معتزلہ کافر یا مسلمان

السلام علی من اتبع الھدیٰ

آج کل ہمارے اہلسنت کے ہی کچھ لوگ جو خود کو محقق بھی سمجھتے ہیں معتزلیوں کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں اور معتزلیوں کو کافر تو دور کی بات بعض لوگ تو ان کو گمراہ بھی ماننے سے انکار کرتے ہیں۔


آج کی اس تحریر میں ہم معتزلیوں کے بارے میں ہمارے علما کا موقف بیان کریں گے اور اس کے ساتھ ایک شبہ کا ازالہ بھی کریں گے۔



معتزلہ سب کے سب ہمارے علما کے نزدیک کافر و مرتدین ہیں اور ان کو مسلمان جاننا خود اپنے ایمان کو نقصان پہنچانے کے برابر ہے۔


چنانچہ اعلیٰحضرت امام احمد رضا خان بریلویؓ ایک مقام پر فرقہ باطلہ کے ایک جھوٹ کہ ہم (اہلسنت کے) نزدیک تمام اہل قبلہ مسلمان ہیں کا پردہ فاش کرتے ہوۓ طویل بحث فرماتے ہوۓ ایک جگہ پر فرماتے ہیں!

”ہمارے اٸمہ ثلاثہؓ کا اجماع و اتفاق ہے کہ قرآن عظیم کو مخلوق کہنے والا کافر ہے، کیا ”معتزلہ“ و کرامیہ و روافض کہ قرآن کو مخلوق کہتے ہیں اس قبلہ کی طرف نماز نہیں پڑھتے ؟“۔

(فتاویٰ رضویہ، جلد 30، صحفہ نمبر 334)

کیا اہلسنت کے نزدیک معتزلہ مسلمان ہیں


یہاں اعلیٰحضرتؓ نے اٸمہ ثلاثہؓ کا موقف بیان فرمایا کہ جو قرآن کو مخلوق کہے وہ کافر ہے۔

پھر حجت قاٸم کرنے کے لۓ آگے فرماتے ہیں کیا معتزلہ جو کہ قرآن کو مخلوق کہتے ہیں اس قبلہ کی طرف نماز نہیں پڑھتے ؟


یہاں یہ ثابت ہو گیا کہ اعلیٰحضرتؓ کے نزدیک بھی تمام معتزلہ کافر ہیں کیونکہ انہوں نے یہ بات بیان کر کے کہ ”قرآن کو مخلوق کہنے والا کافر ہے“ فرماتے ہیں کہ ”معتزلہ قرآن کو مخلوق کہتے ہیں تو کیا وہ قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز نہیں پڑھتے ؟“ اس کا مقصد معتزلہ کا کفر بیان کرنا تھا۔

اس لۓ معتزلہ کو مسلمان سمجھنا اہلسنت کا مسلک نہیں۔


اعلیٰحضرتؓ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں!

”قادیانی، نیچری، چکڑالوی، روافض، خوارج، نواصب، معتزلہ وغیرہم بالجملہ جملہ (سب کے سب مکمل طور پر) مرتدین یا ضالین معاندینِ(دشمنان) دین کہ سب مرشد عام کے مخالف و منکر ہیں“۔

(فتاویٰ رضویہ، جلد 21، صحفہ نمبر 513)



یہاں پر اعلیٰحضرتؓ نے سب کے سب معتزلہ کو مکمل طور پر مرتدین و دشمنانِ دین فرمایا ہے جس سے یہ بات اور بھی واضح ہو گٸ کہ ہمارے نزدیک تمام معتزلہ کافر و مرتدین ہیں۔


اب جب کہ یہ ثابت ہو گیا کہ تمام معتزلہ کافر و مرتدین ہیں ہم ایک شبہ کا ازالہ کرتے چلیں۔


بعض لوگ جو کہ خود کو محقق بھی سمجھتے ہیں اور معتزلہ کو مسلمان سمجھتے ہیں وہ یہاں یہ کہتے ہیں کہ اعلیٰحضرتؓ نے اور محدثین نے معتزلہ کے بہت بڑے امام، جار اللہ زمحشری کی تفسیر ”تفسیر الکشاف“ سے کٸ باتیں نقل کی ہیں تو یہ سب ان کو مسلمان سمجھتے ہیں اور اس وجہ سے زمحشری بہت بڑا امام ہے اور اگر یہ سب اس کو کافر سمجھتے ہوتے تو کیا اس کی تفسیر سے استدلال کرتے ؟


