عذابِ قبر اور غامدی نظریہ کا رد

السلام علی من اتبع الھدیٰ

فیسبک پر ایک غامدی مقلدہ سے عذابِ قبر کے بارے میں مختصر سی بحث ہوٸی،جس میں اس کا شروع میں تو کہنا یہ تھا کہ ”قرآن میں کوٸی دلیل نہیں ملتی کہ قبر میں بھی کچھ ہو گا“(یعنی یہ کہنا چاہتی ہے کہ قرآن مجید سے عذاب قبر کا کوٸی ثبوت نہیں ملتا)۔



اس کے رد پر ہم نے قرآن مجید، سورة مومن کی آیت نمبر 45،46 پیش کی جس میں اللہ فرعونیوں کا حال بیان کرتا ہے کہ!

”تو اللہ نے اسے (موسیٰ علیہ السلام کو) بچا لیا ان کے مکر کی برائیوں سے اور فرعون والوں کو برے عذاب نے آ گھیرا،آگ جس پر صبح و شام پیش کیے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہو گی،حکم ہو گا فرعون والوں کو سخت تر عذاب میں داخل کرو“۔


یہاں اللہ تعالیٰ فرعونیوں کا حال بیان فرماتا ہے کہ جب ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو ان سے بچا لیا تو ان کو عذاب نے آ گھیرا اور صبح شام آگ پر پیش کیے جاتے ہیں(یعنی ان کو ہر وقت عذاب دیا جاتا ہے) اور جب قیامت آۓ گی تو اللہ حکم دے گا کہ ان کو اور زیادہ سخت عذاب یعنی جہنم میں داخل کر دو۔


اِسی ایک آیت سے پوری غامدیت کی باطل عمارت زمین بوس ہو جاتی ہے کہ مرنے کے بعد قیامت تک کسی جان پر عذاب نہیں ہو گا۔


جب ہم نے یہ آیت پیش کی تو غامدی مقلدہ نے جان چھڑوانے کے لۓ ایک بہانہ بنانے کی کوشش کہ

”کہیں صراحت سے نہیں ملتا کہ عذاب ہو گا اگر اس آیت کی تفسیر دیکھ لی جاۓ ابن عباس وغیرہ کی تفسیر تو جو بات غامدی صاحب کرتے ہیں 'وہی وہ بھی کرتے ہونگے'یہ کفار کے ساتھ ہے مسلمانوں کے لۓ کچھ نہیں آیا یہ تو چھوڑو ہی اسکی تفسیر بھی چیک کر لو ابن عباس وغیرہ نے اس آیت کی تفسیر کیا کی ہے باقی اس سے صراحت سے کوٸی قبر کا عذاب ثابت نہیں ہوتی“۔


یہاں پر کہہ رہی ہے کہ اس آیت میں صراحت نہیں کہ عذاب ہوتا ہے اس آیت کی تفسیر دیکھ لو جو بات غامدی کرتا ہے وہی بات ابن عباس وغیرہ ”کرتے ہوں گے“،پھر کہتی ہے کہ یہ تو کفار کے لۓ ہے ”مسلمانوں کے لۓ عذاب قبر کی کوٸی دلیل نہیں“


یعنی کوٸی تفسیر کھول کر دیکھی نہیں بلکہ اندھی تقلید میں یہ کہہ دیا کہ ابن عباس وغیرہ بھی یہی بات کرتے ہوں گے،پھر غامدی کے مہنج سے ہٹتے ہوۓ کہتی ہے کہ صرف کفار کو عذاب ہو گا مسلمانوں کے لۓ کہیں صراحت موجود نہیں،اس سے زیادہ اس کی جہالت اور کیا ہو گی ؟


پھر ہم نے اس کو سورة التوبہ کی آیت نمبر 101 اور اس کی تفسیر کا حوالہ دیا۔

اللہ سورة توبہ آیت 101 میں فرماتا ہے!

”اور تمہارے آس پاس کے کچھ گنوار منافق ہیں ، اور کچھ مدینہ والے ، ان کی خو ہو گئی ہے نفاق ، تم انہیں نہیں جانتے ، ہم انھیں جانتے ہیں جلد ہم انہیں دوبارہ عذاب کریں گے پھر بڑے عذاب کی طرف پھیرے جائیں گے“۔


اس آیت میں اللہ منافقین کے بارے میں فرماتا ہے کہ ان کو ہم دو مرتبہ عذاب دیں گے پھر بڑے عذاب کی طرف پھیر دیں گے۔


جب ہم نے یہ آیت دکھاٸی تو غامدی مقلدہ حواس باختہ ہو کر کہنے لگی!

