اسلام پر مسیحیوں کا اعتراض اور اس کا جواب

 اسلام میں مرتد کی سزا اور امن ؟


السلام علی من اتبع الھدیٰ

میں نے فیسبک پر ایک بچے کی پوسٹ دیکھی جس میں وہ اسلام پر سوال اٹھا رہا ہے کہ

”اگر اسلام امن کا مذہب ہے تو پھر مسلمان اس شخص کو قتل کیوں کر دیتے ہیں جو اسلام کو چھوڑ کر مسیحیت میں داخل ہو جاۓ ؟“



تو میں بتاتا چلوں کہ اگر کوٸی مسلمان اسلام کو چھوڑ کر کسی بھی دوسرے مذہب میں داخل ہو جاۓ تو اسے قتل کر دیا جاۓ گا،صرف مسیحیت اختیار کرنے والے کو ہی قتل نہیں کیا جاۓ گا۔


اور یہ ہماری شریعت کا حکم ہے کہ جو شخص اسلام چھوڑ کر کسی دوسرے مذہب کو اختیار کرے(یعنی مرتد ہو جاۓ) تو اسے قتل کر دیا جاۓ۔


حضرت عثمان بن عفانؓ فرماتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا”کسی مسلمان شخص کا خون بہانا جاٸز نہیں مگر تین جراٸم میں سے کسی ایک کی بنا پر:جو شخص شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کرے اس پر رجم(قتل)کی سزا ہے،جو شخص کسی کو جان بوجھ کر ناحق قتل کر دے تو اسے قصاصاً قتل کر دیا جاۓ گا،اور جو شخص اسلام لانے کے بعد مرتد ہو جاۓ تو اسے بھی قتل کر دیا جاۓ“۔

(سنن نساٸی حدیث نمبر 4062)



اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف تین طرح کے مسلمانوں کو قتل کرنے کی اجازت ہے ایک وہ جو شادی کے بعد زنا کرے دوسرا وہ جو کسی کو ناحق قتل کرے اور تیسرا وہ مسلمان جس نے اپنا دین ہی بدل لیا۔


اور اس کے ساتھ دوسری جگہ روایت ہے کہ

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا”جو شخص اپنا دین بدل لے(یعنی اسلام چھوڑ کر کوٸی دوسرا دین اختیار کر لے) اسے قتل کر دو“۔

(سنن نساٸی حدیث نمبر 4064)


تو جو شخص دین بدلتا ہے وہ شریعت سے منہ موڑتا ہے اور شریعت کے حکم کو نہیں مانتا اس لۓ اس کی سزا قتل ہے۔


شریعت کے حکم کو نہ ماننے والی کی سزا قتل ہے اور یہ بات مسیحیوں کی اپنی شریعت میں بھی لکھی ہوٸی ہے۔


اگر یہ بچہ باٸبل کو خود پڑھتا تو یہ اعتراض نہ کرتا۔


باٸبل میں لکھا ہے کہ

”موسیٰ نے بنی اسراٸیل کی ساری جماعت کو جمع کیا اور ان سے کہا کہ وہ باتیں جنہیں کرنے کا خداوند نے حکم دیا ہے وہ یہ ہیں کہ چھ دن کام کاج کیا جاۓ لیکن ساتواں دن تمہارے لۓ مقدس ہوگا یعنی خداوند کے آرام کا دن،اور جو کوٸی اس دن کچھ کام کرے گا وہ مار ڈالا جاۓ گا“۔

(تورات،خروج کی کتاب،باب35،آیت1،2)



اس سے پتہ چلتا ہے کہ باٸبل میں بھی اس شخص کو قتل کرنے کا حکم ہے جو خداوند کی نافرمانی کرے اور شریعت کے حکم کو نہ مانے،کیونکہ ساتویں دن خدا نے کام کرنے سے منع کیا تو موسی نے کہا جو اس دن خدا کے حکم کی نافرمانی کر کے کام کرے اسے قتل کر دیا جاۓ۔


اس کے بعد ہم آتے ہیں کہ باٸبل مرتد کے بارے میں کیا کہتی ہے۔


موسیٰ نے اپنی قوم کو خطاب کرتے ہوۓ کہا کہ

”اگر تمہارا سگا بھاٸی،تمہارا بیٹا،بیٹی یا تمہاری چہیتی بیوی یا تمہارا گہرا دوست تم کو ورغلاۓ کہ چلو ہم اور معبودوں کی پرستش کریں(یعنی خداوند کو چھوڑ کر کسی اور کی)تو تم اس کی بات نہ ماننا اور اس پر ترس بھی نہ کھانا بلکہ اسے قتل کر دینا کیونکہ اس نے تم کو خداوند سے دور کرنا چاہا“۔

