کیا حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت علی کو سب سے افضل سمجھتے تھے ؟

السلام علی من اتبع الھدیٰ

میری نظر سے ایک روایت گزری جس کا متن کچھ عجیب و غریب تھا۔

روایت کچھ یوں تھی کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ!

”کنا نتحدث أن "أفضل" أھل المدینة علی بن ابی طالب“

”ہم کہا کرتے تھے کہ اہل مدینہ میں سب سے زیادہ افضل حضرت علیؓ بن ابی طالب ہیں“۔

(فضاٸل صحابہ،روایت نمبر 1033)



اس پوسٹ کے اندر میں اسی روایت پر بات کروں گا کہ اس روایت کے الفاظ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے ثابت بھی ہیں یا نہیں۔

اس لۓ ہم اس روایت کو باقی کتب میں دیکھتے ہیں کہ یہ روایت باقی کتب میں انہی الفاظ سے ثابت ہے یا نہیں ؟

تاریخ دمشق میں یہ روایت کچھ ان الفاظ سے نقل کی گٸ ہے کہ

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں!

”کنا نتحدث أن "أقضی" أھل المدینة علی بن ابی طالب“

”ہم کہا کرتے تھے کہ مدینہ والوں میں سب سے بہترین قاضی حضرت علیؓ بن ابی طالب ہیں“۔

(تاریخ مدینة دمشق،جلد 42،صحفہ نمبر 404)



اس سے نیچے والی روایت میں بھی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے یہی الفاظ ہیں کہ ”مدینہ والوں میں سب سے بہترین قاضی حضرت علیؓ ہیں“۔

تو جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہاں پر افضل کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ اقضی (قاضی) کے الفاظ ہیں۔

اس کے بعد طبقات ابن سعد میں بھی یہ روایت انہی الفاظ سے نقل کی گٸ ہے کہ

”عبداللہ قال:کنا نتحدث ان من "اقضی" اھل المدینة ابن ابی طالب“۔

حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ مدینہ والوں میں سب سے بہترین قاضی ابن ابی طالب یعنی حضرت علی ہیں۔

اور نیچے بھی یہی روایت نقل کی گٸ ہے کہ ”مدینہ والوں میں سب سے بہترین قاضی علیؓ بن ابی طالب ہیں“۔

(طبقات ابن سعد،جلد 2،صحفہ نمبر 292)



فتح الباری میں امام ابن حجرؒ نے بھی یہ روایت انہی الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے کہ

”کنا نتحدث ان "اقضی" اھل المدینة علیؓ بن ابی طالب“۔

(فتح الباری،جلد 9،صحفہ نمبر 647)



اسد الغابة  میں امام ابن الاثیر الجزریؒ نقل کرتے ہیں کہ

”کنا نتحدث ان "اقضی" اھل المدینة علی بن ابی طالب“۔

(اسد الغابة فی معرفة الصحابة،جلد 5،صحفہ نمبر 95)



الریاض النضرة میں امام احمد الطبریؒ نقل کرتے ہیں کہ

”کنا نتحدث ان "اقضی" اھل المدینة علی بن ابی طالب“۔

(الریاض النضرة،جلد 3،صحفہ نمبر 143)



امام حاکمؒ اپنی مستدرک میں بھی انہی الفاظ کے ساتھ یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ

”کنا نتحدث ان "اقضی" اھل المدینة علی بن ابی طالب“۔

(المستدرک الحاکم،جلد 3،حدیث نمبر 4719)



امام بغویؒ اپنی معجم الصحابہ میں نقل کرتے ہیں کہ

”کنا نتحدث ان "اقضی" اھل المدینة علی بن ابی طالب“۔

(معجم الصحابة،جلد 4،صحفہ نمبر 361)



مسند احمد میں ایک جگہ حواشی میں "افضل" لفظ کے متعلق علامہ شعیب کہتے ہیں کہ

ان الفاظ کو بدل کر "افضل" کر دیا گیا اور ظاہر ہے کہ یہ تحریف ہے،جبکہ اصل الفاظ ”اقضی“ ہیں۔

(مسند احمد،جلد 35،صحفہ نمبر 11 حواشی)



اور امام ابن عبدالبرؒ تو صاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ افضل کے الفاظ ثابت نہیں۔

کہتے ہیں

”میرے نزدیک شعبہ کی روایت میں تصحیف(لکھنے میں غلطی) ہوٸی ہے،بلکہ جو الفاظ محفوظ ہیں وہ ابن مسعود سے یہ ہیں کہ ”ہم کہا کرتے تھے کہ مدینہ والوں میں سب سے بہترین قاضی حضرت علی ہیں“اس میں قاضی کا لفظ ہے نہ کہ افضل کا“۔

(الاستذکار،قدیم قلمی نسخہ)



جبکہ الاستذکار میں یہ روایت کتاب الجہاد کے 14ویں باب میں ہے۔اور آج کل پی ڈی ایف نسخے میں بھی غلطی سے ”اقضی“ کی جگہ ”امضی“ لکھا ہوا ہے جو کہ پھر سے کاتب کی غلطی ہے اس لۓ میں نے قلمی نسخہ نکال کر قول نقل کیا۔

ہم سبھی جانتے ہیں کہ قدیم نسخوں کو پڑھتے ہوۓ اعراب و نقطوں کی غلطی ہو جاتی ہے،جس کی وجہ سے نیا لفظ روایت میں داخل ہو جاتا ہے۔

اس لۓ جس جس جگہ پر یہ روایت ”افضل“ لفظ کے ساتھ نقل ہوٸی ہے وہاں پر اسی غلطی کی وجہ سے یہ لفظ لکھا ہوا ہے۔جبکہ اصل و محفوظ لفظ ”اقضی“ ہے۔

الحَمْدُ ِلله ہم نے ثابت کیا کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے نزدیک حضرت علی سب سے افضل نہیں ہیں بلکہ ان کے نزدیک وہ بہترین قاضی ہیں اور روایت میں موجود "افضل" الفاظ غیر محفوظ ہیں جبکہ محفوظ الفاظ "اقضی" کے ہیں۔

دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو حق سننے سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ۔

ازقلم:مناظر اسلام محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی

Powered by Blogger.