کیا نبی نے حضرت علی کو اپنا خلیفہ بنایا ؟

السلام علی من اتبع الھدیٰ

فیسبک پر ایک مجہول رافضی کی پوسٹ نظر سے گزری جس میں وہ تاریخ طبری کی ایک روایت نقل کر کے بھڑکیں مار رہا تھا کہ

”نبیﷺ نے حضرت علیؓ کو اپنا وصی اور خلیفہ مقرر کیا اب لگاٶ فتویٰ طبری پر تمہارے گھر کی کتاب ہے یا تاریخ طبری کو آگ لگا دو وغیرہ وغیرہ“

کیا نبیﷺ نے حضرت علیؓ کو اپنا خلیفہ بنایا ؟


اس تحریر میں ہم اسی روایت کی حقیقت بیان کریں گے۔

روایت طویل ہے جس میں الفاظ کچھ یوں ہے کہ!

”نبیﷺ نے بنی عبدالمطلب کو خطاب کرتے ہوۓ فرمایا کہ تم میں سے کون میرا اس (دین کے) معاملے میں بوجھ اٹھانے کو تیار ہے کہ میرا بھاٸی، میرا وصی اور میرا خلیفہ ہو ؟ تو حضرت علیؓ نے کہا یا رسول اللہ میں،تو نبیﷺ نے فرمایا یہ (علی) میرا بھاٸی،میرا وصی اور میرا خلیفہ ہے“۔

(تاریخ طبری،جلد 2 حصہ اول، صحفہ نمبر 71، اردو)



تو یہ تھی وہ روایت جس کو دلیل بنا کر مجہول فیسبکی رافضی بھڑکیں مار رہا تھا کہ حضرت علیؓ خلیفہ بلافصل ہیں نہ کہ حضرت ابوبکرؓ۔


اب ہم اس روایت کی اسنادی حیثیت بیان کریں گے

سب اہل علم جانتے ہیں کہ تاریخ طبری کے اردو ترجمے میں روایات کی اسناد بیان نہیں کی گٸیں،اور یہ بات اس بے چارے کاپی پیسٹر مجہول رافضی کو بھی پتہ نہ ہو گی۔


اس روایت کی سند کچھ یوں ہے!

”حدثنا ابن حمید قال حدثنا سلمة قال حدثنی محمد بن اسحاق عن عبد الغفار بن القاسم عن المنھال بن عمرو عن عبداللہ بن الحارث بن نوفل بن الحارث بن عبدالمطلب عن عبداللہ بن عباسؓ عن علی بن ابی طالبؓ قال...“۔

(تاریخ طبری، جلد 2، صحفہ نمبر 319، عربی، طبع مصر)



یہ تھی اس روایت کی سند اب ہم اس سند کا حال بیان کریں گے۔


اس سند کا ایک راوی ”عبد الغفار بن القاسم“ جو کہ رافضی، کذاب و متروک الحدیث ہے اس کی وجہ سے یہ روایت باطل و موضوع ہے۔


اس راوی کا حال ملاحظہ فرماٸیں۔

امام ذھبیؒ اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ!

”یہ رافضی ہے ثقہ نہیں ہے،علی بن مدینیؒ کہتے ہیں یہ احادیث ایجاد کرتا تھا ایک قول کے مطابق شیعہ کے اکابرین میں سے ہے،امام بخاریؒ کہتے ہیں یہ قوی نہیں ہے،امام ابوداٶدؒ کہتے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ ابومریم (یعنی عبدالغفار) کذاب ہے، امام نساٸیؒ و دیگر حضرات نے اسے متروک الحدیث کہا ہے“۔

(میزان الاعتدال، جلد 4، صحفہ نمبر 342)



امام ابن جوزیؒ نے بھی اس کو اپنی ”الضعفا“ میں شامل کیا اور لکھتے ہیں!

”سماک بن حرب اور ابوداٶدؒ کہتے ہیں کہ یہ کذاب ہے، امام احمدؒ کہتے ہیں کہ ثقہ نہیں ہے، امام علی بن مدینیؒ کہتے ہیں یہ احادیث وضع کرتا تھا اور یحییٰ بن معینؒ کہتے ہیں کہ یہ کوٸی چیز نہیں، اور امام ابو حاتم الرازیؒ کہتے ہیں کہ متروک الحدیث ہے اور شیعہ کے اکابرین میں سے ہے“۔

(کتاب الضعفا لابن جوزیؒ، جلد 2، صحفہ نمبر 112)



امام نساٸیؒ نے بھی اس کو اپنی ”الضعفا“ میں شامل کیا اور کہتے ہیں کہ یہ ”متروک الحدیث“ ہے۔

(کتاب الضعفا والمتروکین للنساٸی، صحفہ نمبر 167)



اس سب سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ راوی کذاب اور متروک ہے اور اس کی نقل کردہ روایات منکر و موضوع ہیں،اور اس کی روایات کو دلیل بنانا جاٸز نہیں۔


اور یہ روایت بھی انہی موضوعات میں سے ہے جیسا کہ علامہ مُلا علی قاری حنفیؒ بھی لکھتے ہیں کہ!

”یہ موضوع ہے جیسا کہ امام صغانی نے الدر الملتقط میں کہا ہے،(مُلا علی قاریؒ) کہتے ہیں کہ شیعوں کی مفتریات میں سے ہے اللہ شیعوں کو ہلاک کرۓ“۔

(الاخبار الموضوعة المعروف موضوعات الکبریٰ، حرف الواو، صحفہ نمبر 361)



ان تمام دلاٸل سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ روایت موضوع و منگھڑت ہے اور اس کو دلیل بنا کر حضرت علیؓ کو خلیفہ بلافصل کہنا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کی خلافت کا انکار کرنا جہالت و ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں۔


دُعا ہے کہ اللہ تمام مسلمانوں کو شیعوں کی کذب بیانیوں سے محفوظ رکھے۔(آمین)


تحقیق ازقلم: مناظر اہلسنت والجماعت محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی

Powered by Blogger.