سید کون ہیں ؟

 سید کون ہیں ؟

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

آج کی یہ پوسٹ سید کے بارے میں ہیں کہ سید کون ہیں اور ان کو سید کس وجہ سے کہا جاتا ہے۔

سب سے پہلے ہم سید کے مطلب کی طرف چلتے ہیں کہ لفظ ”سید“ کا مطلب کیا ہے۔

سید کے لغوی معنی سردار،امام،پیشوا،آقا کے ہیں۔(فیروز اللغت،س-ی،صحفہ نمبر 826)

جبکہ اصطلاح میں سید حضرت بی بی فاطمہؓ کے بیٹوں یعنی امام حسنؓ اور امام حسینؓ اور ان کی اولاد کو کہا جاتا ہے،کیونکہ وہ مسلمانوں کے سردار ہیں۔

ان سب کو سید نبیﷺ کی آل(اولاد) ہونے کی وجہ سے کہا جاتا ہے اور نبیﷺ نے ان کو اپنے بیٹے بھی کہا ہے۔

جیسا کہ حضرت اسامہ بن زیدؓ فرماتے ہیں ”ایک رات میں نبیﷺ کے پاس اپنے کسی کام سے گیا تو جب نبیﷺ باہر تشریف لاۓ تو انہوں نے اپنے ساتھ کچھ لپیٹا ہوا تھا مجھے معلوم نہ ہوا کہ یہ کیا ہے جب میں اپنے کام سے فارغ ہو گیا تو میں نے عرض کی یارسول اللہﷺ یہ کیا ہے ؟ تو نبیﷺ نے چارد کو کھولا تو اس میں امام حسنؓ و حسینؓ لکٹے ہوۓ تھے،نبیﷺ نے فرمایا! یہ میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں،پھر فرمایا اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت رکھ اور جو ان سے محبت رکھے تو بھی ان سے محبت رکھ“۔

(جامع ترمذی،حدیث نمبر 3769)

(نوٹ:کتاب میں وہابی مترجم نے ترجمہ غلط کیا ہے ”احبھما“ کا ترجمہ ”محبت“ کی بجاۓ ”دوست“ کیا ہے)

اور نبیﷺ نے امام حسنؓ کے لۓ خود ”سید“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔

حضرت ابوبکرہؓ فرماتے ہیں کہ ”ایک مرتبہ نبیﷺ امام حسنؓ کو ساتھ لے کر باہر تشریف لاۓ اور انہیں لے کر منبر پر تشریف فرما ہوۓ اور فرمایا! میرا یہ بیٹا سید(سردار) ہے اور اللہ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرواۓ گا“۔

(صحیح بخاری،حدیث نمبر 3629)


اس سے پتہ چلتا ہے کہ نبیﷺ نے حضرت فاطمہؓ کی اولاد کو اپنی اولاد کہا اور ان کو سید کہا۔

اس کے ساتھ ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ سید پر صدقہ حرام ہے اس کو صدقہ نہیں دیا جا سکتا نہ ہی وہ صدقے میں سے کھا سکتے ہیں۔

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں ایک بار نبیﷺ کے پاس صدقے کی کھجوریں لاٸی گٸیں تو ان کا ڈھیر لگ گیا،امام حسنؓ و حسینؓ ان کھجوروں سے کھیلنے لگے(کیونکہ تب وہ چھوٹے بچے تھے)تو ان میں سے ایک نے کھجور اٹھا کر منہ میں ڈال لی جسے ہی نبیﷺ نے دیکھا تو ان کے منہ سے کھجور نکال کر فرمایا ”کیا تمہیں معلوم نہیں کہ آل(اولاد) محمدﷺ صدقہ نہیں کھاتے ؟“۔

(صحیح بخاری،حدیث نمبر 1485)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سید پر صدقہ بھی حرام ہے۔

ساتھ ہی ہم ایک غلط فہمی کا جواب دیتے چلیں۔

صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ زید بن ارقمؓ نے آل علی کے ساتھ ساتھ آل عقیل و آل جعفر و آل عباس کے بارے میں بھی یہ کہا ہے کہ ان پر صدقہ حرام ہے۔


