ابوطالب مسلمان تھا یا نہیں ؟

ایمانِ ابوطالب کا بیان

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

آج کی اس پوسٹ میں ہم ابوطالب کے ایمان پر بات کریں گے کہ ابوطالب مسلمان تھا یا نہیں ؟

اس مسٸلے پر لکھنے کی ضرورت آج کل پھیلے فتنے کی وجہ سے پیش آٸی کیونکہ یہ فتنہ ہر کسی کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔

یاد رہے اس موضوع پر ہم قرآن و حدیث و اجماع امت کی روشنی میں ہی دلاٸل بیان کریں گے۔

آج کل کچھ کم علم لوگ ابوطالب کو مسلمان ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں اور ناجانے کون کون سے القابات اور دعاٶں سے نوازتے رہتے ہیں کبھی ”رضی اللہ تعالیٰ عنہ“ اور کبھی کیا اور پھر اس حد تک کہہ جاتے ہیں کہ جو ابوطالب کو مسلمان نہ مانے وہ خود معاز اللہ کافر ہے۔


تو آج ہم ان لوگوں کا تفصیلی آپریشن کریں گے اور ان کے کچھ دلاٸل کا علمی رد بیان کریں گے۔


سب سے پہلے ہم ایک حدیث نقل کرتے ہیں جس سے یہ مسٸلہ بلکل حل ہو جاۓ گا:

حضرت مسیب بن حزنؓ فرماتے ہیں کہ جب ابوطالب فوت ہونے لگا تو نبیﷺ اس کے پاس تشریف لاۓ جبکہ اس کے پاس ابوجہل بھی بیٹھا تھا،نبیﷺ نے فرمایا ! اے چچا(ابوطالب) ایک بار لا الہ الا اللہ کہہ دے،میں اس وجہ سے اللہ کے پاس تمہارے لۓ حجت قاٸم کر سکوں گا۔ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا ابوطالب کیا عبدالمطلب کے مذہب سے روگردانی کر رہے ہو ؟ وہ بار بار اسے یہی کہتے رہے حتی کہ ابوطالب نے آخری بات ان سے یہی کہی کہ وہ عبدالمطلب کی ملت پر ہے،نبیﷺ نے فرمایا میں آپ کے لۓ اللہ سے استغفار ضرور کروں گا جب تک مجھے روکا نہ جاۓ گا،پھر یہ آیت نازل ہوٸی ”نبیﷺ اور ایمان والوں کے لاٸق نہیں کہ وہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا کریں اگرچہ وہ قریبی ہی کیوں نہ ہوں جبکہ انہیں معلوم ہو گیا کہ وہ دوزخی ہیں“(سورة التوبہ آیت نمبر 113 ) اور یہ آیت بھی نازل ہوٸی ”بے شک آپ جسے پسند کریں اسے ہدایت نہیں دے سکتے“(سورة القصص آیت نمبر 56)

(صحیح بخاری،حدیث نمبر 3885)

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوطالب بغیر مسلمان ہوۓ فوت ہوا  تھا۔

سورة التوبہ کی آیت نمبر 113 کی تفسیر میں دیکھتے ہیں کہ مفسرین نے اس کا شانِ نزول کیا لکھا ہے۔

اہلسنت کے معتبر ترین مفسر القران مفتی ابوصالحؒ اپنی تفسیر میں اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیں:

”اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ نبیﷺ نے اپنے چچا ابوطالب سے فرمایا تھا کہ میں تمہارے لۓ استغفار کروں گا جب تک کہ مجھے منع نہ کر دیا جاۓ تو اللہ نے یہ آیت نازل فرما کر منع کر دیا۔(پھر لکھتے ہیں)بعض مفسرین نے اس کا شان نزول یہ بیان کیا ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا میں نے اللہ سے اپنی والدہ کی زیارتِ قبر کی اجازت چاہی تو اللہ نے مجھے اجازت دے دی اور استغفار کی اجازت چاہی تو مجھے اجازت نہ دی گٸ لیکن یہ ہر گز درست نہیں اور یہ روایت ضعیف ہے۔(پھر لکھتے ہیں کہ)اس کے شان نزول میں باقی جتنی روایات ہیں سب ضعیف ہیں بس یہ بخاری کی روایت صحیح ہے کہ یہ آیت ابوطالب کے بارے میں نازل ہوٸی“۔(صراط الجنان،جلد 4،صحفہ نمبر 249)

اس سے پتہ چلتا ہے کہ جو اس کا صحیح شان نزول ہے وہ یہی ہے کہ یہ آیت ابوطالب کے بارے میں نازل ہوٸی باقی تمام روایات ضعیف ہیں۔

البتہ ابوطالب جہنمی ہے لیکن اس کو باقی سب سے کم عذاب دیا جاۓ گا جیسا کہ روایت ہے:

”حضرت عباس نے نبیﷺ سے پوچھا کہ آپ نے اپنے چچا ابوطالب کو کیا نفع پہنچایا ہے وہ آپ کی حمایت کرتا تھا اور آپ کی خاطر دوسروں پر غصہ کرتا تھا،تو نبیﷺ نے فرمایا: وہ ٹخنوں تک ہلکی آگ میں ہے اگر میں نہ ہوتا تو وہ آگ کی تہ میں بلکل نیچے ہوتا“۔(صحیح بخاری،حدیث نمبر 3883 )

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوطالب کو کم عذاب دیا جا رہا ہے اور نبیﷺ قیامت کے دن بھی ابوطالب کی شفاعت کریں گے جس سے ابوطالب کو ہمیشہ کے لۓ  بس یہی عذاب دیا جاۓ گا جیسا کہ روایت میں ہے

”حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ جب آپﷺ کے سامنے ابوطالب کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا! قیامت کے دن اس کو میری شفاعت کچھ فاٸدہ دے گی کہ کم گہری آگ میں رکھا جاۓ گا جس میں اس کے صرف ٹخنے ہوں گے مگر اس سے بھی س کا دماغ کھولے گا“۔(صحیح بخاری،حدیث نمبر 3885)

اب ہم ابوطالب کے بیٹے یعنی حضرت علیؓ کی گواہی کی طرف چلتے ہیں کہ ابوطالب مسلمان ہوۓ بغیر فوت ہوا۔

”حضرت علیؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نبیﷺ کے پاس گیا اور کہا:ابوطالب فوت ہو گیا ہے،نبیﷺ نے فرمایا جاٶ اور اسے دبا آٶ،حضرت علیؓ نے کہا بلاشبہ وہ مشرک فوت ہوا ہے،نبیﷺ نے فرمایا جاٶ اسے دبا آٶ جب میں نے اسے دبا دیا تو میں آپﷺ کے پاس واپس گیا تو آپ نے مجھ سے فرمایا غسل کرو“۔(سنن نساٸی حدیث نمبر 190)

اس حدیث سے حضرت علیؓ کی گواہی مل رہی ہے کہ ان کا والد ابوطالب بغیر مسلمان ہوۓ فوت ہوا۔

اگر وہ مسلمان ہوتا تو نبیﷺ اسے اس طرح دبانے کا حکم نہ دیتے بلکہ خود جاتے اور اہتمام کے ساتھ جنازہ پڑھتے اور حضرت علی بھی اس طرح اُس سے نفرت کا اظہار نہ کرتے کہ وہ مشرک فوت ہوا ہے اور آپﷺ نے مجھے اسے دبانے کا حکم دیا۔

اب اس روایت پر کچھ لوگ اعتراض یہ کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے کہا کہ وہ ”مشرک“ فوت ہوا تو ابوطالب نے تو کبھی کسی بُت کو پوجا ہی نہیں۔تو پھر ابوطالب مشرک کیسے ؟

اس کا جواب بھی دیتا چلوں کہ شرک کٸ اقسام کا ہوتا ہے ان میں سے ایک شرک یہ ہے کہ اللہ و رسول کی بات کو چھوڑ کر اپنے نفس کی بات مانی جاۓ اور یہی شرک ابوطالب نے کیا۔

اس نے بھی نبیﷺ کا حکم نہیں مانا کہ لا الہ الا اللہ پڑھ لو بلکہ اس نے بھی اپنے نفس کی بات کو مانا اور مسلمان ہوۓ بغیر فوت ہو گیا۔

اب نفس کو معبود بنانے کے بارے میں اللہ فرماتا ہے۔

”کیا تم نے اسے دیکھا جس نے اپنے جی(نفس) کی خواہش کو اپنا خدا بنا لیا تو کیا تم اس کی نگہبانی کا ذمہ لو گے ؟“۔

(سورة الفرقان،آیت نمبر 43)

ایک اور مقام پر اللہ فرماتا ہے

”بھلا دیکھو تو وہ جس نے اپنی خواہش کو اپنا خدا ٹھرا لیا اور اللہ نے اسے باوصف علم کے گمراہ کیا اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈالا تو للہ کے بعد اسے کون راہ دکھاۓ تو کیا تم دھیان نہیں کرتے؟“۔

(سورة الجاثیة،آیت نمبر 23)

تو یہ تھا وہ شرک جو ابوطالب نے کیا کہ اپنے نفس کو اپنا معبود بنا لیا اور حق قبول نہ کیا۔

اور جہاں تک بات ہے بت پرست نہ ہونے کی تو وہ تو ابوجہل و ابولہب بھی نہیں تھے انہوں نے بھی کبھی بتوں کو نہیں پوجا۔ان کے جہنمی ہونے کی وجہ بھی یہی ہے کہ انہوں نے ابھی اپنے نفس کو معبود بنا لیا اور اللہ و رسول کے حکم کو نہیں مانا۔

اعلیٰحضرت امام احمد رضا خان بریلویؒ نے ابوطالب کے ایمان کے حوالے سے تفصیل سے لکھا ہے۔

اعلیٰحضرت نے ابوطالب کے باب میں اس کے لۓ دعا کرنے اور ”رضی اللہ تعالیٰ عنہ“ کا جملہ استعمال کرنے کے بارے میں سخت وعید بیان فرماٸی ہے۔

لکھتے ہیں

”جب ابوطالب کا کفر ادلہ النہار سے ثابت ہو چکا تو ”رضی اللہ تعالیٰ عنہ“ کہنے کا اختیار کسے ہے ؟ یہ تو اللہ پر افترا ہے کفار کو رضاۓ الٰہی سے کیا بہرہ اور اگر دعا ہے تو دعا بالمحال حضرت ذی الجلال سے معازاللہ استہزا ایسی دعا نبیﷺ نے نہیں فرماٸی(مطلب یہ کہ ابوطالب کا کفر پر مرنا ہر طرح کی دلیل سے ثابت ہے تو پھر اسے رضی اللہ کہنا اللہ پر افترا ہے اور اگر اس کے لیے ویسے دعا کریں تو معازاللہ اللہ کے حکم کی خلاف وزری ہے)علما نے کافر کے لیے دعاۓ مغفرت پر سخت اشد حکم صادر فرمایا اور اس کے حرام ہونے پر اجماع ہے تو پھر دعاۓ رضوان(رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنا) تو اس سے بھی ارفع و اعلیٰ ہے،(یعنی کہ جو کافر کے لۓ مغفرت کی دعا کرے اس کو عذاب دیا جاۓ گا اور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنا تو دعاۓ مغفرت سے بھی اوپر ہے تو اس پر تو زیادہ عذاب دیا جاۓ گا)“۔

اعلی حضرت لکھتے ہیں

”امام شہاب قرآنی مالکی نے تصریح فرماٸی کہ کفار کے لۓ دعاۓ مغفرت کرنا کفر ہے،کہ اللہ نے جو خبر دی اس کا جھوٹا کرنا چاہتا ہے،(ساتھ ہی رد المختار کا حوالہ دیا کہ)اس کی دعا کفر ہے کیونکہ یہ عقلاً و شرعاً ناجاٸز ہے اس میں نصوص قطعیہ کی تکذیب ہے“۔

(فتاویٰ رضویہ جلد 29،صحفہ نمبر 739،740)

اس سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ جو بندہ کافر کے لۓ دعاۓ مغفرت کرے وہ خود کافر ہو جاتا ہے تو جو بندہ کافر کو ”رضی اللہ تعالیٰ عنہ“ کہے گا وہ تو اس سے بھی بڑا کافر ہوا کیونکہ اس سے اللہ کے حکم کو وہ جھٹلا رہا ہے کہ اللہ نے کافر کے لۓ دعاۓ مغفرت کرنے سے منع کیا،اور بندہ دعاۓ مغفرت کے ساتھ ساتھ ”رضی اللہ“ کہہ رہا ہے۔

تو جو بندہ ابوطالب کو کافر کہنے والے کو کافر کہے وہ بندہ خود کافر ہے۔

اور اعلیٰ حضرت نے لوگوں کے دلاٸل کا رد فرمایا کہ ابوطالب مسلمان نہیں تھا۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ ابوطالب نے نبیﷺ کی پرورش کی تو وہ مسلمان ہے۔

اس کے جواب میں اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:

”نبی کی کفالت کرنا مستلزم اطاعتِ نبی نہیں (اور پھر فرعون کا حضرت موسیٰ کی پرورش کا ذکر فرمایا کہ) تو اسے اٹھا لیا فرعون کے گھر والوں نے کہ وہ ان کا دشمن اور ان کا غم ہوا“پھر فرماتے ہیں،جب ابوطالب کا کفر پر مرنا قرآن و حدیث سے ثابت ہے تو اب اگلے قصے سنانا گزشتہ کفالت سے دلیل لانا محض ساقط،نبیﷺ نے فرمایا کوٸی شخص جنتیوں کے کام کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس میں اور جنت میں صرف ایک ہاتھ کا فرق رہ جاتا ہے تو وہ دوزخیوں کے کام کر کے دوزخی ہو جاتا ہے“۔اور پھر روایات نقل کیں کہ اللہ بعض اوقات اپنے دین کی مدد ایسے لوگوں سے بھی لیتا ہے جو خود اہل اسلام نہیں ہوتے“۔

(فتاویٰ رضویہ،جلد 29،صحفہ نمبر 206 تا 209)


اس سب سے پتہ چلتا ہے کہ ابوطالب کا نبیﷺ کی کفالت کرنا یہ سب اب فضول ہیں،کیونکہ نبیﷺ نے فرمایا ایک بندہ جنتیوں والے کام کرتا رہتا ہے اور ایک ہاتھ کے فرق پر جہنمی ہو جاتا ہے۔

اب دیکھ لیں کہ ابوطالب ساری زندگی نبیﷺ کی خدمت کر کے جنتیوں والے کام کرتا رہا اور جب اس کے اور جنت کے درمیان بس موت کا فرق تھا تو تب اسلام قبول کرنے سے انکار کر کے جہنمی ہو گیا۔

اور اعلیٰ حضرت،ابوطالب کے ان اموار کے بارے میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ

”ان اموار(کفالت وغیرہ) سے ایمان ثابت نہیں ہوتا،کاش یہ افعال و اقوال ان سے حالت اسلام میں صادر ہوتے تو سیدنا عباس بلکہ ظاہراً سیدنا حمزہ سے بھی افضل قرار پاتے،آیات قرآنیہ و احادیثِ صحیحہ متوافرہ سے ابوطالب کا کفر پر مرنا اور دم واپسیں ایمان لانے سے انکار کرنا اور عاقبت کار اصحاب نار سے ہونا ایسے روشن ثبوت سے ثابت جس سے کسی سُنی کو مجالِ دم زدن نہیں“۔

(فتاویٰ رضویہ،جلد 29،صحفہ نمبر 652 تا 662)


اس سے بھی ثابت ہو گیا کہ ابوطالب کا کفر پر مرنا اور جہنمی ہونا روزِ روشن کی طرح ثابت ہے اور کسی سُنی کو اس پر کچھ کہنے کی ہمت نہیں۔

اب آتے ہیں کہ کیا ابوطالب کو باقی جہنمیوں کی طرح کہہ سکتے ہیں یا ابولہب یا ابلیس کی مثل کہہ سکتے ہیں یا نہیں ؟

تو اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں

”ابو لہب و ابلیس کی مثل کہنا محض زیادتی ہے ابوطالب کی عمر خدمت و کفالت میں گزری اور اس کا عذاب بھی باقیوں جیسا نہیں کیونکہ اس کے صرف پیر آگ میں ہیں“۔

(فتاویٰ رضویہ،جلدی 29،صحفہ نمبر 741)


اس سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ ابوطالب کے کافر و جہنمی ہونے کے باوجود اس پر ”ہم“ لعنت نہیں کر سکتے اور نہ ہی اس کو ابولہب و ابلیس کی طرح کہہ سکتے ہیں۔

اور ابوطالب پر لعنت کے ساتھ ساتھ اس کا ادب بھی نہیں کر سکتے اور یہ ہم اوپر دلاٸل سے ثابت کر چکے۔

اگر کوٸی شخص ابوطالب کے کافر مرنے پر اجماع امت پڑھنا چاہتا ہے تو فتاویٰ رضویہ،جلد 29 کے صحفہ نمبر 742 سے لے کر صحفہ نمبر 749 تک پڑھ لے اس میں اعلیٰ حضرت نے امت کا اجماع نقل کر دیا ہے کہ ابوطالب کے کفر پر مرنے پر اجماع ہے۔

ابوطالب کا مسلمان ہونا کسی صحیح دلیل سے ثابت نہیں۔

اور جو اس کو مسلمان سمجھے اور اس کے لۓ دعاۓ مغفرت یا اس کو ”رضی اللہ“ کہے اور ابوطالب کو مسلمان نہ ماننے والوں کو کافر کہے وہ خود کافر ہے۔

کیونکہ”من شك فى كفره وعذابه فقد كفر“۔

تحقیق ازقلم:مناظرِ اسلام محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی

Post Comments

Powered by Blogger.