حدیث سفینہ کا تحقیقی جاٸزہ

السلام علی من اتبع الھدیٰ

آج کل بعض روافض ایک حدیث جس کو ”حدیث سفینہ“ کہا جاتا ہے کو دلیل بنا کر حضرت علیؓ و حضرت فاطمہؓ و حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کو نبیﷺ کے بعد سب سے افضل و معصوم اور پتہ نہیں کیا کیا ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔


آج کی اس تحریر میں ہم اسی روایت کا تحقیقی جاٸزہ لیں گے کہ جس روایت کو دلیل بنا کر یہ ان ہستیوں کو نبیﷺ کے بعد سب سے افضل و معصوم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اِس روایت کی حقیقت کیا ہے۔


حدیث سفینہ کچھ یوں ہے

”نبیﷺ نے فرمایا ! میرے اہلبیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی مانند ہے، جو اس میں سوار ہو گیا وہ نجات پا گیا اور جو پیچھے رہ گیا وہ غرق ہو گیا“۔


اس روایت کو دلیل بنا کر روافض، حضرت علیؓ و حضرت فاطمہؓ و حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کو نبیﷺ کے بعد سب سے افضل و معصوم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اس روایت میں کوٸی ایسا پہلو نظر نہیں آتا جس سے ان کو نبیﷺ کے بعد سب سے افضل و معصوم مانا جاۓ۔


یہ روایت مختلف اسناد سے مختلف صحابہ سے مروی ہے، ہم چند روایات کا تحقیقی جاٸزہ لیں گے جن سے ثابت ہو جاۓ گا کہ اس متن کی باقی روایات کی کیا حیثت ہے۔


یہ روایت حضرت ابوذر غفاریؓ سے مختلف اسناد کے ساتھ وارد ہوٸی ہے جس کی پہلی سند کچھ یوں ہے کہ۔

”مفضل بن صالح اپنی سند سے حضرت ابوذر غفاریؓ سے نقل کرتا ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا !میرے اہلبیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی مانند ہے،جو اس میں سوار ہو گیا وہ نجات پا گیا اور جو پیچھے رہ گیا وہ غرق ہو گیا“۔

(مستدرک الحاکم، جلد 3، حدیث نمبر 3312)

حدیث سفینہ کا تحقیقی جاٸزہ


یہ روایت ایک راوی مفضل بن صالح کی وجہ سے منکر ہے۔

مفضل بن صالح کا ترجمہ ملاحظہ فرماٸیں۔

امام ذھبیؒ نقل کرتے ہیں۔

”امام بخاریؓ و دیگر حضرات نے مفضل بنصالح کو منکر الحدیث کہا ہے،(پھر امام ذھبیؒ نے اس کی حضرت ابوذر غفاریؓ سے یہی روایت نقل کی اور فرمایا) میں(ذھبی) کہتا ہوں حضرت نوح کی کشتی سے متعلق حدیث تو سب سے زیادہ منکر ہے“۔

(میزان الاعتدال، جلد 6، صحفہ نمبر 471،472)



امام ابن جوزیؒ نے مفضل بن صالح کو اپنی الضعفا میں شامل کیا اور اس کے بارے میں فرماتے ہیں۔

”امام بخاریؓ و امام رازیؒ نے مفضل کو منکر الحدیث قرار دیا ہے، اور امام ابن حبانؒ فرماتے ہیں اس نے ثقہ راویوں سے مقلوبات(جھوٹی/منگھڑت) روایات نقل کی ہیں اس لۓ اس کی روایت سے احتجاج کو ترک کرنا لازم ہے(یعن اس کی روایت کو بطور دلیل نہیں لیا جا سکتا)“۔

(کتاب الضعفا والمتروکین للجوزی، جلد 2، صحفہ نمبر 135)



امام ابن حبانؒ نے اس کو اپنی المجروحین میں شامل کیا اور اس کے بارے میں فرماتے ہیں۔

”مفضل سخت منکر الحدیث راوی ہے اور اس نے ثقہ رایوں سے مقلوبات(جھوٹی/منگھڑت) روایات نقل کی ہیں یہاں تک کہ دل میں یہ بات آگٸ کہ یہ سب کچھ جان بوجھ کر کثرت سے کرتا ہے،تو اس کی روایت سے احتجاج ترک کرنا لازم ہے“۔

(المجروحین لابن حبان، جلد 2، صحفہ نمبر  356)



اور اس راوی کے بارے میں شیعہ رجال میں جو لکھا گیا ہے وہ بھی ملاحظہ فرماٸیں۔

شیعہ زاکر سیدالخوٸی مفضل بن صالح کے بارے میں لکھتا ہے کہ۔

”ابن الغضاٸری کہتا ہے کہ مفضل ضعیف ہے، کذاب ہے، حدیث وضع کرتا تھا“۔

(معجم رجال الحدیث، جلد 19، صحفہ نمبر 311)



