کیا قرآن کی کچھ آیات بکری کھا گٸ ؟

 قرآن کی کچھ آیات بکری کھا گٸ ؟

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
آج کی اس پوسٹ میں ہم اہلتشیع حضرات کی طرف سے کیے جانے والے ایک اعتراض پر بات کریں گے۔
اہلتشیع حضرات اپنا عقیدہ تحریف القرآن ثابت کرنے کے لۓ اہلسنت کی کتاب سے ایک روایت پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ دیکھو اس روایت کی رو سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن اپنی اصل حالت میں موجود نہیں۔
سب سے پہلے وہ روایت سناتا چلوں،روایت کچھ یوں ہے کہ
”حضرت عاٸشہؓ فرماتی ہیں کہ رجم کی آیت اور بڑی عمر کے آدمی کو دس بار دودھ پلانے کی آیت نازل ہوٸی اور میرے تخت تلے تھی،جب اللہ کے رسولﷺ کا وصال ہوا اور ہم آپﷺ کی وفات کی وجہ سے مشغول ہو گۓ تو ایک بکری اندر آٸی اور وہ کاغذ کھا گٸ۔(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1944)

یہ ہے وہ روایت جس کو پیش کرنے کے بعد اعتراض کیا جاتا ہے کہ قران مکمل موجود نہیں ہے۔
اب اس کی سند کی طرف چلتا ہوں،اس کی سند کچھ یوں ہے
”حدثنا ابوسلمة یحیی بن خلف ثنا عبدالاعلی عن محمد بن اسحاق عن عبداللہ بن ابو بکر عن عمرة عن عاٸشہ عن عبدالرحمن بن قاسم عن ابیہ عن حضرت عاٸشہؓ“
یہ ہے اس روایت کی سند،اس کی سند میں راوی ”محمد بن اسحاق بن یسار“ جو کہ حجت نہیں،اس کے حالات ذیل میں ملاحظہ فرماٸیں۔
علامہ حجر اس کے بارے فرماتے ہیں کہ ”یہ تدلیس کرتا تھا اور اس پر شیعہ قدری ہونے کا الزام ہے“۔(تقریب التہذیب جلد 2 راوی نمبر 5725)

یہ راوی تدلیس کرتا تھا یعنی مدلس تھا اور اہلسنت کے اصولِ حدیث کے مطابق مدلس راوی کی ”عن“ سے کی گٸ روایت ضعیف ہوتی ہے،اور اس روایت میں بھی محمد بن اسحاق ”عن“ سے ہی روایت کر رہا ہے۔
امام ذھبی نے اس کے حالات لکھتے ہوۓ کہا ہے ”یحیی بن معین کہتے ہیں یہ ثقہ ہے لیکن حجت نہیں،دارقطنی کہتے ہیں اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا،سلیمان تمیمی کہتے ہیں یہ کذاب ہے،امام احمد کہتے ہیں کہ بہت زیادہ تدلیس کرتا تھا،امام یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد بن اسحاق کذاب ہے،اس کو قدریہ فرقے سے ہونے کی وجہ سے کوڑے لگاۓ گۓ،یہ سیاہ خطاب لگاتا تھا،اس کا حافظہ بھی خراب ہو گیا تھا اور اس سے منکر روایات بھی منقول ہیں“۔(میزان الاعتدال جلد 6 راوی نمبر 7203)

تو جیسا کہ ثابت ہوا کہ یہ راوی حجت نہیں اور تدلیس کرنے کی وجہ سے روایت ضعیف ہے تو اس روایت سے کسی قسم کا استدلال لینا جاٸز نہیں۔
اگر بالفرض مان لیا جاۓ کہ ایسا ہوا اور قرآن کی یہ آیت بکری کھا بھی گٸ تھی تو بھی شیعہ کا استدلال ہی غلط ہے کہ قرآن اصل حالت میں موجود نہیں،کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ آخری آیت نہیں تھی جو وفات کے وقت نازل ہوٸی اور نبی ﷺ کا صحابہ کو بتاۓ بغیر ہی وصال ہو گیا،بلکہ نبی ﷺ پر جو آخری آیت نازل ہوٸی وہ سورة البقرة کی آیت نمبر 281 تھی۔
بخاری میں سورة البقرة کی اس آیت کی تفسیر کے باب میں امام بخاری نے حدیث نقل کی کہ ”حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا نبی ﷺ پر آخری جو آیت نازل ہوٸی وہ سود کے متعلق تھی“۔(بخاری حدیث نمبر 4544)

اور امام ابن کثیر نے بھی اس آیت کی تفسیر میں یہی فرمایا کہ یہی آیت نبی ﷺ پر سب سے آخر میں نازل ہوٸی۔(تفسیر ابن کثیر جلد 1 صحفہ نمبر 454 اردو)
اب جیسا کہ یہ ثابت ہوا کہ رجم اور بوڑھے آدمی کو دودھ پلانے کی آیت آخری آیت نہیں تھی جس پر یہ اعتراض کیا جاۓ کہ بکری کھا گٸ اور قرآن اصل حالت میں موجود نہیں،نبی ﷺ نے تمام صحابہ کو قرآن سنایا ہوا تھا تو سب کے سینوں میں محفوظ تھا ان میں مولا علی بھی شامل تھے اگر تو بکری کھا بھی گٸ تھی تو بھی یہ اعتراض بلکل بےجا ہے کیونکہ اس وقت بہت سارے حافظِ قرآن موجود تھے۔
اب ایک اور اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ آیت پھر قرآن میں شامل کیوں نہیں تو بتاتا چلوں کہ یہ آیت منسوخ ہو چکی تھی جس وجہ سے اسے قرآن میں لکھا نہیں گیا تھا،اس آیت کے منسوخ ہونے اور منسوخ ہونے پر کیے جانے والے اعتراضات پر الگ سے ایک پوسٹ بناٶں گا کیونکہ یہ پوسٹ زیادہ طویل ہو رہی ہے۔
تو ثابت ہوا کہ یہ حدیث اور ایسے تمام اعتراضات باطل ہیں۔
تحقیق ازقلم:محمد ذوالقرنین الحنفی البریلوی

Powered by Blogger.