حضرت عثمان غنیؓ کی تاریخ شہادت کیا ہے ؟

 حضرت عثمان غنیؓ کی تاریخ شہادت 12 ذی الحجہ یا 18 ذی الحجہ ؟

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
آج کی اس پوسٹ میں ہم حضرت عثمان غنیؓ کی تاریخ شہادت کے بارے میں بیان کریں گے کہ ان کی تاریخ شہادت 12 ذی الحجہ ہے یا 18 ذی الحجہ۔
حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت 35 ہجری 18 ذی الحجہ بروز جمعہ کو ہوٸی۔
صحیح ترین کتابی و عقلی دلاٸل سے ان کی تاریخ شہادت 18 ذی الحجہ ہی ثابت ہے۔
سب سے پہلے میں کچھ چیزیں بیان کر دیتا ہوں جن پر سب کا اتفاق ہے۔
1.حضرت عثمان غنیؓ 35 ہجری کو شہید ہوۓ۔
2.حضرت عثمان غنیؓ جمعہ کے دن شہید ہوۓ۔
3.آپؓ شہادت کے وقت روزے سے تھے۔
4.لوگوں نے حضرت علیؓ کی بیعت کرنا 19 ذی الحجہ بروز ہفتہ کو شروع کر دیا۔
5.حضرت علیؓ کی بیعت تمام لوگوں نے 25 ذی الحجہ بروز جمعہ تک مکمل کر لی تھی۔
ان تمام چیزوں کو زہن نشین کر لیں کیونکہ اس سے پوسٹ کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔
کچھ لوگ حضرت عثمان غنی کی تاریخ شہادت 12 ذی الحجہ بروز جمعہ بتاتے ہیں۔
ان کی دلیل ابو عثمان النہدی کا قول ہے کہ ایام تشریق (11،12،13 ذی الحجہ) کے درمیان میں (یعنی 12 کو) شہید ہوۓ۔
یہ قول مردود ہے۔
ابو عثمان نہدی کا صحیح و صریح قول 18 ذی الحجہ کا ہی ہے۔جو کہ ہم آگے بیان کریں گے۔
اب ہم مفصل دلاٸل سے حضرت عثمان غنی کی تاریخ شہادت 18 ذی الحجہ ثابت کریں گے۔
حضرت عثمانؓ کا شہادت کے وقت روزے سے ہونا :
حضرت عثمانؓ کا شہادت کے وقت روزے سے ہونا ہی ایام تشریق میں شہادت نا ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے۔
کیونکہ نبیﷺ نے سال میں پانچ دنوں کے بارے میں فرمایا یہ کھانے پینے کے دن ہیں۔عید الفطر کا دن،عید الاضحی کا دن،اور ایام تشریق کے تین دن(11،12،13)۔(صحیح مسلم حدیث نمبر 2677)
اور اعلیٰحضرت سے بھی پوچھا گیا کہ ان پانچ دنوں میں روزہ رکھنے سے منع کیوں کیا گیا ؟
تو انہوں نے فرمایا یہ دن اللہ کی طرف سے بندوں کی دعوت کے دن ہیں۔
(فتاویٰ رضویہ شریف جلد 10 صحفہ نمبر 355)


اب ہم آتے ہیں کہ عثمانؓ شہادت کے دن روزے سے تھے۔
طبری نے اپنی صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ جس دن عثمانؓ شہید ہوے اس دن انہوں نے خواب دیکھا کہ نبیﷺ ان کو فرما رہے ہیں کہ آج آپ افطار ہمارے ساتھ کریں گے۔(تاریخ طبری صحیح،باب ذکر الخیر عن قتل عثمان صحفہ نمبر 343)


اس کے علاوہ بھی کٸ دلاٸل ہیں کہ عثمانؓ شہادت کے وقت روزے سے تھے۔
اب ہم آتے ہیں کہ شہادتِ عثمانؓ کے بعد حضرت علیؓ کی بیعت کب شروع ہوٸی اور کب ختم ہوٸی۔
امام ابن کثیر اور طبری نے نقل کیا ہے کہ حضرت علی کی بیعت 19 ذی الحجہ بروز ہفتہ کو شروع ہوٸی۔(تاریخ ابن کثیر جلد 7 صحفہ نمبر 299)


اب یہاں پر یہ چیز زہن نشین کر لیں کہ حضرت علیؓ کی بیعت لوگوں نے 19 ذی الحجہ کو شروع کی اور وہ ہفتے کا دن تھا۔
اب ہم آتے ہیں کہ حضرت علیؓ کی بیعت کس دن مکمل ہوٸی۔
امام طبری کہتے ہیں کہ ”حضرت علی کی بیعت جمعہ کے دن کی گٸ اس وقت ماہ ذی الحجہ ختم ہونے میں پانچ روز باقی تھے“ (یعنی 25 تاریخ کو کی گٸ)۔(تاریخ طبری جلد 3 حصہ دوم صحفہ نمبر 28)


اور ابن کثیر نے بھی نقل کیا ہے کہ حضرت علی کی بیعت 25 ذی الحجہ بروز جمعہ مکمل ہوٸی۔(تاریخ ابن کثیر جلد 7 صحفہ نمبر 300)


اس سے ثابت ہوا کہ حضرت علی کی بیعت 25 ذی الحجہ بروز جمعہ مکمل ہوٸی۔
اب ہم آتے ہیں حضرت عثمانؓ کی شہادت کس تاریخ کو ہوٸی۔
امام ابن خلدون لکھتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت 18 ذی الحجہ بروز جمعہ ہوٸی۔(تاریخ ابن خلدون جلد 2 صحفہ نمبر 364)


اور امام ابن کثیر نے بھی یہی لکھا ہے کہ مشہور قول کے مطابق آپؓ 18 ذی الحجہ بروز جمعہ کو شہید ہوۓ اور آپ کی تدفین سے پہلے لوگوں نے حضرت علی کی بیعت شروع کر دی تھی۔(تاریخ ابن کثیر جلد 7 صحفہ نمبر 299)
یہاں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حضرت عثمان کی تدفین سے پہلے ہی حضرت علیؓ کی بیعت شروع ہو گٸ تھی۔اور صحیح ترین اقوال سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حضرت عثمانؓ کو تین دن تک دفن نہیں کیا گیا تھا۔اور حضرت علیؓ کی بیعت 19 تاریخ کو شروع ہوٸی۔تو واضح معلوم ہو رہا ہے کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت 18 تاریخ ہی ہے۔
امام طبری نے صحیح سند کے ساتھ قول نقل کیا ہے کہ ”ابو عثمان النہدیؒ“ اور دوسرے راوی کہتے ہیں کہ حضرت عثمان کو 18 ذی الحجہ بروز جمعہ شہید کیا گیا۔(تاریخ طبری عربی،باب 35ہجری کے واقعات صحفہ نمبر 787)
(تاریخ طبری اردو،جلد 3 حصہ اول صحفہ نمبر 476)



