کنز الایمان کا ترجمہ درست یا غلط ؟

کیا اعلیٰحضرت امام احمد رضا خان بریلویؒ کا ترجمہ کنز الایمان غلط ہے ؟


اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎


میں نے فیسبک پر ایک پوسٹ دیکھی جس میں ایک نجدی نے یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے کہ امام احمد رضا خان بریلویؒ کا ترجمہِ قرآن کنز الایمان غلط ہے اور آگے مطالبہ کر رہا ہے کہ اس پر پاکستان میں بھی پابندی لگنی چاہیے۔


نجدی سورة الرحمنٰ آیت نمبر 3 اور 4 کے ترجمے پر اعتراض کر رہا ہے کہ امام احمد رضا خان بریلویؒ نے یہاں پر ترجمہ غلط کیا ہے۔


آیات یہ ہیں،


”خَلَقَ  الۡاِنۡسَانَ ۙ﴿۳﴾،عَلَّمَہُ الۡبَیَانَ ﴿۴﴾“


اور ان آیات کا ترجمہ اعلیٰحضرت نے یوں کیا ہے


”انسانیت کی جان محمد کو پیدا کیا،،ما کان وما یکون کا بیان انہیں سکھایا“۔


اس ترجمے پر نجدی یہ کہہ رہا ہے کہ قرآن کا غلط ترجمہ کیا گیا ہے اور اس ترجمے پر پابندی لگاٸی جاۓ۔



اب ہم ان شاء اللہﷻ دلاٸل سے ثابت کریں گے کہ امام صاحبؒ کا کیا گیا ترجمہ بلکل درست ہے۔



ایک بات یاد رکھیں کہ اس آیت کے بارے میں مفسرین میں اختلاف ہے کہ یہاں انسان سے مراد کیا ہے لیکن ہم راجح اور پوسٹ کے مطابق ہی دلاٸل بیان کریں گے۔


سب سے پہلے امام ابو اسحاق احمد بن محمد بن ابراہیم الثعلبی المتوفیٰ 427ھ کو دیکھتے ہیں کہ انہوں نے ان آیات کی تفسیر میں کیا لکھا ہے۔

امام احمد بن محمد نے اپنی تفسیر الکشف والبیان میں مختلف اقوال نقل کیے ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ 

”ابن کیسان کہتے ہیں کہ خلق الانسان سے مراد محمدﷺ ہیں اور علمہ البیان سے مراد ہے کہ ان کو ماکان ومایکون کا بیان سکھایا گیا“۔

(تفسیر الکشف والبیان عن تفسیر القرآن سورة الرحمنٰ کی تفسیر)



یہ امام 427ھ کے امام ہیں اور انہوں نے ان آیات کی تفسیر میں بھی یہی لکھا ہے جو اعلیٰحضرت نے ان آیات کے ترجمے میں لکھا ہے۔


اب آتے ہیں دوسری دلیل کی طرف جو کہ امام ابوعبداللہ محمد بن احمد المتوفیٰ 671ھ کی تفسیر سے ہے

انہوں نے بھی ان آیات کی تفسیر میں مختلف اقوال نقل کیے اور انہوں نے بھی ابن کیسان کا قول نقل کیا ہے

لکھتے ہیں 

”ابن عباس اور ابن کیسان کہتے ہیں کہ الانسان سے مراد محمدﷺ ہیں اور آپ کو ماکان ومایکون کا علم عطا کیا گیا“۔

(جامع الاحکام القرآن،سورة الرحمنٰ کی تفسیر)



تیسری دلیل مشہور تفسیر،تفسیرِ الخازن سے،امام علاء الدین المتوفیٰ 725ھ ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں 

”اور الانسان سے مراد یہاں محمدﷺ ہیں اور علمہ البیان سے مراد مایکون و ماکان کا بیان ہے“۔

(تفسیر الخازن سورة الرحمنٰ کی تفسیر)



چوتھی دلیل شیخ محمد علی کی تفسیر سے،انہوں نے بھی ان آیات کی تفسیر میں لکھا ہے کہ

”الانسان سے مراد محمدﷺ ہیں اور بیان(علمہ البیان) سے مراد ماکان ومایکون کا بیان ہے“۔

(تفسیر القرآن الکریم شیخ محمد علی سورة الرحمنٰ کی تفسیر)



(نوٹ:سکین بناتے ہوۓ اس سکین میں غلطی سے شیخ محمد علی کی جگہ ”علہ“ لکھا گیا۔)


پانچویں دلیل بہت ہی مشہور تفسیر،تفسیرِ صاوی حاشیة تفسیر جلالین سے،امام صاوی سورة الرحمنٰ آیت نمبر 3 اور 4 کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ

”اور ایک قول یہ ہے کہ الانسان سے مراد محمدﷺ کی ذات ہے اور البیان کا مطلب ہے کہ آپ کو ماکان ومایکون کا علم دیا گیا“۔

(تفسیر صاوی سورة الرحمنٰ کی تفسیر)



یہاں پر یہ ثابت ہو چکا کہ ان آیات ”خلق الانسان،علمہ البیان“ کے بارے میں بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ یہاں محمدﷺ مراد ہیں اور ان کو ماکان ومایکون کا علم عطا کیا گیا۔

یہاں کچھ نجدی یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ یہ تو تفسیر ہے جبکہ اعلیٰحضرتؒ نے ترجمے میں یہ لکھا ہے

تو بتاتا چلوں کہ جب تفاسیر میں یہ اقوال موجود ہیں تو ترجمے میں یہ لکھا جا سکتا ہے تاکہ آسان الفاظ میں سمجھایا جا سکے۔

اگر تو ابھی بھی کوٸی نجدی نا مانے تو پھر اپن دعوے پر دلیل دے کہ ترجمے میں تفسیر کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔

لیکن اگر دلیل نا دے سکے تو مان لے کہ امام احمد رضا خان بریلویؒ کا ترجمہ بلکل درست ہے۔ورنہ پھر ان تفاسیر پر بھی پابندی لگانے کا مطالبہ کرے جن کو ان کے اباٶ اجداد بھی مانتے ہیں۔

ہم نے الحَمْدُ ِلله مفصل دلاٸل سے یہ ثابت کیا ہے کہ اعلیٰحضرت امام احمد رضا خان بریلویؒ کا ترجمہ بلکل ردست ہے۔

دُعا ہے کہ اللہ نجدیوں کو حق قبول کرنے کی توفیق عطا فرماۓ۔(آمین)

تحقیق ازقلم:مناظرِ اہلسنت والجماعت محمد ذوالقرنین الحنفی البریلوی 

Powered by Blogger.