جیسا کہ ایک طویل روایت میں الفاظ ہیں کہ

”حضرت زید بن ارقمؓ سے پوچھا گیا کہ نبیﷺ کے اہلبیت کون ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا نبیﷺ کے اہلبیت میں ہر وہ شخص شامل ہے جس پر نبیﷺ کے بعد صدقہ حرام ہے،پوچھا گیا وہ کون ہیں ؟ فرمایا! آل علی، آل عقیل،آل جعفر،آل عباس“۔

(صحیح مسلم،حدیث نمبر 6225)

اس میں حضرت زید بن ارقم سے اجتہاری خطا ہوٸی ہے کہ انہوں نے ان سب کے بارے میں یہ کہا ہے کہ ان پر صدقہ حرام ہے۔

کیونکہ صدقہ صرف نبیﷺ کی اولاد یعنی امام حسنؓ و حسینؓ پر اور آگے ان کی اولاد پر حرام ہے۔جیسا کہ ہم نے اوپر حدیث بیان کی۔

رہی بات کہ زید بن ارقمؓ نے ایسا کیوں کہا تو انہوں نے آل عقیل و آل جعفر اور آل عباس کے ساتھ ان کی رشتہ داری ہونے کی وجہ سے ایسا کہا۔

کیونکہ ان کی آپس میں شادیاں ہوتی رہی ہیں۔

لیکن شریعت میں نسب باپ کی طرف سے چلتا ہے بیٹی کی طرف سے نہیں۔

مطلب یہ کہ حضرت فاطمہ کی بیٹیوں اور امام حسن و حسین کی بیٹیوں کی اگر غیر سید سے شادی ہو گی تو ان کی آگے اولاد سید نہ ہو گی  بلکہ باپ سے نسب چلے گا اور یہ بات ہم آگے بیان کریں گے ان شاء اللہﷻ۔

امام ابن حجرؒ نے اس بات کو تفصیل سے نقل کیا ہے اور ایک حدیث نقل کر کے فرماتے ہیں۔

”نبیﷺ نے فرمایا!ہر ماں کے بیٹوں کا عصبہ ہے سواۓ حضرت فاطمہؓ کے بیٹوں کے،میں ان کا ولی اور عصبہ ہوں،(یعنی کہ ہر بیٹا اپنے باپ کی طرف منسوب ہوتا ہے لیکن امام حسن و حسین نبیﷺ کی طرف منسوب کیے جاٸیں گے)یہ حدیث نقل کر کے امام ابن حجر کہتے ہیں کہ اس حدیث میں نبیﷺ نے اپنی طرف انتساب اور اپنے عصبہ ہونے کو حضرت امام حسنؓ اور امام حسینؓ کے لۓ خاص فرمایا ہے اور ان کی بہنوں کے ساتھ خاص نہیں فرمایا،اس لۓ سید زادی(یعنی امام حسن و حسین کی اولاد میں سے کوٸی عورت)کا وہ بیٹا جو غیر سید سے ہے وہ غیر سید ہی ہو گا،اگر یہ خصوصیت عام ہوتی کہ ہر سید زادی کا بیٹا سید ہے(اس سید زادی کے بارے میں کہا جا رہا جو غیر سید سے نکاح کر لے)تو اس پر زکوٰة حرام ہوتی حالانکہ ایسا نہیں ہے“۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ اگر کوٸی سید زادی کسی غیر سید سے نکاح کر لے تو آگے اس کی اولاد سید نہیں ہو گی بلکہ غیر سید ہی ہو گی۔

ساتھ ہی امام ابن حجر نے نقل کیا ہے کہ 

”صدرِ اول(یعنی صحابہ و تابعین کے دور)میں لفظ شریف(سید) کا اطلاق ہر اس فرد پر ہوتا تھا جو اہلبیت سے تعلق رکھتا تھا خواہ وہ عباسی ہوتا یا عقیلی ہوتا،لیکن جب مصر پر فاطمیوں کی خلافت آگٸ تو انہوں نے اس شرف کو صرف حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کی آل کے ساتھ مختص کر دیا اور اب تک وہی سلسلہ برقرار ہے“۔

(فتاویٰ حدیثیة،صحفہ نمبر 472،473)

یہی وجہ تھی کہ زید بن ارقمؓ نے اجتہادی طور پر آل عقیل و آل جعفر و آل عباس کے بارے میں بھی یہ کہہ دیا کہ ان پر صدقہ حرام ہے،کیونکہ ان کے آل علی کے ساتھ تعلقات تھے۔

جبکہ صدقہ صرف حضرت حسنؓ و حسینؓ کی اولاد پر ہی حرام ہے،اور بس وہی سید ہیں۔

جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلویؒ سے سوال ہوا

”کہ زید کا دادا پٹھان تھا،دادی اور والدہ سیدانی،اس صورت میں زید سید ہے یا پٹھان ؟

تو اعلیٰ حضرت نے فرمایا! شریعت میں نسب باپ کی طرف سے لیا جاتا ہے جس کے باپ دادا پٹھان یا مغل یا شیخ ہوں وہ انہیں قوموں سے ہو گا چاہے اس کی ماں اور دادی سب سیدانیاں ہوں،اور پھر روایت نقل فرماٸی کہ اللہ نے یہ خاص فضیلت امام حسنؓ اور امام حسینؓ اور ان کے حقیقی بھاٸی بہنوں کو عطا فرماٸی کہ وہ رسول اللہﷺ کے بیٹے ٹھہرے،ان میں بھی یہی قاعدہ عام جاری ہوا کہ وہ اپنے باپ کی طرف منسوب ہوں اس لۓ سبطین کریمینؓ(یعنی امام حسنؓ اور امام حسینؓ) کی اولاد سید ہیں نہ کہ حضرت فاطمہؓ کی بیٹیوں کی اولاد،کہ وہ اپنے والدوں کی طرف ہی نسبت کی جاٸیں گی“۔

(فتاویٰ رضویہ،جلد 13،صحفہ نمبر 361)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف امام حسن و حسین کی اولاد ہی سید ہیں،اور اگر کوٸی سیدانی(یعنی امام حسن و حسین کی اولاد سے کوٸی عورت) کسی غیر سید(ایسا شخص جو سید نہیں) سے نکاح کر لیں تو پھر ان کی اولاد سید نہ ہو گی بلکہ اس ذات کی ہوں گی جس ذات کے لڑکے سے سیدانی نے شادی کی ہو گی۔

ایک اور نقطہ ہم یہاں بیان کرتے چلیں کہ ہم اپنے صحابہ یا بزرگان دین کے لۓ بھی ”سیدنا“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں کیونکہ وہ سب بھی ہمارے آقا و سردار ہیں،ان کے لۓ جب بھی یہ لفظ استعمال کیا جاۓ گا ساتھ میں ”نا“ یا ”ی“ کا اضافہ کیا جاۓ گا یعنی کہ ”سیدنا/سیدی“ کہا جاۓ گا کیونکہ لفظ ”سید“ امام حسنؓ و حسینؓ کی اولاد کے لۓ خاص ہے۔

تو ثابت ہوا کہ صدقہ صرف سید پر حرام ہے اور سید صرف امام حسن و حسین کی اولاد کو ہی کہا جاتا ہے۔

اور بعض لوگ اپنے نام کے ساتھ ”سید“ لکھ لیتے ہیں جبکہ ایسا کرنا حرام ہے۔کیونکہ نبیﷺ نے فرمایا ”جو اپنے باپ کے سوا دوسرے کی طرف اپنے آپ کو نسبت کرے اس پر خود اللہ تعالیٰ اور سب فرشتوں اور آدمیوں کی لعنت ہے،اللہ قیامت کے دن اس کا نہ فرض قبول کرے گا نہ نفل(یعنی کوٸی عبادت قبول نہیں کی جاۓ گی)“۔

اب ان شاء اللہﷻ اگلی پوسٹ ہم سید کے ادب کے بارے میں کریں گے کہ سید کا ادب کیسے کیا جاۓ اور کیوں کیا جاۓ۔

تحقیق ازقلم:مناظرِ اسلام محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی



Zulqarnain Hanfi Barelvi

Powered by Blogger.