کیا حضرت ابن عباسؓ نے حضرت امیر معاویہؓ کو گدھا کہا ؟

السلام علی من اتبع الھدیٰ

کچھ دن قبل میری نظر سے مرزا جہلمی کا ایک وڑیو کلپ گزرا جس میں وہ طحاوی شریف میں موجود ایک ضعیف روایت سنا رہا ہے اور اس میں امام طحاوی پر جھوٹ بھی باندھ رہا ہے کہ انہوں نے اس روایت کو صحیح کہا۔



اور مرزا کی وڑیو دیکھ کر اس روایت کو اس کے مرزاٸیوں نے بطور دلیل سوشل میڈیا پر شٸیر کرنا بھی شروع کر دیا ہے کہ جی ابن عباسؓ نے معازاللہ امیر معاویہؓ کے بارے میں ایسے الفاظ استعمال کیے۔



اس پوسٹ میں ہم انہی لوگوں کا پوسٹ مارٹم کریں گے۔

روایت کچھ یوں ہے کہ

”عکرمہ کہتا ہے کہ میں ابن عباسؓ کے ساتھ امیر معاویہؓ کے پاس تھا۔ہمیں باتیں کرتے رات کا ایک حصہ گزر گیا۔پس امیر معاویہؓ نے کھڑے ہو کر ایک رکعت(وتر) پڑھی تو ابن عباسؓ نے کہا اس گدھے نے یہ چیز کہاں سے لی ہے ؟(کہ ایک رکعت وتر پڑھا جاۓ)“۔

(طحاوی شریف،روایت نمبر 1678)



اس روایت پر امام طحاوی نے کہیں پر بھی صحیح ہونے کا حکم نہیں لگایا۔بلکہ یہ مرزا جہلمی نے ان پر جھوٹ باندھا ہے۔


اب اس روایت کی صحت پر بات کرتے ہیں تو یہ روایت حد درجے کی ضعیف بلکہ جھوٹی روایت ہے۔


اس کی سند کے ایک راوی ”عبدالوہاب بن عطا“ پر کلام ملاحظہ فرماٸیں۔


امام ذھبی نے اس پر جرح و تعدیل دونوں نقل کی جس میں لکھا ہے کہ

”امام احمد کہتے ہیں کہ یہ ضعیف الحدیث ہے اور مضطرب ہے،امام نساٸی کہتے ہیں کہ یہ قوی نہیں،امام رازی کہتے ہیں کہ یہ جھوٹ بولا کرتا تھا،اور ذھبی نے نقل کیا ہے کہ یہ قدریہ فرقے سے تعلق رکھتا تھا“۔

(میزان الاعتدال،جلد 4،صحفہ نمبر 388)



امام ذھبی نے الکاشف میں لکھا ہے کہ

”امام احمد،امام بخاری،اور نساٸی کہتے ہیں کہ یہ قوی نہیں ہے“۔

(الکاشف،جلد 1،صحفہ نمبر 675)



اس کے مقابلے میں جو ہلکی پھلی تعدیل ہے وہ کسی کام کی نہیں کیونکہ اس پر جرح مقدم ہے۔اور امام یحییٰ کی تعدیل بھی قابل قبول نہیں کیونکہ جرح مقدم ہے۔


امام ابن جوزی نے اس کو اپنی الضعفا میں شامل کیا جو کہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک بھی یہ راوی ضعیف ہے، اور پھر امام احمد کا قول نقل کیا کہ یہ ضعیف الحدیث اور مضطرب ہے،امام رازی کا قول نقل کیا کہ یہ حدیث میں قوی نہیں اور نساٸی کا قول نقل کیا کہ یہ قوی نہیں“۔

(کتاب الضعفا ابن جوزی،جلد 2،صحفہ نمبر 158)



امام نساٸی بھی اس کو اپنی الضعفا میں شامل کر کے کہتے ہیں کہ

یہ قوی نہیں۔

(الضعفا للنساٸی،صحفہ نمبر 163)



امام بخاری اس کو اپنی الضعفا میں شامل کرتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی یہ ضعیف ہے اور پھر لکھتے ہیں کہ،

