حضرت علی کی شہادت پر حضرت عائشہ کا سجدہ شکر کرنا

السلام علی من اتبع الھدیٰ

کچھ دن قبل روافض کی طرف سے ایک روایت موصول ہوٸی جس کی بنیاد پر روافض نے اعتراض کیا کہ حضرت عاٸشہؓ، حضرت علیؓ کے خلاف تھیں اور حضرت علیؓ کی شہادت کی خبر سن کر حضرت عاٸشہؓ نے سجدہ شکر ادا کیا۔

آج کی اس تحریر میں ہم اسی روایت کا تحقیقی جاٸزہ لیں گے۔


یہ روایت صرف ابوالفرج الاصفہانی کی کتاب میں ایک ہی سند کے ساتھ منقول ہے۔


روایت کچھ یوں ہے کہ!

”ابوالفرج اصفہانی اپنی سند سے عاصم بن عامر کے حوالے سے ابوالبختری کا قول نقل کرتا ہے کہ جب حضرت عاٸشہؓ کو حضرت علیؓ کے قتل(شہادت) کی خبر دی گٸ تو انہوں نے سجدہ کیا“۔

(مقاتل الطالبین، صحفہ نمبر 55)

حضرت علی کی شہادت پر حضرت عائشہ کا سجدہ شکر کرنا


یہ روایت بے اصل و باطل ہے۔

ذیل میں اس کی تفصیل ملاحظہ فرماٸیں۔

اس کتاب کا مصنف ابوالفرج اصفہانی خود شیعہ ہے

اس کے بارے میں امام ذھبیؒ فرماتے ہیں

”یہ شیعہ ہے اور کتاب ”الاغانی“ کا مصنف ہے، اس نے عجیب و غریب روایات نقل کی ہیں، اور ایسی روایات نقل کی ہیں جن کی صفت بیان نہیں کی جا سکتی،امام خطیب بغدادیؒ اپنی سند کے ساتھ شیخ ابومحمد حسن بن حسینؒ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ ”ابوالفرج سب سے بڑا جھوٹا تھا، اس نے بہت سے صحیفے خریدے ہوۓ تھے اور ان صحیفوں کے حوالے سے اس کی روایات نقل ہوتی تھیں“۔

(میزان الاعتدال، جلد 5، صحفہ نمبر 168)



اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ابوالفرج خود شیعہ ہے اور اس کی کتب میں ایسی عجیب و غریب روایات ہیں جن کی کوٸی اصل نہیں،اور اس پر کذب تک کی جرح موجود ہے۔


دوسری علت عاصم بن عامر الکوفی

اس روایت کی سند میں عاصم بن عامر الکوفی ہے جس کا ترجمہ کسی کتاب میں نہیں مِل سکا البتہ اس کے بارے میں امام دارقطنی سے منقول ہے کہ

”عبدالرحمن السلمی کہتے ہیں کہ میں نے امام دارقطنیؒ سے عاصم بن عامر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا یہ تین بھاٸی ہیں، عاصم بن عامر، سھل بن عامر اور اسماعیل بن عامر اور یہ کوفی ہیں اور شیعہ کے شیوخ میں سے ہیں“۔

(سوالات ابی عبدالرحمن السلمی للدارقطنی، صحفہ نمبر 109)



اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سند میں بھی شیعہ راوی موجود ہے اور غالبا یہ رافضی ہی ہے کیونکہ شیعہ کے شیوخ میں سے ہے، اور اصولِ حدیث کے مطابق رافضی کی وہ روایت جو اسکے مذہب کو تقویت دے قابل قبول نہیں اور یہ شیعہ تو ہے بھی مجہول اس سے کس طرح استدلال کیا جا سکتا ؟


تیسری علت انقطاع

اس روایت کا مرکزی راوی سعید بن فیروز ابو البختری ارسال کرتا تھا۔

اس کے حالات ملاحظہ فرماٸیں۔

امام ابن حجرؒ فرماتے ہیں!

”ابو البختری کثیر الارسال راوی ہے“۔

(تقریب التہذہب، جلد 1، صحفہ نمبر 325)



اور ھدی الساری میں اس کے بارے میں تصریح نقل فرماتے ہیں کہ۔

”امام ابو حاتم الرازیؒ کہتے ہیں کہ ابوالبختری، حضرت ابوذرؒ، حضرت عمرؓ، ”حضرت عاٸشہؓ“ اور حضرت زید بن ثابتؓ سے مرسل روایات نقل کرتا ہے، اور ابن سعدؒ فرماتے ہیں کہ بہت زیادہ ارسال کرتا ہے اور سماع کے علاوہ اس کی روایات ضعیف ہیں“۔

(ھدی الساری مقدمہ فتح الباری، صحفہ نمبر 426)



اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ابوالبختری کثیر الارسال راوی ہے اور حضرت عاٸشہؓ سے مرسل روایات نقل کرتا ہے اور مرسل روایت ضعیف ہوتی ہے۔

ان تمام دلاٸل سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ روایت شیعوں نے رات کے اندھیرے میں گھڑی ہے اور اس کی سند بھی متصل نہیں، تو اس طرح کی باطل روایت کو بنیاد بنا کر صحابہ کرامؓ پر طعن کرنا کس طرح جاٸز ہوا ؟

شیعوں کو بھی چاہیے کہ ایسی باطل روایات سنا کر اپنی عوام کو مزید گمراہ کرنے کی بجاۓ حق کو قبول کریں اور اپنی عوام کو بھی حق سناٸیں۔

تحقیق ازقلم: مناظر اہلسنت والجماعت محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی

Powered by Blogger.