نوٹ:جیسا کہ آپ کو معلوم ہے طبری کے اردو ترجمے میں اسناد بیان نہیں کی گٸیں اس لۓ اردو ترجمے میں یہ لکھا گیا ہے کہ ”سیف کی مشہور سلسلہ روایت کے مطابق حضرت عثمانؓ کی تاریخ شہادت 18 ذی الحجہ ہے“۔تو جب آپ عربی نسخہ دیکھیں گے تب آپ کو معلوم ہو گا کہ یہاں ”ابو عثمان نہدی“ کا قول نقل کیا گیا ہے۔
تو جیسا کہ صحیح ترین اقوال سے ثابت ہوا کہ حضرت عثمانؓ کی تاریخ شہادت 18 ذی الحجہ ہے اور ابو عثمان نہدی کا بھی یہی قول ہے جو کہ حادثے کے معاصر ہیں۔
تو اب ہم زرا عقلی دلاٸل کی طرف آتے ہیں اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ کی تاریخ شہادت 18 ہی ہے۔
اب آپ کو وہ تمام چیزیں دوبارہ زہن میں لانی ہوں گٸیں جن کے بارے میں نے کہا تھا کہ ان کو یاد کر لیں۔
2.حضرت عثمان غنیؓ جمعہ کے دن شہید ہوۓ۔
4.لوگوں نے حضرت علیؓ کی بیعت کرنا 19 ذی الحجہ بروز ہفتہ کو شروع کر دیا۔
5.حضرت علیؓ کی بیعت تمام لوگوں نے 25 ذی الحجہ بروز جمعہ تک مکمل کر لی تھی۔
اب ہم تاریخ اور دن کے حساب سے یہ فیصلہ کریں گے کہ صحیح قول کون سا ہے ۔
نیچے میں نے ایک تاریخ کا گراف بھی بنا کر لگا دیا ہے۔
اب وقتی طور پر ہم یہ مان لیتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت 12 ذی الحجہ بروز جمعہ کو ہوٸی اور اس دن سے لے کر 25 ذی الحجہ تک چلتے ہیں کہ کیا روایات کے مطابق اس لحاظ سے 25 تاریخ کو جمعہ کا دن بنتا ہے یا نہیں ؟
12 جمعہ
13 ہفتہ
14 اتوار
15 سوموار
16 منگل
17 بدھ
18 جمعرات
19 جمعہ۔۔۔(یہاں ہی تاریخ غلط ہو گٸ ہے کیونکہ روایات کے مطابق 19 کو علیؓ کی بیعت شروع ہوٸی اور تب ہفتے کا دن تھا۔خیر ہم آگے چلتے ہیں)
20 ہفتہ
21 اتوار
22 سوموار
23 منگل
24 بدھ
25 جمعرات۔۔۔(یہاں پھر سے غلطی آگٸ ہے کیونکہ روایات کے مطابق حضرت علیؓ کی بیعت 25 ذی الحجہ بروز جمعہ کو مکمل ہو گٸ اور اس حساب سے یہاں جمعرات بنتا ہے جو کہ اس بات کی دلیل ہے کہ 12 ذی الحجہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کا دن نہیں۔


اب ہم راجح قول کے مطابق حضرت عثمانؓ کی تاریخ شہادت 18 ذی الحجہ بروز جمعہ مانتے ہیں اور یہی حساب دوبارہ کرتے ہیں
18 جمعہ
19 ہفتہ۔۔۔(یہ حساب یہاں ہی درست ثابت ہو گیا کیونکہ حضرت علی کی بیعت 19 ذی الحجہ بروز ہفتہ شروع ہوٸی،آگے چلتے ہیں)
20 اتوار
21 سوموار
22 منگل
23 بدھ
24 جمعرات۔۔۔۔(یہاں بھی درست ہو گیا کیونکہ 24 ذی الحجہ بروز جمعرات کو کوفیوں میں سب سے پہلے اشتر نخعی نے آپ کی بیعت کی)
25 جمعہ۔۔۔(بیعت مکمل ہونے کا دن جمعہ)


تو تمام روایات کے مطابق 18 ذی الحجہ ہی حضرت عثمانؓ کی شہادت کا دن ہے کیونکہ باقی تمام روایات و شواہد پر یہی تاریخ پوری اترتی ہے۔
اہلتشیع ویب ساٸیٹ ویکی شیعہ پر بھی حضرت عثمانؓ کی تاریخ شہادت 18 ذی الحجہ بروز جمعہ ہی لکھی ہوٸی ہے۔(ویکی شیعہ،عثمان بن عفان کا بیان،باب معاصرہ اور قتل)


ہم نے الحَمْدُ ِلله کتابی و عقلی دلاٸل سے یہ ثابت کیا کہ حضرت عثمان غنیؓ کی تاریخ شہادت 35 ہجری 18 ذی الحجہ بروز جمعہ ہے۔اور تمام عقلی دلاٸل سے بھی یہی تاریخ ثابت ہے۔اور اس کے علاوہ کے اقوال کوٸی حقیقت نہیں رکھتے۔
تحقیق ازقلم:مناظر اہلسنت والجماعت محمد ذوالقرنین الحنفی البریلوی
Powered by Blogger.