یہ قوی نہیں۔

(کتاب الضعفا للبخاری،صحفہ نمبر 75)



امام ابن حجر نے اس کو صدوق لکھا ہے جو کہ مردود ہے لیکن ساتھ ہی لکھتے ہیں

یہ بسا اوقات خطا کر جاتا ہے۔

(تقریب التہذیب،جلد 1،صحفہ نمبر 571)



تو یہ تھی اس راوی پر جرح جو کہ تعدیل پر مقدم ہے اور یہ راوی صدوق درجے کا بھی نہیں ہے بلکہ ابن حجر سے خطا ہوٸی ہے۔اس راوی کی روایت لینا جاٸز ہی نہیں۔


اب ہم یہ بیان کریں گے کہ کیا ایک رکعت پڑھنا جاٸز ہے یا نہیں ؟


تو اس بارے میں سنن ابن ماجہ میں روایت ہے کہ

”حضرت ابو ایوب انصاریؓ فرماتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا،وتر حق ہے،لہذا جو چاہے پانچ رکعات وتر پڑھ لے،اور جو چاہے تین رکعات وتر پڑھ لے،اور جو چاہے ایک رکعت وتر پڑھ لے“۔

(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر 1190)



یہ حدیث اس کے علاوہ سنن ابوداٶد میں حدیث نمبر 1422،سنن دارمی میں حدیث نمبر 1623 اور مسند احمد میں حدیث نمبر 23941 پر بھی موجود ہے۔


اس سے پتہ چلتا ہے کہ نبیﷺ کے فرمان کے مطابق بھی ایک رکعت وتر پڑھنا جاٸز ہے۔


اس کے علاوہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو نبیﷺ نے فرمایا کہ

”رات کی نماز دو دو رکعت ہے،جب تم نماز ختم کرنے کا ارادہ کرو تو ایک رکعت(وتر) پڑھ لو،یہ رکعت تیری سابقہ نماز کو وتر بنا دے گی،قاسم بن محمد بن ابی بکر کہتے ہیں کہ یقیناً تین یا ایک ہر طرح سے جاٸز ہے،مجھے امید ہے کہ اس میں کوٸی حرج نہیں“۔

(بخاری،حدیث نمبر 993)



ایک اور مقام پر وارد ہوا کہ ایک شخص نبیﷺ کے پاس آیا اور پوچھا

”رات کی نماز کس طرح ادا کی جاۓ گی؟ تو آپﷺ نے فرمایا،دو دو رکعت،پھر جب تمہیں طلوع فجر کا اندیشہ ہو تو ایک رکعت وتر پڑھ لو،وہ تمہاری پڑھی ہوٸی سابقہ کو طاق بنا دے گی“۔

(بخاری،حدیث نمبر 473)



اور صحابی رسول سعد بن ابی وقاصؓ نے بھی ایک رکعت وتر پڑھا۔(بخاری،حدیث نمبر6356)


اور نبیﷺ سے خود بھی ایک رکعت وتر پڑھنا ثابت ہے۔

جیسا کہ حضرت عاٸشہؓ فرماتی ہیں کہ

”نبیﷺ ایک رکعت وتر پڑھتے تھے،اور دو دو رکعتوں اور ایک رکعت کے درمیان گفتگو فرماتے تھے“۔

(مصنف ابن ابی شیبہ،جلد 2،حدیث نمبر 6871)



ان سب دلاٸل سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک رکعت وتر پڑھنا بھی جاٸز ہے اور یہ نبیﷺ کی سنت ہے۔


اب ہم یہ بیان کریں گے کہ جب ابن عباسؓ کے سامنے امیر معاویہؓ کا عمل بیان کیا گیا تو انہوں نے کیا فرمایا ؟


بخاری میں روایت ہے کہ

”حضرت ابن عباسؓ سے کہا گیا،امیر المٶمنین حضرت معاویہؓ کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں انہوں نے وتر کی نماز صرف ایک رکعت پڑھی ہے،انہوں نے فرمایا،بلاشبہ وہ خود فقیہ ہیں“۔

(بخاری،جلد 3،روایت نمبر 3765)