ان سب دلاٸل سے ثابت ہوتا ہے کہ مفضل بن صالح سخت منکر الحدیث راوی ہے اور جعلی روایات نقل کرتا تھا اور اس کی روایت کو بطور دلیل لینا جاٸز نہیں اور شیعہ رجال کے مطابق بھی یہ کذاب و وضع الحدیث راوی ہے،اس لۓ اہلسنت و اہلتشیع دونوں کے نزدیک اس کی روایت کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔


حضرت ابوذر عفاریؓ سے یہ روایت ایک اور سند سے نقل کی گٸ ہے وہ سند یوں ہے۔

“عبداللہ بن قدوس اپنی سند سے حضرت ابوذر غفاریؓ سے نقل کرتا ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا! میرے اہلبیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی مانند ہے۔“۔

(معجم الکبیر الاوسط، جلد 4، حدیث نمبر 3478)



اس روایت کا راوی عبداللہ بن قدوس ضعیف اور خبیث رافضی ہے۔


اس کے بارے میں امام ذھبیؒ فرماتے ہیں۔

”عبداللہ بن عبدالقدوس رافضی ہے،ابن عدیؒ کہتے ہیں زیادہ تر اس کی نقل کردہ روایات اہلبیت کے فضاٸل کے بارے میں ہیں،یحییٰ بن معینؒ کہتے ہیں یہ کوٸی چیز نہیں یہ رافضی خبیث ہے،امام نساٸیؒ امام دارقطنیؒ اور دیگر حضرات کہتے ہیں یہ ضعیف ہے“۔

(میزان الاعتدال، جلد 4، صحفہ نمبر 147)



امام ابن جوزیؒ نے اس کو اپنی الضعفا میں شامل کیا اور اس کے بارے میں فرماتے ہیں۔

”یحییٰ بن معینؒ کہتے ہیں عبداللہ بن عبدالقدوس کوٸی چیز نہیں یہ خبیث رافضی ہے،اور امام نساٸیؒ و دارقطنیؒ نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے“۔

(کتاب الضعفا والمتروکین للجوزی، جلد 2، صحفہ نمبر 130)



ان دلاٸل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کی دوسری سند بھی باطل ہے کیونکہ اس کی سند کا راوی عبداللہ بن عبدالقدوس خبیث رافضی ہے،اور اہلسنت کے نزدیک رافضی راوی کی وہ روایت جو اس کے مذہب کو تقویت دے وہ ہرگز قابل قبول نہیں۔


یہ روایت حضرت ابوسعید خدریؓ سے بھی مروی ہے اور اس کی سند کچھ یوں ہے کہ۔

”عطیہ عوفی حضرت ابوسعید خدریؓ سے نقل کرتا ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا! میرے اہلبیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی مانند ہے“۔

(معجم الصغیر للطبرانی، جلد 2، صحفہ نمبر 22)



اس روایت کا مرکزی راوی عطیہ بن سعد عوفی سخت ضعیف اور کذاب شیعہ راوی ہے اور وہ یہ روایت حضرت ابوسعید خدریؓ سے نقل نہیں کر رہا بلکہ اپنے استاد کلبی سے نقل کر رہا ہے جو کہ خود کذاب ہے اور یہ بات ہم آگے بیان کریں گے۔


امام ذھبیؒ، عطیہ کے بارے میں فرماتے ہیں۔

”یہ ضعیف ہے، اس میں تشیع پایا جاتا ہے، امام احمد فرماتے ہیں یہ ضعیف ہے اور فرماتے ہیں یہ کلبی کے پاس تفسیر سیکھنے آیا کرتا تھا اور کلبی کی کنیت ابوسعید ہے تو یہ کہتا تھا کہ ابوسعید نے یہ بات بیان کی ہے،(امام ذھبیؒ کہتے ہیں) عطیہ اس سے یہ وہم پیدا کرنا چاہتا تھا کہ اس سے مراد حضرت ابوسعید خدریؓ ہیں،امام نساٸیؒ اور ایک جماعت کہتی ہے یہ راوی ضعیف ہے“۔

(میزان الاعتدال، جلد 5، صحفہ نمبر 122)



امام ذھبیؒ دوسری جگہ عطیہ کے بارے میں فرماتے ہیں۔

”عطیہ کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے“۔

(دیوان الضعفا والمتروکین، صحفہ نمبر 276)



امام ابن جوزیؒ، عطیہ کے بارے میں فرماتے ہیں۔

”اس کو ثوری و ھشیم و یحیی و احمد و رازی و نساٸی نے ضعیف کہا ہے“۔

(کتاب الضعفا للجوزی، جلد 2، صحفہ نمبر 180)



اس سب سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ روایت بھی جھوٹی ہے اور عطیہ عوفی جو کہ بدعتی شیعہ ہے اس نے یہ روایت کذاب کلبی سے سنی اور اسے حضرت ابوسعید خدریؒ کی طرف منسوب کیا اور اس کے ساتھ یہ راوی چوتھے طبقہ کا مدلس بھی ہے اور یہ ”عن“ سے ہی روایت کر رہا ہے اور یہ تدلیسِ قبیح کرتا ہے اور اس وجہ سے بھی یہ روایت سخت ضعیف ہے۔


اس کے بعد یہ حدیث حضرت ابن عباسؓ کی سند سے بھی منقول ہے جس کی سند کچھ یوں ہے کہ۔

”حسن بن ابی جعفر اپنی سند سے حضرت ابن عباسؓ سے نقل کرتا ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا! میرے اہلبیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی مانند ہے“۔

(معجم الکبیر، جلد 12، حدیث نمبر 12388)



یہ روایت بھی اس سند کے راوی ”حسن بن ابو جعفر“ کی وجہ سے باطل ہے۔

اس راوی کے حالات ملاحفظہ فرماٸیں۔


امام ذھبیؒ، حسن بن ابو جعفر کے بارے میں نقل کرتے ہیں۔

شیخ فلاس کہتے ہیں کہ یہ منکر الحدیث ہے، ابن مدینیؒ کہتے ہیں یہ ضعیف ہے، امام احمدؒ اور امام نساٸیؒ نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے، امام بخاریؒ فرماتے ہیں یہ منکر الحدیث ہے،امام یحیی بن معینؒ فرماتے ہیں یہ کوٸی چیز نہیں، (امام ذھبیؒ نے اس کے ترجمہ میں بھی اس کی منکر روایات میں یہی روایت نقل کی کہ نبیﷺ نے فرمایا! میرے اہلبیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی مانند ہے) (اور امام ذھبیؒ نے اس کی نقل کردہ جھوٹی روایات بھی بیان کی) امام ابن حبانؒ فرماتے ہیں علم حدیث میں غفلت کا شکار تھا اس لۓ اس کی نقل کردہ روایات سے استدلال نہیں کیا جا سکتا“۔

(میزان الاعتدال، جلد 2، صحفہ نمبر 275)



امام نساٸیؒ نے حس بن ابو جعفر کو اپنی الضعفا میں شامل کیا اور فرماتے ہیں۔

”یہ متروک الحدیث ہے“۔

(کتاب الضعفا والمتروکین للنساٸی، صحفہ نمبر 88)



امام ابن جوزیؓ نے بھی حسن بن ابو جعفر کو اپنی الضعفا میں اور فرماتے ہیں۔

”امام یحییٰؒ کہتے ہیں یہ کوٸی چیز نہیں، علی بن مدینیؒ اور احمدؒ نے اس کو ضعیف کہا اور ترک کیا، فلاس اور امام بخاریؒ نے اسے منکر الحدیث قرار دیا، سعدی کہتے ہیں یہ واھی الحدیث(جھوٹی/بے اصل روایات نقل کرنے والا) ہے، امام نساٸیؒ کہتے ہیں یہ متروک الحدیث ہے،اور امام دارقطنیؒ کہتے ہیں یہ حدیث میں کوٸی چیز نہیں“۔

(کتاب الضعفا للجوزی، جلد 1، صحفہ نمبر 199،200)



اس سب سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ روایت بھی باطل و بے اصل ہے اور اس سے بھی استدلال کرنا جاٸز نہیں۔


ان سب دلاٸل سے ثابت ہوتا ہے کہ اس روایت کی یہ تمام اسناد باطل و منکر ہیں اور ان سب کے راوی وضع الحدیث و جھوٹے ہیں، اس روایت کی اور بھی کچھ اسناد ہیں لیکن وہ سب بھی اسی طرح باطل و موضوع ہیں،اس لٸے اس روایت کو بیان کرنا اور فرمانِ رسولﷺ کہنا جاٸز نہیں۔


یہاں پر کچھ دوستوں کے ذہن میں یہ بات آ سکتی ہے کہ فضاٸل کے باب میں کثرت طُرق کا ایک اصول ہے کہ کثرت طُرق سے ضعیف روایت حسن ہو جاتی ہے اور فضاٸل میں قبول کی جاتی ہے تو کیا یہ روایت بھی فضاٸل میں قبول کی جا سکتی ہے یا نہیں ؟


تو اس کا جواب بھی ہم پیش کرتے چلیں گے فضاٸل کے باب میں محض وہ روایت کثرت طُرق سے تقویت پاتی ہے جس کی سند محض ضعیف ہو نہ کہ منکر و باطل و موضوع۔


اور یہ اصول اعلیٰحضرت امام احمد رضا خان بریلویؓ نقل فرماتے ہیں کہ۔

”موضوع حدیث کسی طرح کارآمد نہیں ہے، اور کثرت طُرق کے باوجود اس کا عیب ختم نہیں ہو سکتا کیونکہ شر کی زیادتی سے شر مزید بڑھتا ہے، نیر موضوع معدوم (فنا شدہ) چیز کی طرح ہے اور معدوم چیز نہ قوی ہو سکتی ہے اور نہ قوی بناٸی جا سکتی ہے“۔

(فتاویٰ رضویہ، جلد 5، صحفہ نمبر 538)



اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ باطل روایت کثرت طُرق سے بھی تقویت نہیں پا سکتی اس لۓ اس کو بیان کرنا اور فرمانِ رسولﷺ کہنا جاٸز نہیں۔


دُعا ہے کہ اللہ ہم سب کو حق سُننے و سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ۔(آمین)


تحقیق ازقلم: مناظر اہلسنت والجماعت محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی

Powered by Blogger.