”(اس آیت کی) جس کسی نے تفسیر کی ہے منافقین کے حوالے سے کی ہے اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو طبری اٹھا کر اس آیت کے ضمن میں سلف کی تفسیر دیکھ لیں“۔


اب یہاں جاہل غامدی مقلدہ سے کچھ بن نہ پایا تو اپنے دونوں سابقہ موقف سے بھاگ گٸ اور یہ بھی مان لیا کہ منافقین کو بھی عذاب ہو گا۔(یعنی پورے غامدی منہج کو چھوڑ دیا)


پھر ہم نے مفسرین کی تفاسیر دکھاٸی کہ انہوں نے عذابِ قبر کی صراحت فرماٸی ہے۔

امام ابن کثیرؒ اس آیت کی تفسیر میں کِبار تابعین کے اقوال نقل فرماتے ہیں کہ!

”امام مجاہدؒ،امام ابن جریجؒ،امام حسن بصریؒ اور امام قتادہؒ ”سنعذبھم مرتین“ یعنی ”دو مرتبہ عذاب دیں گے“ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ”عذابِ قبر“ ہے۔

(تفسیر ابن کثیر، سورة توبہ، آیت 101 کی تفسیر)



جب ہم نے یہ حوالہ اردو ترجمہ سے دیا تو غامدی مقلدہ سے جب کچھ جواب نہ بن پایا تو جاہلانہ اعتراض کرتے ہوۓ کہنے لگی!

”مجاہد نے اردو میں تفسیر کی تھی ؟“


اس اعتراض سے آپ اس کی علمی یتیمی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

پھر کہتی ”عربی حوالہ لگا دیں اور یہ بھی کلٸیر کر دیں کہ وہاں عالم برزخ لکھا ہوا ہے یا عذابِ قبر“۔


بے چاری کو معلوم نہ تھا کہ اس کی علمی یتیمی کا پوسٹ مارٹم ہونے والا ہے،پھر ہم نے عربی نسخہ سے عبارت لگا دی۔

تفسیر ابن کثیر، سورة توبہ، آیت نمبر 101 کی تفسیر میں امام ابن کثیرؒ نقل فرماتے ہیں!

”وقال مجاھد فی قولہ "سنعذبھم مرتین" فی روایة بالجوع، وعذاب القبر“

(یعنی امام مجاہدؒ ”سنعذبھم مرتین“ کی تفسیر میں فرماتے ہیں اس سے مراد بھوک اور عذاب قبر ہے)



جب ہم نے عربی عبارت میں بھی الفاظ ”عذاب القبر“ دکھا دیے تو جاہل غامدی کی جاہل مقلدہ حواس باختہ ہو گٸ اور جب کوٸی جواب نہ بن پایا تو یہ کہہ کر بھاگ گٸ کہ!

”جس نے بھی تفسیر کی ہو انہیں بتانا ہو گا کہ اللہ کے نبیﷺ نے یہ فرمایا باقی ان لوگوں کی اپنی راۓ کی تفسیر ہے جو کہ معتبر نہیں“۔


جاہل غامدی مقلدہ یہ کہتے ہوۓ بھاگ گٸ کہ اللہ کے نبیﷺ نے یہ نہیں فرمایا بلکہ مفسرین کی یہ تفسیر انہوں نے خود سے گھڑی ہے یہ معتبر نہیں۔


یہ تو تھی اس جاہل غامدی مقلدہ کا حال اور اس کی علمی یتیمی اب قارئين عذابِ قبر کے باقی دلاٸل ملاحظہ فرماٸیں۔


امام طبریؒ بھی اپنی تفسیرِ طبری میں سورة توبہ آیت نمبر 101 کی تفسیرِ میں ”سنعذبھم مرتین“ کی تفسیر میں امام مجاہدؒ،ابن جریجؒ،حسن بصریؒ اور امام قتادہؒ کے انہیں اقوال کے ساتھ ساتھ حضرت ابن عباسؓ کا قول بھی نقل فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ”عذابِ قبر ہے“۔

(تفسیرِ طبری، سورة توبہ، آیت نمبر 101 کی تفسیر)



اب ہم احادیث سے یہ ثابت کریں گے کہ عذابِ قبر برحق ہے اور اللہ کے رسولﷺ نے خود بھی عذابِ قبر سے پناہ مانگی ہے اور اپنے صحابہ کرامؓ کو بھی عذاب قبر سے پناہ مانگنے کی تعلیم ارشاد فرماٸی۔


حضرت عاٸشہؓ فرماتی ہیں کہ نبیﷺ نماز میں یوں دُعا کیا کرتے تھے!

”اے اللہ میں عذاب قبر سے تیری پناہ مانگتا ہوں“۔

(صحیح بخاری، جلد 1، حدیث نمبر 832)



یہاں پر نبیﷺ نے عذاب قبر سے پناہ مانگ کر مسلمانوں کو اس سے پناہ مانگنے کی تعلیم دیتے ہوۓ منکرین کو یہ بتا دیا کہ عذاب قبر برحق ہے کیونکہ نبیﷺ کو تو عذاب قبر سے پناہ مانگنے کی ضرورت ہی نہیں اس لۓ انہوں نے خود پناہ مانگ کر یہ ثابت فرمایا کہ میری امت کو چاہیے کہ عذابِ قبر سے پناہ مانگیں کیونکہ چھوٹے موٹے گناہوں سے بھی عذابِ قبر ہو سکتا ہے۔


جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ دو بندوں کو عذابِ قبر ہو رہا تھا ایک کو پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنے کی وجہ سے اور دوسرے کو چغل خوری کرنے کی وجہ سے۔


حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں!

”رسول اللہﷺ ایک دفعہ مدینہ یا مکے کے ایک باغ میں تشریف لے گئے،وہاں آپ نے دو شخصوں کی آواز سنی جنھیں ان کی قبروں میں عذاب کیا جا رہا تھا ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ان پر عذاب ہو رہا ہے اور کسی بہت بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں پھر آپﷺ نے فرمایا بات یہ ہے کہ ایک شخص ان میں سے پیشاب کے چھینٹوں سے بچنے کا اہتمام نہیں کرتا تھا اور دوسرا شخص چغل خوری کیا کرتا تھا، پھر آپﷺ نے ایک تَر شاخ منگوائی اور اس کو توڑ کر دو ٹکڑے کیا اور ان میں سے ایک ایک ٹکڑا ہر ایک کی قبر پر رکھ دیا، لوگوں نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! یہ آپ ﷺ نے کیوں کیا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اس لیے کہ جب تک یہ ڈالیاں خشک ہوں اس وقت تک ان پر عذاب کم ہو جائے“۔

(صحیح بخاری، جلد 1، حدیث نمبر 216)



اس سے ثابت ہوتا ہے کہ چھوٹے موٹے گناہوں کی وجہ سے بھی مسلمانوں کو عذابِ قبر ہو سکتا ہے اور قبر پر پھول ڈالنے اور میت کی طرف سے صدقہ و خیرات کرنے کی وجہ سے عذاب میں تخفیف بھی ہو جاتی ہے۔


اور نبیﷺ نے اپنے صحابہ کو عذابِ قبر سے پناہ مانگنے کی ترغیب بھی دی!

”ایک مرتبہ جب سورج گرہن لگ گیا تو نبیﷺ نے صحابہ کو نماز کسوف پڑھا کر صحابہ کو حکم دیا کہ وہ عذابِ قبر سے پناہ مانگیں“۔

(صحیح بخاری، جلد 1، حدیث نمبر 1050)



صحابہ کرامؓ اپنے بچوں کو بھی عذابِ قبر سے پناہ مانگنے کی دُعا یاد کرواتے تھے۔


حضرت سعد ابن ابی وقاصؓ اپنے بچوں کو درج ذیل کلماتِ دعاٸیہ اس طرح سکھاتے تھے جیسے ایک معلم بچوں کو لکھنا سکھاتا ہے(یعنی تاکید سے) اور وہ فرماتے تھے رسول اللہﷺ ہر نماز کے بعد ان کلمات کے ذریعے اللہ سے پناہ مانگتے تھے۔(ان میں ایک دُعا یہ تھی) ”واعوذبک من عذاب القبر“ ”اور عذاب قبر سے (اے اللہ) تیری پناہ مانگتا ہوں“۔

(صحیح بخاری، جلد 3، حدیث نمبر 2822)



نبیﷺ اپنے صحابہ کرامؓ کو پانچ چیزوں سے پناہ مانگنے کی تاکید فرماتے تھے،ان میں سے ایک دُعا عذابِ قبر سے پناہ مانگنے کی تھی۔

(صحیح بخاری، جلد 5، حدیث نمبر 6390)



حضرت ابوہرہرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا!

”قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو“۔

(صحیح مسلم، جلد 1، حدیث نمبر 1329)



ان تمام احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عذابِ قبر برحق ہے اور نبیﷺ نے صحابہ کرامؓ کو عذابِ قبر سے پناہ مانگنے کی تعلیم ارشاد فرماٸی،اور صحابہ کرامؓ بھی اپنی اولاد کو عذابِ قبر سے پناہ مانگنے کی تعلیم دیتے تھے۔


اوپر نقل کیے گٸے تمام دلاٸل میں ہم نے عربی متن میں ”عذابِ قبر“ کے الفاظ کو مینشن کیا ہے تاکہ دوبارہ سے کوٸی جاہل یہ نہ کہہ سکے کہ ”کیا نبیﷺ نے اردو میں پناہ مانگی تھی؟“۔


دُعا ہے کہ اللہ ہم سب کو حق سُننے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ اور باطل فتنہِ غامدیہ سے لوگوں کی حفاظت فرماۓ۔(آمین)


تحقیق ازقلم:مناظر اہلسنت والجماعت محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی

Powered by Blogger.