کیا حدیثِ میراث انبیاء صرف حضرت ابوبکر صدیق نے بیان کی
السلام علی من اتبع الھدیٰ
حال ہی میں ایک چھپے رافضی جو کہ اپنے رفض کی وجہ سے کافی مشہور ہے اس نے اپنے ایک انٹرویو میں فدک اور خطاۓ اجتہادی کے موضوع پر باتوں باتوں میں حضرت ابوبکر صدیقؓ پر ایک ایسا الزام لگایا جو رافضی کھلے عام کرتے پِھرتے ہیں،اس چھپے رافضی نے جو کہ اہلسنت کے لبادے میں گھوم رہا ہے نے انٹرویو میں کچھ یوں کہا کہ!
”آپ کہتے ہو کہ حضرت بی بی پاک سے خطاۓ اجتہادی ہوٸی ہے،اور خطاۓ اجتہادی کسی کے ذمے لگانا یہ کوٸی عیب نہیں ہے،تو میں پوچھتا ہوں کہ یہی قول آپ حضرت ابوبکر صدیق کے لۓ کیوں نہیں کہتے بھٸ اہلسنت وجماعت کا موقف ہے کہ بی بی پاک نے قرآن پر عمل کیا ابوبکر صدیق نے حدیث پر عمل کیا تو حدیث کے سننے میں بھی تو غلطی لگ سکتی ہے ابوبکر صدیقؓ کو،””اکیلے ہیں نا وہ اس حدیث کے راوی،وہ اکیلے ہیں““ تو ان کو سمجھنے میں خطاۓ اجتہادی لگ سکتی ہے تو اگر یہ کہہ دیا جاۓ کہ یہ جو ابوبکر صدیق، بی بی پاک کو منع فرما رہے تھے نہ کر رہے تھے تو ان سے خطا ہوٸی“۔
یہاں یہ چھپا رافضی یہ کہہ رہا ہے کہ ”وہ اکیلے ہیں نا اس حدیث کے راوی وہ اکیلے ہیں“ یعنی یہ ثابت کرنا چاہ رہا ہے کہ یہ حدیث تو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے علاوہ کسی نے روایت ہی نہیں کی، اور اس بات سے رافضیوں کے موقف جو کہ وہ کھلے عام شور مچاتے پِھرتے ہیں کہ یہ حدیث تو گھڑی ہی حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ہے اس کو اور تقویت دے رہا ہے۔
اسکے بعد جب اس چھپے رافضی کو پتہ چلا کہ اس بات پر جو اس نے کی ہے کہ وہ اکیلے ہیں اس حدیث کو بیان کرنے میں علما گرفت کر رہے ہیں تو اس نے ساڈھے نو منٹ کی ایک اور وڑیو ریکارڈ کروا دی جس کا ٹاٸٹل یہ رکھا ”حضرت ابوبکر صدیقؓ کی گستاخی کا الزام! نہ خوفِ خدا نہ شرمِ نبی، خطاٸیو ڈوب مرو“ اس وڑیو میں اس بے چارے نے اپنے پھیلاۓ گۓ گند کو صاف کرنے کی ناکام کوشش کی اور اسی بات پر زور دیتا رہا میں نے تو ان لوگوں پر جو بی بی پاک کا خطاۓ اجتہادی کا موقف رکھتے ہیں ان کو ”ٹونٹ“(طنز) کرتے ہوۓ یہ بات کی تھی،اور اپنے ان الفاظ کہ ”وہ اکیلے ہیں اس حدیث کے راوی“ کا دفاع کرنے کی کوشش کی ”کہ کبھی کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ دوسرے لوگوں کو بھول جاتی ہے حدیث تو یاد کروا دیتے تھے دوسرے صحابہ“ ان الفاظ سے تو جان چھوٹ ہی نہیں سکتی اس کی،جان چھڑوانے کے لۓ بس یہ کہہ دیتا کہ یہ ”سبقت لسانی“ سے ہوا تو پھر تو کچھ ہو سکتا تھا لیکن اب بات نہیں بن سکتی کیونکہ یہ چھپا رافضی اپنی سابقہ گستاخیوں کا پردہ فاش ہونے کے بعد سبقت لسانی کا ڈھونگ رچا چکا ہے۔
اب ہم بیان کریں گے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے علاوہ یہ حدیث کس کس نے بیان کی اور صحابہ کو یہ حدیث یاد تھی یا نہیں۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے علاوہ اس حدیث کو حضرت ابوہریرہؓ نے کثیر مقامات پر مختلف اسناد سے بیان کیا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ”میرے ورثا درہم و دینار تقسیم نہ کریں،میں نے اپنی بیویوں کے اخراجات اور اپنے عاملین کے مشاہرات(جاٸیداد کی دیکھ بھال کرنے والوں کی تنخواہ) کے علاوہ جو چھوڑا ہے وہ سب صدقہ ہے“۔
(صحیح بخاری، حدیث نمبر 2776)
ایک مقام پر حضرت ابوہریرہؓ ان الفاظ میں روایت نقل کرتے ہیں کہ!