(تورات،استثنا کی کتاب،باب12،آیت10تا6)



پس ثابت ہوا کہ باٸبل کی تعلیمات کے مطابق بھی مرتد کی سزا قتل ہے کیونکہ جو بندہ مرتد کرنے کی کوشش کر رہا ہے باٸبل نے اسے بھی قتل کرنے کا حکم دیا ہے تو جو بندہ مرتد ہو جاۓ گا اسے تو قتل کرنا لازمی ہو گا۔کیونکہ وہ خداوند سے دور ہو گیا۔


اور باٸبل نے ہر اس شخص کو قتل کرنے کا بھی حکم دیا ہے جو خداوند کو نہیں مانتا۔


باٸبل کہتی ہے

”اور جو کوٸی کیا چھوٹا کیا بڑا کیا مرد کیا عورت خداوند اسراٸیل کا طالب نہ ہو قتل کیا جاۓ“۔

(عہد نامہ قدیم،2تواریخ،باب15،فقرہ13)



اس سے تو یہاں تک ثابت ہوتاہے کہ باٸبل کہتی ہے کہ ہر اس شخص کو قتل کر دیا جاۓ جو خداوند کو نہیں مانتا۔اور یہ لوگ ہیں کہ اسلام کے امن والا دین ہونے پر انگلی اٹھاتے ہیں۔


ہم بتاتے ہیں کہ مسیحیت کتنا امن والا مذہب ہے،اس لڑکے نے خود باٸبل کو نہیں پڑھا اسی لۓ یہ پوسٹ کی،اگر اس نے باٸبل کو پڑھا ہوتا تو اسلام کے امن والا مذہب ہونے پر انگلی اٹھانے کی بجاۓ اپنے مذہب پر ندامت کر رہا ہوتا۔


یسوع نے لوگوں سے کہا

”تم یہ نہ سمجھو کہ میں دنیا میں امن قاٸم کرنے آیا ہوں بلکہ میں تو تلوار چلانے آیا ہوں،اور اس بات کو پورا کرنے آیا ہوں کہ ایک شخص ایسا ہے کہ اس کے گھر والے ہی س کے دشمن ہوں گے،بیٹا باپ کے خلاف بیٹی ماں کے خلاف اور بہو ساس کی دشمن ہو گی“۔

(متی کی انجیل،باب10،آیت36تا34)



موجودہ باٸبل کا یسوع کہہ رہا ہے کہ میں دنیا میں امن قاٸم نہیں کرنے آیا بلکہ گھر والوں کو ایک دوسرے کے خلاف کرنے آیا ہوں۔


ایک اور جگہ پر لکھا ہے کہ

”یسوع نے تقریر کرتے ہوۓ کہا میں اس دنیا کو آگ لگانے آیا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ آگ جلتی رہے،(پھر کہا)کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں دنیا میں امن قاٸم کرنے آیا ہوں ؟ نہیں بلکہ میں دنیا مں تفرقہ پیدا کرنے آیا ہوں،آج سے جس گھر میں پانچ افراد ہوں ان میں اختلاف پیدا ہو گا،اور ان میں سے تین دو کے خلاف اور دو تین کے خلاف رہیں گے“۔

(لوقا کی انجیل،باب12،آیت52تا49)



یہ ہے اس مذہب کی حقیقت کے ان کی کتاب کے مطابق ہی ان کا خدا کہہ رہا ہے کہ میں دنیا میں امن قاٸم نہیں کرنا چاہتا بلکہ آگ لگانا چاہتا ہوں اس دنیا کو۔

اپنے خدا کے امن قاٸم نہ کرنے کی وجہ سے ہی مسیحی ہر وقت اسلام پر امن امن کا اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ اسلام میں امن نہیں ہے۔


ہم ان کو یہی کہیں گے کہ جناب پہلے اپنے مذہب کو پڑھ لو کہ تمہارا مذہب امن کی تعلیم دیتا ہے یا دہشتگردی کی ؟پھر آنا اسلام پر انگلی اٹھانے


دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو حق سننے سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ اور اس فتنہِ مسیحیت سے محفوظ فرماۓ(آمین)


تحقیق ازقلم:مناظرِ اسلام محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی

Powered by Blogger.