اور ایک مقام پر یہی روایت نقل ہوٸی کہ

”حضرت عطا فرماتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہؓ نے ایک رکعت وتر پڑھے تو لوگوں نے ان کے اس عمل کو ناپسند کیا،اس بارے میں حضرت ابن عباسؓ سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا انہوں نے سنت پر عمل کیا“۔

(مصنف ابن ابی شیبہ،جلد 2،روایت نمبر 6877)



امام ابن ابی شیبہ اس روایت کو اس باب میں لاۓ ہیں کہ ”جو حضرات ایک رکعت وتر پڑھا کرتے تھے“۔


اب ایک آخری روایت پیش کرتے ہیں جس سے یہ سارا مسٸلہ ہی حل ہو جاۓ گا۔

روایت کچھ یوں ہے کہ

”حضرت ابن عباسؓ کا آزاد کردہ غلام کریب کہتا ہے کہ میں نے امیر معاویہؓ کو عشا کی نماز پڑھتے دیکھا، پھر انہوں نے ایک رکعت وتر پڑھا،اس سے کچھ زاٸد نہیں کیا،میں نے ابن عباسؓ کو خبر دی تو ابن عباسؓ نے فرمایا اے میرے بیٹے انہوں نے درست کیا ہے،ہم میں سے کوٸی امیر معاویہؓ سے زیادہ علم والا نہیں ہے،وتر ایک،پانچ،سات یا اس سے بھی زاٸد ہو سکتے ہیں“۔

(سنن الکبریٰ للبیہقی،جلد 3،روایت نمبر 4794)



(نوٹ:اوپر سکین میں اردو ترجمے میں ”اصاب ای بنی“(یعنی انہوں نے درست کیا اے میرے بیٹے) کا ترجمہ نہیں لکھا ہوا)


ان سب دلاٸل سے واضح ہو گیا کہ مرزا جہلمی کذاب ایک جھوٹی روایت سنا کر لوگوں کو بیوقوب بنانے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ ایک رکعت وتر پڑھنا تو سنت سے ثابت ہے اور امیر معاویہؓ کے اس عمل کے بارے میں تو ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ یہ سنت کے مطابق عمل ہے اور امیر معاویہؓ ہم میں سب سے بڑے عالم ہیں۔


مرزا جہلمی کو بھی چاہیے کہ وہ یہ مان لے کہ اس کی بیان کردہ روایت ضعیف ہے اور ابن عباسؓ نے ایسا کچھ نہیں کہا،بلکہ انہوں نے تو امیر معاویہؓ کی تعریف کی۔


لیکن اگر پھر بھی وہ یہ نہ مانے تو باقی دلاٸل سے تو پتہ چل رہا ہے کہ یہ سنت ہے تو پھر گدھے کے الفاظ ابن عباسؓ کی طرف لوٹ جاٸیں گے(معازاللہ) کیونکہ اپنی وڑیو میں مرزا بڑی بھڑکیں مار رہا ہے کہ اگر اس کو ضعیف ثابت کریں گے تو طحاوی مر جاۓ گا(کیونکہ مرزا نے ان پر بھی جھوٹ باندھا ہے کہ انہوں نے اس روایت کو صحیح کہا ہے جبکہ انہوں نے اس روایت کو صحیح کہا ہی نہیں) اور کہتا ہے کہ ابن عباس پر بھی فتوی لگاٶ رافضی ہونے گا۔


تو جناب ہم نے تو ثابت کر دیا کہ یہ عمل سنت ہے،اگر آپ لوگ اس روایت کو ضعیف نہیں مانتے جس میں گدھے کے الفاظ ہیں تو جناب پھر یہ الفاظ کہنے والے کی طرف لوٹ جاٸیں گے۔

اب مرزا صاحب کی مرضی ہے کہ اپنے آپ کو بچاٸیں یا حضرت ابن عباسؓ کو۔

دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو حق سننے سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ اور اس فتنہ سے سب لوگوں کو محفوظ فرماٸے۔(آمین)

تحقیق ازقلم:مناظر اسلام محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی

Powered by Blogger.