”نبیﷺ نے فرمایا ہم جو انبیاء کی جماعت ہیں،ہمارا کوئی وارث نہیں بنتا،میں اپنے عاملوں اور بیویوں کے اخراجات کے بعد جو کچھ چھوڑوں،وہ صدقہ ہو گا“۔
(مسند احمد، حدیث نمبر 9973)
اور بھی کٸ اسناد سے حضرت ابوہریرہؓ سے یہ روایت ثابت ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ کے ساتھ ساتھ حضرت عاٸشہؓ سے بھی یہ روایت ثابت ہے۔
روایت یوں ہے کہ!
حضرت عاٸشہؓ فرماتی ہیں کہ جب نبیﷺ کی وفات ہوٸی تو باقی ازواج محترمات نے نے ارادہ کیا کہ حضرت عثمانؓ کو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس بھیجیں تاکہ وہ ان کو نبیﷺ کی وراثت سے آٹھواں حصہ عنایت فرما دیں تو حضرت عاٸشہؓ نے ان سے فرمایا! ”کیا رسول اللہﷺ یہ نہیں فرما گۓ کہ ہمارا کوٸی وارث نہیں ہوتا ہم جو کچھ چھوڑ جاٸیں وہ صدقہ ہوتا ہے“۔
(سنن ابوداٶد، حدیث نمبر 2976،2977)
اس حدیث پر ان حضرات کے علاوہ حضرت عمرؓ،حضرت عثمانؓ،حضرت علیؓ،حضرت عباسؓ،حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ،حضرت زبیر بن عوامؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی گواہی بھی موجود ہے کہ انہوں نے یہ نبیﷺ کو فرماتے ہوۓ سُنا ہے اور یہ گواہی انہوں نے اللہ کی قسم پر دی ہے۔
روایت کچھ یوں ہے کہ!
