سحری اور نماز کے وقت میں فرق

 سحری اور نماز کے وقت میں فرق:


اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

آج کی اس پوسٹ میں ہم ایک فیسبکی محقق صاحب کی پوسٹ کا علمی جواب بیان کریں گے۔

جناب اپنی پوسٹ میں یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ سحری تب تک کھا سکتے ہیں جب تک سورج کی روشنی نمازِ فجر کے وقت کو پہنچ جاۓ۔


پوسٹ کا عنوان تو جناب نے یہی باندھا ہے لیکن مجھے اس پوسٹ میں بیان کی گٸ تینوں عبارات میں سے ایک میں بھی سحری سورج کی روشنی میں کرنے کا ذکر نہیں ملا۔


پوسٹ ملاحظہ فرماٸیں:





جناب کی پہلی دلیل کچھ یوں ہے کہ

”یہ لوگ:ابوبکر،عمر،علی،ابن عمر،ابن عباس،ابو ہریرہ،ابن مسعود،حذیفہ،ان کے چچا خبیب،زید بن ثابت،سعد بن ابی وقاص اور یہ گیارہ صحابہ ہیں ان کا کوٸی صحابہ میں سے مخالف نہیں“۔


اس عبارت کے اوپر جناب نے یہ لکھا ہے کہ ”ابن حزم نے ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جو روشنی میں سحری کرتے ہیں“


جناب ہمیں تو اس عبارت میں ایسا کچھ نہیں نظر آیا کہ یہ صحابہ سحری روشنی میں کیا کرتے تھے،نہ ہی عربی متن میں ایسا کچھ نظر آیا نہ ہی آپ کے لکھے ہوۓ ترجمے میں۔اگر کسی دوست کو ایسا کچھ نظر آۓ جو موصوف کہہ رہے ہیں تو براۓ کرم مجھے بھی دکھاٸیے گا۔


دوسری دلیل ابراہیم نخعی کا قول نقل کرتے ہیں کہ

”اصحابِ محمدﷺ کسی چیز پر ایسے جمع نہیں ہوۓ جیسے وہ فجر کو روشنی میں پڑھنے پر جمع ہوۓ“۔


اس روایت میں بھی ہمیں سحری روشنی میں کرنے کا ذکر نہیں ملا ناجانے موصوف کو کون سی آنکھیں عطا کی گٸ ہیں کہ جو ہے ہی نہیں ان کو وہ بھی نظر آرہا ہے۔

جبکہ یہ روایت امام ابن ابی شیبہ فجر کو سورج کی روشنی میں پڑھنے کے باب میں لاۓ ہیں اور اس میں کہیں بھی سحری کا ذکر نہیں جیسا کہ آپ نیچے کتابی سکین ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔



تیسری دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ

”ہشام کہتے ہیں میں اور ابراہیم نخعی سحرا میں تھےاور فجر کا وقت ہو گیا تو میں نے ان سے کہا آپ نے فجر کی نماز ادا نہیں کرنی ؟ تو انہوں نے کہا روشنی میں۔(یہ دو بار کہا گیا)“


تو یہ تھی تیسری اور آخری دلیل جس میں بھی سحری کا دور دور تک کوٸی ذکر ہی نہیں تھا۔



اگر کسی دوست کو ان تینوں عبارات میں سے ایک میں بھی سحری کا ذکر مل جاۓ تو مجھے بھی دکھایے گا۔


اب آتے ہیں ہم ان کے دعوے کے علمی رد کی طرف کہ سحری کا وقت کب ختم ہوتا ہے۔


نبیﷺ کی سحری اور نماز کے درمیان بہت وقفہ ہوا کرتا تھا جیسا کہ بخاری میں روایت کیا گیا ہے کہ


”حضرت انسؓ حضرت زید بن ثابتؓ سے نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام نے نبیﷺ کے ساتھ سحری کی پھر وہ سب نماز کے لیے کھڑے ہو گۓ۔حضرت انسؓ نے پوچھا کہ سحری اور نماز کے درمیان وقفہ کتنا تھا تو انہوں نے فرمایا جس قدر پچاس یا ساٹھ آیات پڑھی جاٸیں“۔

(صحیح بخاری حدیث نمبر 575)



اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبیﷺ اور صحابہ سحری کے بعد کم سے کم پندرہ یا بیس منٹ تک نماز نہیں پڑھتے تھے کیونکہ 50 یا 60 آیات اگر آرام سے پڑھی جاٸیں تو 20 منٹ تو لگ ہی جاتے ہیں۔


اور دوسری دلیل ملاحظہ فرماٸیں کہ آذان شروع ہوتے ہی سحری کا وقت ختم ہو جاتا ہے


”حضرت عبداللہ ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا بلال رات کو آذان دیتا ہے اس لۓ کھاٶ اور پیو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم آذان دیں“۔

(صحیح بخاری حدیث نمبر 620)



اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آذان شروع ہوتے ہی سحری کا وقت بھی ختم ہو جاتا ہے کیونکہ نبیﷺ نے صحابہ کو آذان ہونے تک کھانے کی اجازت عطا فرماٸی۔


اور حضرت بلال کی آذان کی تفصیل بخاری میں ہی موجود ہے کہ حضرت بلال جلدی اس لۓ آذان دیتے تھے کہ جو لوگ عبادات کر رہے ہیں وہ آرام کر لیں اور باقی لوگ ہوشیار ہو جاٸیں گے نماز کا وقت ہونے والا ہے(بخاری حدیث نمبر 7247)


تو ثابت ہوا کہ سحری کا وقت آذان ہونے تک ہے اور آذان فجر کی نماز سے پچیس تیس منٹ پہلے ہو جاتی ہے اس لۓ سورج کی روشنی ظاہر ہونے پر سحری بند کرنے سے روزہ نہیں ہوتا کیونکہ آذان ہوتی ہی تب ہے جب سحری کا وقت ختم ہو جاۓ۔

اور جناب کو ہم نے فیسبک پر ہی یہ تمام جوابات دیے جس پر انہوں نے کوٸی دلیل دینے کی بجاۓ ہمیں بلاک کر دیا اور ہمارے کمیٹس ڈلیٹ کر دیے۔


دعا ہے کہ اللہ ہمیں مساٸل سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ اور لوگوں کو غلط قیاس کر کے خود گمراہ ہونے اور دوسروں کو گمراہ کرنے سے محفوظ فرماۓ۔(آمین)


تحقیق ازقلم:محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی

Powered by Blogger.