کیا حضرت عمرؓ نے حضرت علیؓ کا گھر جلانے کی دھمکی دی ؟

 کیا حضرت عمرؓ نے حضرت علیؓ کا گھر جلانے کی دھمکی دی ؟


السلام علی من اتبع الھدیٰ

آج کی اس پوسٹ میں ہم شیعہ کی طرف سے ہونے والے ایک اعتراض کا مدلل جواب دیں گے۔

شیعہ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ،حضرت علیؓ کے گھر گۓ اور وہاں جا کر اوبکر صدیقؓ کی بیعت کرنے کا کہا اور یہ بھی کہا کہ اگر بیعت نہ کی تو اس گھر کو آگ لگا دوں گا۔

دلیل میں شیعہ تاریخ طبری میں موجود ایک روایت سناتے ہیں۔

کہ زیاد بن کلیب سے مروی ہے کہ حضرت عمرؓ،علیؓ کے مکان پر آۓ وہاں طلحہؓ،زبیرؓ اور بعض دوسرے مہاجرین تھے،حضرت عمرؓ نے کہا چل کر بیعت کرو ورنہ اس گھر کو آگ لگا دوں گا،زبیرؓ تلوار نکال کر عمرؓ کی طرف بڑھے مگر فرش پر پاٶں الجھنے کی وجہ سے گِر گۓ اور تلوار ہاتھ سے چھوٹ گٸ تو لوگوں نے فورا زبیر پر یورش کر کے ان کو قابو میں کر لیا۔

(تاریخ طبری اردو،جلد 2،حصہ 1،صحفہ نمبر 405)



جیسا کہ سبھی کو معلوم ہے کہ اردو ترجمے میں اسناد نہیں لگاٸی گٸیں اس لۓ میں ساتھ میں عربی نسخہ بھی لگا دیتا ہوں تاکہ سند معلوم ہو سکے،لیکن اگر مکمل سند نہ بھی لگاٸی جاۓ تو بھی یہ روایت ضعیف ثابت ہو رہی ہے لیکن میں سند لگا کر اس کا مکمل ضعف بیان کرتا ہوں۔

عربی نسخے میں سند کچھ یوں ہے کہ

”حدثنا ابن حمید(محمد بن حمید) قال حدثنا جریر عن مغیرہ بن مقسم عن زیاد بن کلیب قال..............“

(ضعیف تاریخ طبری،جلد 8،صحفہ نمبر 15)



تو یہ تھی اس روایت کی سند۔اور مکمل سند ہی علتوں سے بھری پڑی ہے۔

پہلا راوی ابن حمید جو کہ محمد بن حمید رازی ہے اس کے حالات ملاحظہ فرماٸیں۔

امام ذھبی نے میزان میں اس کا تذکرہ کیا ہے اور اس کے بارے میں تفصیل سے لکھتے ہیں کہ

”یہ ضعیف ہے،یعقوب بن شیبہ کہتے ہیں اس نے بکثرت منکر روایات نقل کی ہیں،امام بخاری کہتے ہیں اس میں غور و فکر کی گنجاٸش ہے،امام ابوزرعہ نے اسے جھوٹا قرار دیا ہے،فضلک رازی کہتے ہیں میرے پاس محمد بن حمید کے حوالے سے پچاس ہزار احادیث منقول ہیں لیکن میں اُن میں سے ایک حرف بھی روایت نہیں کرتا،علی بن مہران کہتے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ جھوٹا ہے،صالح جزرہ کہتے ہیں کہ میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ یہ جھوٹ بولتا ہے اور میں نے اس سے زیادہ اللہ کے بارے میں جرأت کرنے والا کوٸی شخص نہیں دیکھا،یہ حدیثیں حاصل کرتا تھا اور پھر ان کو ایک دوسرے کے ساتھ تبدیل کر دیتا تھا۔ابن خزیمہ کہتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل نے اس کی تعریف اس لۓ کی کیونکہ وہ اس سے واقف نہیں تھے اور اگر وہ اس سے واقف ہوتے تو کبھی بھی اس کی تعریف نہ کرتے“۔

(میزان الاعتدال،جلد 6،صحفہ نمبر 148)



جیسا کہ آپ نے دیکھا یہ راوی کذاب ہے اور اس پر جرح مقدم ہے اس لۓ اس کی روایت کو ماننا جاٸز نہیں۔

اس کی سند میں دوسری علت مغیرہ بن مقسم کا مدلس ہونا اور ”عن“سے روایت کرنا ہے۔

اس کی سند میں راوی مغیرہ بن مقسم ہے جو کہ ”عن“ سے روایت کر رہا ہے ”مغیرہ عن زیاد بن کلیب“۔

یہ راوی مدلس ہے اور درجہ سوم کا مدلس ہے امام ابن حجر نے اس کو مدلسین کے درجہ سوم میں شمار کیا اور اس درجے کے مدلس کی ”عن“ والی روایت تب تک قابل قبول نہیں جب تک سماع کی تصریح نہ کرے۔

(تقریب التہذیب،جلد 2،صحفہ نمبر 206)

(تعریف اھل التقدیس،صحفہ نمبر 46)



اس کی تیسری علت زیاد بن کلیب کا بلاواسطہ روایت کرنا ہے کہ حضرت عمرؓ نے ایسا کیا،حالانکہ زیاد بن کلیب نے کسی صحابی کی زیارت نہیں کی جیسا کہ امام ابن حجر کہتے ہیں۔

امام ابن حجرؒ نے اس کو چھٹے طبقے کے رایوں میں شمار کیا اور اس درجے کے راویوں کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ وہ حضرات ہیں جنہوں نے کسی صحابی کی زیارت نہیں کی۔

(تقریب التہذیب،جلد 1،صحفہ نمبر 13 اور 287)



اور اس وجہ سے اس روایت کا ”معضل“ ہونا حواشی میں بھی لکھا گیا ہے۔

عربی نسخہ میں دیکھیں اس کو بیان کرنے کے بعد حواشی میں لکھا گیا ہے کہ اس کی اسناد ”معضل“ ہیں یعنی تابعی کا واسطہ حذف کیا گیا ہے۔اور معضل روایت ضعیف ہوتی ہے اور ویسے بھی تخریج کرتے ہوۓ اس روایت کو ”ضعیف تاریخ طبری“ میں نقل کیا گیا ہے۔

تو ثابت ہوا کہ اس روایت کی ساری کی ساری سند ہی ضعیف ہے اور یہ روایت منگھڑت ہے نہ ہی ایسا واقعہ کبھی ہوا نہ ہی کسی صحیح سند سے یہ بات ثابت ہے۔اس لۓ اس سے استدلال جاٸز نہیں۔

دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو حق سننے و سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ اور اللہ شیعوں کو بھی ہدایت عطا فرماۓ جو لوگوں کو منگھڑت باتیں سنا سنا کر گمراہ کر رہے ہیں۔

تحقیق ازقلم:مناظرِ اسلام محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی

Powered by Blogger.