”حضرت مالک بن اوسؒ سے روایت ہے کہ وہ حضرت عمرؓ کی خدمت میں موجود تھے اتنے میں حضرت عثمانؓ، حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ، حضرت زبیر بن عوامؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ تشریف لائے، اور کچھ دیر بعد حضرت عباسؓ اور حضرت علیؓ بھی تشریف لے آئے اور وہ بنو نضیر کے مال فے کے بارے میں جھگڑ رہے تھے تو سب نے کہا ان میں صلح کروادیں، تو حضرت عمرؓ نے سب کو اللہ کی قسم دے کر پوچھا کہ کیا "نبی نے یہ فرمایا تھا کہ ہم انبیا کسی کے لئے وراثت نہیں چھوڑتے ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے ؟" تو سب نے جواب دیا ”جی ہاں نبی نے ایسا ہی فرمایا تھا“، پھر حضرت عمرؓ نے حضرت عباسؓ اور حضرت علیؓ کو مخاطب کر کے پوچھا کہ میں آپ دونوں کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا نبی نے یہ فرمایا تھا؟ تو دونوں نے جواب دیا "جی ہاں نبی نے یہ فرمایا تھا"۔
(صحیح بخاری، حدیث نمبر 3094،5358)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ حدیث حضرت عمرؓ،حضرت عثمانؓ،حضرت علیؓ،حضرت عباسؓ،حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ،حضرت زبیر بن عوامؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے نبیﷺ سے خود سُنی ہے اور یہ گواہی انہوں نے اللہ کی قسم پر دی کہ واقعی نبیﷺ نے ایسا فرمایا تھا۔
امام ابو داؤد اس حدیث کو نقل کر کے اس کے تحت فرماتے ہیں کہ ان دونوں(حضرت عباسؓ و حضرت علیؓ) حضرات کا سوال یہ تھا کہ اس مال فے کا انتظام ان دونوں کے مابین آدھا آدھا کر دیا جائے ، یہ بات نہیں کہ وہ نبی کے فرمان سے لاعلم تھے کہ "ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا، جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے"، وہ دونوں بھی حق و صواب ہی چاہتے تھے، حضرت عمر نے فرمایا میں اس مال پر تقسیم کا نام نہیں آنے دوں گا، میں اسے ایسے ہی رہنے دوں کا جیسے کہ یہ ہے(یعنی جیسے نبی نے چھوڑی)۔
(سنن ابوداٶد، حدیث نمبر 2963)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عباسؓ و حضرت علیؓ صرف یہ چاہتے تھے کہ مال فے کا انتظام وہ آدھا آدھا سنبھال لیں اور وہ نبیﷺ کے اس فرمان سے لاعلم بھی نہیں تھے اور حضرت عمرؓ نے بھی بلکل درست کیا کیونکہ وہ نبیﷺ کے طریقے پر ہی اس کی دیکھ بھال چاہتے تھے۔
ان سب دلاٸل سے ثابت ہوتا ہے کہ اس چھپے رافضی کا دعویٰ جھوٹ پر مبنی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ اس حدیث کو روایت کرنے میں اکیلے ہیں۔
کیونکہ تمام جید صحابہ کرامؓ سے اس حدیث کی روایت و گواہی موجود ہے۔
اور اس کا کوٸی اندھا مقلد اگر یہ کہے کہ انہوں نے یہ بات سبقت لسانی کی وجہ سے کہی ہے تو اس کی یہ بات بھی کچرے میں پھینک دی جاۓ گی کیونکہ ان کا رافضی امام اس بات پر باطل تاویلیں کر کے اپنے اس دعویٰ کو اور بھی زیادہ مضبوط کرنے کی کوشش کر چکا ہے۔
اور اگر یہ روایت صرف حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ہی بیان کی ہوتی اور باقی صحابہؓ نے نہ سُنی ہوتی تو جب انہوں نے یہ حدیث بیان کی تھی تو تب ہی باقی صحابہؓ یہ کہہ دیتے کہ ہم نے تو نبیﷺ کو یہ فرماتے ہوۓ نہیں سُنا۔
بلکہ باقی صحابہ نے تو حضرت ابوبکر صدیقؓ کی بات کی تصدیق کی تھی کہ بلکل درست فرمایا آپ نے۔
اور جن رافضیوں کی زبان اس چھپے رافضی نے بولی ہے ان کی اپنی کتب سے بھی یہ ثابت ثابت شدہ ہے کہ ”انبیا کی میراث علم ہوتا ہے نہ کہ درہم و دینار“۔
اور جو بات یہ کر رہا ہے کہ بی بی پاک نے قرآن پر عمل کیا ابوبکر صدیق نے حدیث پر عمل کیا ”تو قرآن مجید میں بھی انبیا کی میراث علم ہی بیان کی گٸ ہے“۔
اس مکمل موضوع پر ہماری ایک چھوٹی سی کتاب موجود ہے آپ اس کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔
دُعا ہے کہ اللہ سب مسلمانوں کو رافضیوں کے دجل و فریب سے محفوظ فرماۓ اور ان کے اندھے مقلدین کو حق سننے و سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ۔(آمین)
تحقیق ازقلم:مناظر اہلسنت والجماعت محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی