معاویہ بن یزید کا حضرت امیر معاویہؓ کے بارے میں خطبہ ؟
السلام علی من اتبع الھدیٰ
ایک فیسبکی مجنوں کی لیلیٰ کی پوسٹ نظر سے گزری جس میں اس نے ”الصواعق المحرقہ“ میں موجود حضرت امیر معاویہؓ کے پوتے، معاویہ بن یزید کی طرف منسوب ایک خطبہ کا سکین لگایا، خطبہ کچھ اس طرح ہے کہ!
”یہ خلافت اللہ کی رسی ہے،اور میرے دادا حضرت امیر معاویہؓ نے اس آدمی سے خلافت کا تنازع کیا جو اِس سے خلافت کا زیادہ مستحق تھا، یعنی حضرت علیؓ اور جو سلوک وہ تم سے کرتا رہا ہے تم اس کو جانتے ہو حتیٰ کہ اس کی موت آ گٸ اور وہ اپنی قبر میں اپنے گناہوں کا قیدی ہو گیا“۔
(الصواعق المحرقہ، صحفہ نمبر 574،اردو)
یہ خطبہ لگا کر اس لیلیٰ نے یہ دعویٰ کیا کہ حضرت امیر معاویہؓ قبر میں گناہوں کے قیدی ہیں۔(معازاللہ)
مجنوں کی مجہول لیلیٰ سے ایک بندے نے کمینٹ میں اس خطبہ کی سند مانگی تو جناب کا کہنا تھا کہ ”اس کی سند نہیں مِل رہی اور تاریخی روایات کی اسناد نہیں ہوتی“۔
اس بات سے اس کی جہالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے پاس اپنے دعوے کی سند تک موجود نہیں اور جب فرار کا کوٸی راستہ نہیں ملا تو لیلیٰ نے یہ کہہ کر جان چھڑوانے کی کوشش کی کہ تاریخی روایات کی اسناد نہیں ہوتیں۔
ہمارا اس مجہول لیلیٰ سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ یہ اصول اس کے کس ابا نے گھڑا ہے کہ تاریخی روایات کی اسناد نہیں ہوتیں ؟
دوسرا سوال ہمارا اس سے یہ ہے کہ اس خطبہ کو کس کس محدث نے صحیح قرار دیا اور کس کس محدث نے اس خطبہ کے زیر نظر حضرت امیر معاویہؓ کو گناہگار کہا ؟
اب ہم چلتے ہیں اس خطبہ کی حقیقت کی طرف تو یہ خطبہ جس کتاب میں بھی نقل کیا گیا بلاسند ہی نقل کیا گیا۔
یوسف بن تغری کی کتاب میں جب یہ واقعہ نقل ہوا تو یہ واقعہ ابو حفص الفلاس کے حوالے سے بلاسند نقل کیا گیا ہے!
ابو حفص الفلاس جو کہ ”عمرو بن علی بن بحر بن کنیز“ ہے اس نے یہ واقعہ بغیر کسی سند کے نقل کیا ہے۔
(النجوم الزاھرة، جلد 1، صحفہ نمبر 213)
یہ واقعہ 64 ہجری کے واقعات میں نقل کیا گیا ہے اور ابو حفص الفلاس اس کو نقل کر رہا ہے۔
جبکہ امام ذھبیؒ ابو حفص الفلاس کے ترجمے میں لکھتے ہیں کہ ”یہ 160 ہجری میں پیدا ہوا اور 249 ہجری میں فوت ہوا“۔
(سیر اعلام النبلا، جلد 11، صحفہ نمبر 370 تا 372)
تو یہ پورا خطبہ بلاسند نقل ہوا ہے اور ابوحفص جو کہ معاویہ بن یزید کے زمانے سے 100 سال بعد پیدا ہوا اس نے یہ واقعہ کہاں سے نقل کیا ؟ اس کی بھی کوٸی تفصل موجود نہیں یعنی کہ یہ واقعہ معتبر نہیں نہ ہی اس کی کوٸی معتبر سند موجود ہے کہ اس پر اعتماد کیا جا سکے۔
اب اس جیسے غیر ثابت اور جھوٹے واقعات کو دلیل بنا کر صحابہ کے بارے میں کوٸی نتیجہ اخذ کرنا اور یہ کہہ دینا کہ تاریخی روایات کی اسناد نہیں ہوتیں، جہالت کے سوا کچھ نہیں۔
دُعا ہے کہ اللہ ان لوگوں کو حق سُننے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ۔
تحقیق ازقلم:مناظر اہلسنت والجماعت محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی