کیا یسوع خدا کا بیٹا ہے ؟

 یسوع خدا کا بیٹا ؟

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
آج کی اس پوسٹ میں ہم مسیحی حضرات کے ایک دعوے کا مفصل جواب دیں گے۔
مسیحی حضرات اکثر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انجیل میں یسوع کو کئی جگہوں پر خدا کا بیٹا اور خدا کہا گیا ہے۔
ان کی دلیل کچھ اس طرح کی ہے کہ
”جب یسوع بپتسہ لے کر پانی سے اوپر آیا تو آسمان کھل گیا اور یسوع نے اپنے اوپر خدا کی روح کو کبوتر کی شکل میں اترتے دیکھا۔تب آسمان سے ایک آواز آئی کہ یہ(یسوع) میرا چہیتا بیٹا ہے اور اس سے میں بہت خوش ہوں۔“
(متی کی انجیل باب نمبر 3 آیت 16،17)

ان آیات کو پیش کر کے مسیحی کہتے ہیں کہ انجیل نے یسوع کو خدا کا بیٹا کہا ہے تو یسوع سب سے افضل ہے۔
اب ایک بات میں واضح کرتا چلوں کہ مسیحی کتب (تورات،زبور اور انجیل) کی تعلیمات سے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ ان تعلیمات میں کسی کو خدا یا خدا کا بیٹا کہنا کوئی خاص فضیلت نہیں ہے۔جو کہ میں ان شاء اللہﷻ آگے ثابت کروں گا۔
اب جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ انجیل میں یسوع کو خدا کا بیٹا کہا گیا ہے۔
تو اب آپ ملاحظہ فرمائیں کہ ان کتب میں اور کس کس کو خدا اور خدا کا بیٹا کہا گیا ہے۔اور اس کے کیا معنی ہیں۔
عہدنامہ قدیم،زبور باب نمبر 82 کی آیت نمبر 6 ملاحظہ فرمائیں
خدا عام انسانوں سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ
”تم سب خدا ہو،اور سب سے عظیم خدا کی اولاد ہو“۔
"I(God) have said,Ye are gods,and all of you are Children of the most High".

جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ مسیحی تعلیمات کے مطابق ہر عام انسان خدا ہے اور خدا کا بیٹا ہے۔
اور ہم اس بات کی تصدیق آگے یسوع کی زبان سے بھی کریں گے۔
ایک اور آیت ملاحظہ فرمائیں
”تب خدا نے موسیٰ سے کہا کہ دیکھ میں نے تجھے فرعون کے لیے گویا خدا ٹھہرایا ہے اور تیرا بھائی ہارون تیرا پیامبر ہوگا“۔
(عہدنامہ قدیم،تورات،خروج،باب نمبر 7 آیت نمبر 1)

اس آیت میں خدا موسیٰ کو بھی خدا کہہ رہا ہے لیکن ہمیں آج تک ایسا کوئی مسیحی نہیں ملا جو موسیٰ کو یسوع سے زیادہ افضل یا یسوع کے برابر سمجھتا ہو۔
اب ہم آتے ہیں یسوع کی زبان سے اس بات کی تصدیق کی طرف کہ عام انسانوں کو خدا کہا گیا۔
(جب یہودیوں نے یسوع کو اس بات پر پتھر مارنے شروع کیے کہ یسوع خود کو خدا کہتا ہے تو یسوع نے یہودیوں سے کہا)
یسوع نے جواب دیا ”یہ تمہاری شریعت میں لکھا ہے میں (خداوند) نے کہا کہ ””تم (تمام عام انسان) خدا ہو““۔
(یوحنا کی انجیل،باب نمبر 10 آیت نمبر 34)

تو جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ یسوع یہودیوں کے سامنے حجت قائم کر رہا ہے کہ تمہاری کتاب میں تم کو بھی تو خدا کہا ہے گیا ہے تو پھر جب میں نے خود کو خدا کہا تو تم مجھے کیوں مار رہے ہو ؟
یہاں تک یہ ثابت ہو گیا کہ مسیحی تعلیمات میں خدا کا لفظ کسی خاص فضیلت کو ظاہر نہیں کرتا۔
اب میں یہ واضح کروں گا کہ ان تعلیمات کے مطابق خدا ہونا یا خدا کا بیٹا ہونا کس مقصد کے لئے کہا جاتا ہے۔
لیکن اس سے پہلے میں ایک اور چیز دکھاتا چلوں کہ انجیل میں شیطان کو بھی خدا کہا گیا ہے بلکہ پورے جہاں (کائنات) کا خدا کہا گیا ہے۔
عبارت کچھ یوں ہے
”یعنی ان بے ایمانوں کے واسطے جن کی عقلوں کو ””اس جہاں کے خدا““ نے اندھا کر دیا ہے مسیح جو خدا کی صورت ہے اس کے جلال کی خوشخبری کی روشنی ان پر نہ پرے،تاکہ وہ دیکھ نہ سکے“۔
(عہدنامہ جدید،کرنتھیوں2 باب نمبر 4 آیت نمبر 4)

