کر لی،اس طرح حضرت علیؓ نے اپنے اسی اصول پر کہ خلافت کا حقدار وہی ہے جو اس کے نظم و نسق کو برقرار رکھ سکے پر حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کی خلافت کو قبول فرمایا۔
اگر اب بھی کوٸی شیعہ یہ نہ مانے کہ حضرت علیؓ ان کی خلافت پر خوش تھے تو پھر ہمارا یہاں ایک اور مطالبہ ہے کہ پھر ہمیں دکھاٸیں کہ حضرت علیؓ نے پہلے تینوں خلفاء سے کب جنگ کی ؟
کیونکہ نہج البلاغہ کے اوپر دیے گۓ حوالے میں لکھا ہے کہ حضرت علیؓ نے فرمایا!
”میں ایسے شخص سے ضرور جنگ کروں گا جو ایسی چیز کا دعویٰ کرۓ جو اس کی نہ ہو“
اگر حضرت علیؓ واقعی تینوں خلفاء کو خلافت کا حقدار نہیں سمجھتے تھے تو پھر انہوں نے اپنے اس قول کے مطابق ان سے جنگ کیوں نہ کی ؟
ان کا جنگ نہ کرنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ان کی خلافت کو صحیح مانتے تھے۔
الحَمْدُ ِلله ان تمام دلاٸل سے ثابت ہوتا ہے کہ نبیﷺ نے اپنی زندگی میں ہی حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ کے خلیفہ بننے کی بشارت حضرت حفصہؓ کو دے دی تھی،اور خلفاء ثلاثہ سب مومن و مسلمان اور حق پر تھے اور حضرت علیؓ سب کے ساتھ رہے اور ان کی خلافت پر خوش تھے،اور اسی کو خدا کی خوشنودی سمجھتے تھے اور ان کی جگہ خود خلیفہ بننے کو جاٸز نہیں سمجھتے تھے اور شیخین کی اسلام کے لۓ خدمات دیکھ کر ہی انہوں نے ان کی بیعت کی،اور اپنی خلافت کو اُسی اصول پر سمجھتے تھے جس اصول پر خلفاء ثلاثہ کی خلافت تھی۔
اگر خلفاء ثلاثہ کی خلافت باطل و جبر تھی تو پھر حضرت علیؓ کی خلافت بھی باطل و جبر کی خلافت ہوٸی۔(معازاللہ)
دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو حق سننے و سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ اور شیعوں کو بھی حق سن کر اور سمجھ کر ماننے کی توفیق عطا فرماۓ۔(آمین)
تحقیق ازقلم:مناظر اہلسنت والجماعت محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی