میں اور باپ ایک ہیں ؟ بائبل کی کچھ آیات کی تشریح
میں اور باپ ایک ہیں ؟
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
آج کی اس پوسٹ میں ہم مسیحی حضرات کی طرف سے پیش کی جانے والی بائبل کی ایک آیت کی مکمل وضاحت کریں گے۔
آیت کچھ یوں ہے کہ
یسوع نے کہا ”میں اور میرا باپ ایک ہیں۔“
"I and my Father are one"
(یوحنا باب نمبر 10 آیت نمبر 30)
اس آیت کو پیش کر کے مسیحی حضرات یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یسوع ہی خدا ہے۔
جبکہ یہ مطلب بلکل ہی غلط ہے نا ہی آیت کے قرائن اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یسوع ہی خدا ہے نا ہی بائبل اس چیز پر دلالت کرتی ہے۔
اس آیت کے اصل سیاق و سباق (Contex) ہی کچھ اور ہیں۔
ہم کچھ آیات پیچھے چلتے ہیں کہ یہ یسوع نے کہا کس مقام پر۔
آیت نمبر 22 شروع کرنے پر ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مکمل ماجرہ کیا ہے۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ
جاڑے کا موسم تھا اور یروشلم میں عیدِ تجدید تھی۔یسوع گرجا کے ہیکل سلیمانی میں تھا۔یہودی یسوع کے اطراف جمع تھے اور انہوں نے کہا،کب تک تم ہمیں اپنے بارے میں تنگ کرتے رہو گے؟ اگر تم مسیح ہو تو ہمیں صاف صاف کہدو۔
یسوع نے جواب دیا میں تو تم سے کہہ چکا ہوں لیکن تم یقین نہیں کرتے میں اپنے باپ کے نام پر معجزہ دکھاتا ہوں وہ معجزے خود میرے گواہ ہیں کہ میں کون ہوں۔لیکن تم لوگ مجھ پر یقین نہیں کرتے کیوں کہ تم میری بھیڑ میں سے نہیں ہو۔میری بھیڑیں میری آواز پہچانتی ہیں میں انہیں جانتا ہوں اور وہ میرے ساتھ چلتی ہیں۔ میں اپنی بھیڑوں کو ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہوں اور وہ کبھی بھی ہلاک نہیں ہونگی اور کوئی بھی انہیں مجھ سے نہیں چھین سکتا۔ میرا باپ جس نے مجھے بھیڑیں دی ہیں وہ سب سے بڑا ہے۔ کوئی بھی آدمی میرے باپ کے ہاتھوں سے انہیں نہیں چھین سکتا۔ میرا باپ اور ہم ایک ہی ہیں۔
(یوحنا باب نمبر 10 آیات 22 تا 30)
ان آیات سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ یسوع نے یہ سب یہودیوں کے سامنے کہا اور اس جملے کا اصل مفہوم بھی اس سارے واقعے سے واضح ہوتا ہے کہ یسوع کے اس جملے کا مطلب یہ نہیں کہ میں ہی خدا ہوں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم دونوں کا مقصد ایک ہے اور ہمارے پاس ایک جیسی قدرت ہے۔
خدا بھی یہ چاہتا ہے کہ لوگ میری عبادت کریں اور یسوع بھی یہ چاہتا ہے کہ لوگ خداوند کی عبادت کریں اور اس کو مانیں۔
یسوع نے کہا ”خدا نے مجھے بھیڑیں دی ہیں اور کوئی انہیں مجھ سے چھین نہیں سکتا ،اور میرا باپ جس نے مجھے یہ بھیڑیں دی ہیں وہ سب سے بڑا ہے کوئی اس سے یہ بھیڑیں چھین نہیں سکتا“۔
(یوحنا باب 10 آیت نمبر 28،29)
پھر یسوع نے کہا میں اور میرا باپ ایک ہیں۔
"I and my Father are one"
(یوحنا باب 10 آیت نمبر 30)
ان تین آیات سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ یسوع اور خدا ذات(جسم) میں ایک نہیں ہے بلکہ مقصد ایک ہے قدرت ایک جیسی ہے۔کیونکہ نا ہی کوئی یسوع سے بھیڑیں چھین سکتا ہے اور نا ہی کوئی خدا سے۔
اس کو سمجھانے کے لئے ایک مثال دیتا ہوں کہ میرے والد صاحب بھی بزنس مین ہیں اور میں بھی بزنس مین ہوں۔
تو میں کہوں گا کہ
"I and my Father are one in Profession"
اس سے یہ ثابت ہوا کہ میں اور میرے والد کاروبار میں ایک ہی ہیں۔نا کہ جسم میں۔ہمارے پاس قدرت ایک جیسی ہی ہے جو وہ کر رہے ہیں وہی میں کر رہا ہوں۔
لیکن اگر ابھی بھی کوئی مسیحی سمجھ نہ پایا ہو تو زرا اور آگے چلتے ہیں اسی آیت نمبر 30 سے آگے کی چار آیات دیکھیں۔مفہوم یہ ہے کہ
جب یسوع نے یہ سب کہا تو یہودیوں نے یسوع کو پتھر مارنے شروع کر دیے تو یسوع نے کہا میں نے بہت سے اچھے کام کیے تو میرے کس اچھے کام کی وجہ سے تم مجھے پتھر مار رہے ہو ؟
تو یہودیوں نے کہا ہم تمہیں مارنا چاہتے ہیں اس لئے نہیں کہ تم نے اچھے کام کیے بلکہ اس لئے کہ تم خود کو خدا کہتے ہو۔
تب یسوع نے جواب دیا یہ تمہاری شریعت میں لکھا ہے کہ ”میں(خداوند) نے کہا کہ تم (تمام عام انسان) خدا ہو“۔
(یوحنا باب 10 آیت 31 تا 34)
جیسے ہی یسوع یہ کہتا ہے کہ تم لوگوں کو بھی خدا کہا گیا اسی وقت مسیحیوں کا دعویٰ زمین بوس ہو گیا کیونکہ اگر تو یسوع کا یہ کہنا کہ ”میں اور باپ ایک ہیں“ یہ اُسی معنی میں ہوتا جو معنی مسیحی حضرات سمجھتے ہیں تو یسوع کبھی بھی یہودیوں کو یہ نا کہتا کہ تم کو بھی خدا کہا گیا ہے۔
یسوع کا یہودیوں کو خدا کہنا ہی میرا اوپر بیان کردہ مطلب ثابت کر دیتا ہے کہ اس ایک ہونے کا مطلب وہی ہے جو میں نے بیان کیا۔
امید ہے کہ اس آیت کا مفہوم سمجھ آگیا ہو گا لیکن ہم پھر بھی کچھ اور آیات لگاتے ہیں جس سے یہ دعویٰ مکمل طور پر زمین بوس ہو جائے۔
یسوع اپنے 12 شاگردوں کے لئے دعا کرتے ہوے یوں کہتا ہے کہ
میں نے انہیں(شاگردوں کو) وہی جلال دیا جو تو نے مجھے دیا تھا،میں نے انہیں یہ جلال دیا تاکہ وہ ایک ہو سکیں جیسے تو اور میں ایک ہیں،(پھر کہا) میں ان میں ہوں اور تو مجھ میں ہے تاکہ وہ تمام بلکل ایک ہو جائیں۔
(یوحنا باب 17 آیت نمبر 22،23)
اس آیت سے بھی یہ مطلب کھل کر سامنے آ جاتا ہے کہ ایک ہونے سے مراد ایک جسم ہونا نہیں بلکہ سب کا مقصد ایک ہونا ہے۔
کیونکہ یسوع یہاں یہ کہہ رہا ہے کہ اے خدا تم نے جو جلال مجھے دیا وہ میں نے ان(شاگردوں کو) بھی دیا ہے تاکہ وہ سب بھی ایک ہو جائیں جیسے تو اور میں ایک ہیں۔
اس جملے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایک ہونے سے مراد سب کا مقصد ایک ہے کیونکہ یسوع نے اپنے شاگردوں کو اسی بات کی تعلیم دی کہ وہ خدا کا پیغام لوگوں تک پہنچائیں۔اور یہ بات یسوع نے ہی بیان کی۔
یسوع کہتا ہے کہ
میں ان لوگوں(اپنے شاگردوں) کے لئے دعا کرتا ہوں کہ ”جو ان کی تعلیمات سے مجھ پر ایمان لائے“،اے باپ میں دعا کرتا ہوں کہ تمام لوگ جو مجھ پر ایمان لائے ایک ہوں جس طرح تو مجھ میں ہے اور میں تجھ میں ہوں“۔
(یوحنا باب نمبر 17 آیت نمبر 20،21)
(نوٹ:مسیحیوں نے ترجمہ کرتے وقت یہ لکھا ہی نہیں کہ ”تُو(خدا)مجھ میں ہے“ جبکہ انگلش ترجمے میں یہ الفاظ موجود ہیں تو اس لئے میں نے نیچے انگلش ترجمہ بھی لگا دیا ہے تاکہ آپ دیکھ سکیں کہ واقعی یہ الفاظ موجود ہیں)
ان دو آیات سے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ یسوع کے شاگرد بھی لوگوں کو خدا کی تعلیمات بیان کرتے تھے اور پھر یسوع نے ان تمام لوگوں کے لئے بھی یہی دعا کہ وہ سب بھی ایک ہو جائیں جیسے خدا اور میں ایک ہیں۔
اب ان سب ایک جسم ہونا تو ممکن نہیں اور نہ ہی کوئی مسیحی ان سب کو ایک جسم مانتا ہے تو یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہاں سب کا مقصد ایک ہی ہے کہ خدا کی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچایا جائے۔
تو ہم نے الحَمْدُ ِلله یہ ثابت کیا کہ ”میں اور باپ ایک ہیں“ کا وہ مطلب ہرگز نہیں جو مسیحی حضرات بیان کرتے ہیں،لیکن اگر پھر بھی کوئی نہ مانے تو ہم یہیں کہیں گے کہ پھر آپ لوگوں میں 14 خداؤں کا عقیدہ ہونا چاہیے کیونکہ یسوع نے اپنے تمام شاگردوں کو،خود کو اور خدا کو ایک کہا۔لیکن ہمیں آج تک کوئی مسیحی نہیں ملا جو 14 خداؤں کا عقیدہ رکھتا ہو۔اس لئے مسیحی حضرات کو چاہیے کہ حق کو قبول کرنے کی کوشش کریں۔
تحقیق ازقلم:مناظرِ اسلام محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی