کیا حضرت علی صدیق اکبر اور فاروق ہیں ؟

السلام علی من اتبع الھدیٰ

اس تحریر میں ہم روافض کی طرف سے حضرت علیؓ کی افضلیت میں پیش کی جانے والی ایک روایت کا تحقیقی جاٸزہ لیں گے۔

روایت کچھ یوں ہے کہ!

”نبیﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا! تم پہلے ہو جو مجھ پر ایمان لاۓ اور قیامت کے دن تم ہی سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کرو گے تم ہی صدیق اکبر اور فاروق ہو اور حق و باطل میں فرق کرنے والے ہو اور تم مومنین کے سردار ہو اور مال کفار کا سردار ہے“۔

(مسند البزار، جلد 9، روایت نمبر 3898، صحفہ نمبر 342)

کیا حضرت علیؓ صدیق اکبر اور فاروق ہیں ؟

یہ روایت پیش کر کے روافض دعویٰ کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے حضرت علیؓ کو ہی صدیق اکبر اور فاروق کہا ہے۔

اس تحریر میں ہم اسی روایت کا تحقیقی جاٸزہ لیں گے۔

اس روایت کی سند کچھ یوں ہے!

”حدثنا عباد بن یعقوب، قال نا علی بن ھاشم، قال نا محمد بن عبیداللہ بن ابی رافع عن ابیہ عن جدہ ابی رافع عن ابی ذرؓ عن النبیﷺ“

یہ اس روایت کی سند ہے۔

اس روایت کی سند کے پہلے دو راوی جو کہ عباد بن یعقوب اور علی بن ھاشم ہیں غالی بدعتی رافضی اور متروک ہیں اور محمد بن عبیداللہ بن ابی رافع سخت ضعیف ہے ان کی وجہ سے یہ روایت باطل و موضوع ہے۔


عباد بن یعقوب کوفی کے حالات ملاحظہ فرماٸیں۔

امام ذھبیؒ اس کے ترجمہ میں نقل کرتے ہیں کہ!

”عباد بن یعقوب غالی شیعہ تھا اور بدعتیوں کا سردار تھا،امام ابوحاتمؒ کہتے ہیں کہ اپنے دین(شیعیت) میں اس پر تہمت عاٸد کی گٸ ہے(یعنی منکر روایات بیان کرتا ہے)،عبدان ایک ثقہ راوی کا بیان نقل کرتے ہیں کہ عباد صحابہ کرامؓ کو بُرا بھلا کہتا تھا ابن عدیؒ کہتے ہیں کہ اس نے اہلبیت کے فضاٸل میں ایسی روایات نقل کی ہیں جنہیں میں منکر قرار دیتا ہوں، صالح جزرہؒ کہتے ہیں کہ عباد، حضرت عثمانؓ کو بُرا کہتا تھا اور میں نے اسے یہ کہتے ہوۓ سُنا ہے کہ اللہ کی شان کے لاٸق نہیں کہ وہ طلحہؓ و زبیرؓ کو جنت میں داخل کرۓ،ابن حبانؒ کہتے ہیں یہ شیعہ فرقہ کا داعی تھا، اس کے علاوہ اس نے مشہور رایوں کے حوالے سے منکر روایات نقل کی ہیں اس کی وجہ سے یہ متروک ہونے کا مستحق قرار پایا“۔

(میزان الاعتدال، جلد 4، صحفہ نمبر 62،63)


امام ذھبیؒ اپنی ”دیوان الضعفا“ میں اس کو شامل کر کے فرماتے ہیں!

”عباد بن یعقوب کے بارے میں ابن حبانؒ کہتے ہیں کہ یہ رافضی تھا اور رافضیت کا داعی تھا“۔

(دیوان الضعفا والمتروکین، صحفہ نمبر 208)


امام ابن جوزیؒ نے بھی عباد بن یعقوب کو اپنی”کتاب الضعفا“ میں شامل کیا اور فرماتے ہیں!

”عباد بن یعقوب کے بارے میں ابن حبانؒ کہتے ہیں کہ یہ رافضی تھا اور رافضیت کا داعی تھا اور اس نے مشہور راویوں سے منکر روایات نقل کی ہیں، اور ابن عدیؒ کہتے ہیں کہ اس نے اہلبیت کے فضاٸل میں منکر روایات نقل کی ہیں جو اس کے علاوہ کسی نے بیان نہیں کی“۔

(کتاب الضعفا والمترکین للجوزی، جلد 2، صحفہ نمبر 77)



ان تمام جروحات سے ثابت ہوتا ہے کہ عباد بن یعقوب غالی رافضی ہے اور اس پر متروک تک کی جروحات ہیں اور اہلسنت کے اصول کے مطابق بدعتی شیعہ راوی کی وہ روایت جو اس کے مذہب کو تقویت دے ہرگز قابل قبول نہیں اور اس راوی پر تو منکر روایات بیان کرنے کی بھی جرح ہے تو پھر اس کی روایت کس طرح قابل قبول ہو سکتی ہے ؟


دوسرے راوی علی بن ھاشم کے حالات ملاحظہ فرماٸیں۔

امام ذھبیؒ اس کے ترجمہ میں فرماتے ہیں!