اس کا جواب ہم دیتے چلیں کہ اعلیٰحضرتؓ اور جن جن محدثین نے اس کی تفسیر سے باتیں بطور دلیل نقل کی ہیں اس سے کہیں بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ گمراہ نہیں تھا اور اس کی تکفیر کرنا جاٸز نہیں۔


ان سب کا نقل کرنا محض اس وجہ سے تھا کہ وہ نقل کرنے میں ثقہ تھا، اور اہلسنت کے اصول کے مطابق کسی ایسے شخص سے کسی باب میں دلیل لینا یا الزامی جواب کے لۓ اس سے کچھ نقل کرنا جاٸز ہے جو نقل کرنے میں ثقہ ہو سواۓ ایسی بات کہ جو اس کے اپنے مذہب کو تقویت دے،اور یہ بات ہم سبھی جانتے ہیں کہ صحیحین میں بھی کٸ روایات بدعتی روافض و معتزلہ راویوں سے بھی ہیں جو کہ اپنی ذات کے اعتبار سے ثقہ تھے، لیکن اس سے بھی کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان بدعتی راویوں کی روایات نقل کرنے کی وجہ سے ان کو امام و محدث کہنا شروع کر دیا جاۓ۔


اور اس بات کی صراحت خود اعلیٰحضرتؓ نے کی ہے، وہ ایک مقام پر زاہدی معتزلی کا تذکرہ کرتے ہوۓ فرماتے ہیں!

”اس (زاہدی)  کا استاذ الاستاذ زمحشری بھی اس کا خوگر (ہم خیال دوست) ہے مگر فرق اتنا ہے کہ وہ آپ کچھ بکے مگر نقل میں ثقہ ہے، بخلاف زاہدی کے اس کے نقل پر بھی اعتماد نہیں“۔

(فتاویٰ رضویہ، جلد 9، صحفہ نمبر 255)



یہاں یہ بات بھی ثابت ہو جاتی ہے کہ اعلیٰحضرتؓ کے نزدیک بھی زمحشری کوٸی امام یا قابلِ عزت شخصیت نہیں بلکہ وہ بھی باقیوں جیسا ہی ہے اور بکواسات کرتا ہے مگر جو وہ نقل کرۓ اس میں ثقہ ہے۔


اور ہمارے نزدیک زمحشری کی مکمل تفسیر سے دلیل لینا بھی جاٸز نہیں کیونکہ اس نے تفسیر میں بہت سی فحش گوٸی بھی کی ہے۔


جیسا کہ اعلیٰحضرتؓ فرماتے ہیں!

”علماۓ کرام نے زمحشری معتزلی کا تفسیر میں بعض ابیات ہزل (فحش کلام) لانا اگر بروجہ استشہاد (بطور دلیل) سخت مذموم و معیوب و خلاف ادب جانا (پھر علامہ برہان الدین کا قول نقل کیا کہ) زمحشری اس وجہ سے ادبی طریقوں پر چلنے سے غلط ہو گیا کہ اس نے اپنی کتاب میں ایسے امور کا اہتمام کیا جن سے اس کی رونق دہشت زدہ ہو گٸ، اس لۓ اس نے کتاب میں کچھ ایسے اشعار پیش کٸے کہ جن کی بنیاد ہنسی مذاق اور خوش طبعی پر ہے، اور یہ بات شریعت اور عقل کے اعتبار سے امربعید ہے“۔

(فتاویٰ رضویہ، جلد 23، صحفہ نمبر 392،393)



اس سے ثابت ہوتا ہے کہ زمحشری کی تفسیر سے ہر بات بھی بطور دلیل نہیں لی جا سکتی اور اس کی تفسیر سے کوٸی بات بطور دلیل آٸمہ نے بھی الزامی جواب کے طور پر ہی لی ہے کہ کسی مسٸلہ کے بارے میں مخالف کے لٸے الزامی دلیل ہو کہ فلاں شخص بھی یہی کہتا ہے۔اور علما جانتے ہیں کہ ایسا کرنے سے کسی شخص کو حجت بنانا یا اس کی تعظیم کرنا مقصود نہیں ہوتا۔



ان تمام دلاٸل سے ثابت ہوتا ہے کہ اہلسنت کے نزدیک معتزلہ بھی کافر و مرتدین ہیں اور ہمارے علما نے اگر ان کی تفاسیر سے کوٸی بات نقل کی بھی ہے تو وہ بطور جوابِ الزامی نقل کی ہے نہ کہ اس سے ان کا مقصد ان کی برتری بیان کرنا یا ان کی تعظیم کرنا مقصود تھا۔


دُعا ہے کہ اللہ ہم سب کو حق سننے و سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ۔(آمین)


ازقلم: مناظر اہلسنت والجماعت محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی

Powered by Blogger.