انجیل یہاں شیطان کو پوری کائنات کا خدا کہہ رہی ہے۔
اور یہاں اس جہاں کے خدا کے مراد شیطان ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ مسیح کے جلال کی روشنی لوگوں تک پہنچے۔
اور یہ بات میں خود سے نہیں کہہ رہا کہ یہاں خدا سے مراد شیطان ہے بلکہ مسیحیوں کی تفسیر کی رو سے ہی کر رہا کوں۔
عہد نامہ جدید کا انگلش ترجمہ نیچے میں نے لگایا ہے وہ دیکھیں کہ آیت یوں ہے۔
"In whome the god of this world hath blinded the minds of them which believe not,lest the light of the glorious gospel of Christ,who is the image of God,Should shine unto them".
اب اس آیت میں god of this world سے مراد نیچے حواشی میں "DEVIL" یعنی شیطان لکھا ہوا ہے۔

یعنی کہ مسیحی تعلیمات کے مطابق شیطان بھی خدا ہے اور تمام عام انسان بھی خدا ہیں۔
اب میں یہ وضاحت کروں گا کہ مسیحی تعلیمات کے مطابق لفظ ”خدا“ کا مطلب کیا ہے۔
ان تمام چیزوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مسیحی کتب میں خدا کا مطلب ایک تو یہ ہے کہ
جس کے ہاتھ میں قدرت ہے
اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ
جو خداوند کا پیغام لوگوں تک پہنچائے وہ خدا/خدا کا بیٹا ہے۔
پہلے مطلب کی دلیل یہی کرنتھیوں 2 باب 4 آیت نمبر 4 ہی ہے جس میں شیطان کو کائنات کا خدا کہا گیا
کیونکہ شیطان کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کائنات میں موجود کسی بھی شخص کو گمراہ کر سکتا ہے۔
اور دوسرے مطلب کی دلیل بھی اوپر گزر چکی کہ
موسیٰ کو فرعون کے پاس خدا بنا کر بھیجا کہ جا کر اس کو میرا پیغام سناوْ۔
اور یسوع نے بھی یہودیوں کو یاد کروایا کہ تم سب کو خدا کہا گیا
پھر یسوع نے کہا کہ
”جبکہ اس(خداوند) نے انہیں خدا کہا جن کے پاس خدا کا کلام آیا“۔
(یوحنا باب نمبر 10 آیت نمبر 35)
یسوع نے یہ بات واضح کر دی کہ جن کے پاس خدا کا کلام آیا ان کو خدا کہا گیا تاکہ وہ خدا کی تعلیمات آگے پہنچائیں اور اس پر عمل کریں۔
اور زبور میں بھی جہاں پر عام انسانوں کو خدا اور خدا کا بیٹا کہا گیا وہیں پر اس کا مقصد بھی بتایا گیا۔
چنانچہ وہیں پر آگے آیت نمبر 8 میں خداوند کہتا ہے کہ
اے خدا(یعنی عام انسان) اٹھ اور زمین کا انصاف کر، کیونکہ تمام قومیں تیری میراث ہیں۔
(عہدنامہ قدیم،زبور باب نمبر 82 آیت نمبر )
یہاں پر بھی خدا نے عام انسانوں کو خدا کہہ کر مخاطب کیا اور کہا کہ زمین میں انصاف کرو کیونکہ تمام قومیں تیری میراث ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کے پاس خدا کا کلام پہچا ہے وہ اس کو ان تمام لوگوں تک بھی پہنچائے جن کے پاس نہیں پہنچا۔
اور یہی سب مسیحی تعلیمات ہیں کہ جو کوئی خداوند کا حکم مانے اور اس کی تعلیمات دوسروں تک پہنچائے وہ خدا اور خدا کا بیٹا ہے۔
لیکن آج کل کے مسیحی حضرات یسوع کے لئے خدا یا خدا کا بیٹا کے الفاظ کو کسی اور ہی مقام پر لے جاتے ہیں۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ اگر خدا یا خدا کا بیٹا ہونے کے الفاظ کسی خاص فضیلت کے حامل ہیں تو تمام انسانوں کو بھی وہی مقام دیں کیونکہ آپ کی تعلیمات ہر انسان کو خدا اور خدا کا بیٹا کہتی ہیں۔

تحقیق ازقلم:مناظرِ اسلام محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی
Powered by Blogger.