”امام ابوداٶدؒ کہتے ہیں اس میں تشیع پایا جاتا ہے امام بخاریؒ فرماتے ہیں یہ (علی بن ھاشم) اور اس کا باپ دونوں اپنے مسلک(تشیع) میں غالی ہیں، ابن حبانؒ کہتے ہیں یہ تشیع میں غالی تھا اس نے مشہور راویوں کے حوالے سے منکر روایات نقل کی ہیں،امام ذھبیؒ کہتے ہیں کہ امام بخاریؒ نے اس کے غلو کی وجہ سے اس سے حدیث نقل نہیں کی،انہیں ان کے مسلک میں تقیہ کا بہت اندیشہ ہوتا تھا،ابن نمیرؒ کہتے ہیں ہاشم تشیع میں افراط کا شکار تھا اور منکر الحدیث تھا“۔

(میزان الاعتدال، جلد 5، صحفہ نمبر 206)


امام ذھبیؒ نے اس کو بھی اپنی ”دیوان الضعفا“ میں شامل کیا اور فرمایا!

”علی بن ھاشم سے منکر روایات منقول ہیں، ابن نمیرؒ اور ابن حبانؒ کہتے ہیں یہ غالی شیعہ تھا“۔

(دیوان الضعفا والمترکین، صحفہ نمبر 286)


امام ابن جوزیؒ نے بھی علی بن ھاشم کو اپنی ”کتاب الضعفا“ میں شامل کیا اور فرمایا!

”امام بخاریؒ، علی بن ھاشم کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ (علی بن ھاشم) اور اس کا باپ اپنے مذہب(تشیع) میں غالی تھے، اور ابن حبانؒ کہتے ہیں کہ یہ تشیع میں غالی تھا اور اس نے مشہور راویوں سے منکر روایات بیان کی ہیں“۔

(کتاب الضعفا والمترکین للجوزی، جلد 2، صحفہ نمبر 200)


تو یہ تھے علی بن ھاشم کے حالات، ان سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بھی بدعتی شیعہ تھا اور منکر روایات بیان کرتا تھا۔


تیسرے راوی محمد بن عبید اللہ بن ابو رافع کے حالات ملاحظہ فرماٸیں۔

امام ذھبیؒ، محمد بن عبید اللہ کے ترجمہ میں فرماتے ہیں!

”محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے، امام بخاریؒ کہتے ہیں محمد بن عبیداللہ منکر الحدیث ہے، یحییٰ بن معینؒ کہتے ہیں اس کی نقل کردہ حدیث کوٸی چیز نہیں، ابو حاتمؒ کہتے ہیں یہ انتہاٸی منکر الحدیث ہے، اور اس کی حدیث رخصت ہو گٸ تھی“۔

(میزان الاعتدال، جلد 6، صحفہ نمبر 257)



امام ابن جوزیؒ نے اس کو بھی اپنی ”کتاب الضعفا“ میں شامل کیا اور فرماتے ہیں!

”یحییٰ بن معینؒ کہتے ہیں یہ کوٸی چیز نہیں، امام بخاریؒ نے اس کو منکر الحدیث کہا ہے، اور امام ابو حاتم الرازیؒ نے اس کو ذاہب الحدیث کہا ہے اور امام دارقطنیؒ نے اس کو ضعیف کہا ہے“۔

(کتاب الضعفا والمتروکین للجوزی، جلد 3، صحفہ نمبر 83)


ان تمام جروحات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ محمد بن عبید اللہ بن ابی رافع بھی سخت ضعیف اور منکر الحدیث راوی ہے اور اس کی روایت سے بھی استدلال جاٸز نہیں۔


ان دلاٸل سے ثابت ہوتا ہے کہ پہلے دو راوی غالی بدعتی رافضی اور متروک ہیں اور تیسرا راوی منکر الحدیث ہے اور یہ روایت موضوع ہے۔


امام جلال الدین سیوطیؒ نے بھی اس روایت کو موضوع کہا۔

فرماتے ہیں!

”(یہ روایت) موضوع ہے، محمد بن عبیداللہ کوٸی چیز نہیں اور عباد متروک ہے، اور ابن حجرؒ کہتے ہیں اس کی اسناد سخت ضعیف ہیں اور محمد بن عبید اللہ متہم ہے اور عباد کبار روافض میں سے ہے“۔

(الاحادیث الموضوعة للسیوطیؒ، جلد 1، صحفہ نمبر 324)



امام ابن جوزیؒ نے بھی اس روایت کو اپنی ”کتاب الموضوعات“ میں نقل کیا

جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی یہ روایت موضوع ہے اور فرماتے ہیں!

”(اس روایت میں) عباد بن یعقوب ہے ابن حبانؒ اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس نے مشہور راویوں سے منکر روایات نقل کی ہیں، اور اس میں علی بن ھاشم ہے اس کے بارے میں ابن حبانؒ کہتے ہیں کہ غالی شیعہ ہے اور مشہور راویوں سے منکر روایات نقل کرتا ہے، اور اس میں محمد بن عبید اللہ ہے اس کے بارے میں یحییٰ بن معینؒ کہتے ہیں کہ یہ کوٸی چیز نہیں“۔

(کتاب الموضوعات للجوزیؒ، جلد 1، صحفہ نمبر 257)



ان تمام دلاٸل سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ یہ روایت باطل و موضوع ہے اور اس سے کسی قسم کا استدلال جاٸز نہیں کیونکہ اس کی سند کے دو راوی غالی رافضی و متروک ہیں اور مناکیر بیان کرتے ہیں اور ایک راوی منکر الحدیث ہے۔

رافضیوں کو بھی چاہیے کہ اس طرح کی موضوع روایات بیان کرنے کی بجاٸے حق جاننے کی کوشش کریں اور اپنی عوام کو دھوکہ میں نہ رکھیں۔

دُعا ہے کہ اللہ سب مسلمانوں کو رافضیوں کے شر سے محفوظ رکھے۔(آمین)

تحقیق ازقلم:مناظر اسلام محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی

Powered by Blogger.