تراویح کی کتنی رکعات ہیں ؟

 تعدادِ رکعات تراویح

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
رمضان المبارک شروع ہوتے ہی لوگ ایک مسٸلے پر بحث شروع کر دیتے ہیں کہ تراویح آٹھ رکعات نماز ہے یا بیس رکعات۔
آج کی اس پوسٹ میں ہم اسی مسٸلے پر صحابہ اکرامؓ اور آثار سے یہ جانیں گے کہ ان کا عمل بیس رکعات تراویح تھا یا آٹھ۔
صحابہ اکرامؓ میں سب سے پہلے حضرت عمرؓ سے دیکھتے ہیں کہ ان کا اس بارے کیا عمل تھا کیونکہ نبیﷺ کی وفات کے بعد انہوں نے ہی تراویح کو باجماعت دوبارہ شروع کروایا۔
جب حضرت عمرؓ نے لوگوں کو باجماعت تراویح ادا کرنے کا حکم دیا تو ساتھ ہی ان قاریوں کو یہ حکم دیا کہ لوگوں کو بیس رکعات تراویح پڑھاٸیں۔
جیسا کہ روایت ہے حضرت یحیی بن سعیدؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے ایک آدمی کو رمضان میں بیس رکعات تراویح پڑھانے کا حکم دیا۔(مصنف ابن ابی شیبہ جلد 2 حدیث نمبر 7764)
تو ثابت ہوا کہ نبیﷺ نے بھی لوگوں کو جب تراویح پڑھاٸی وہ بیس رکعات ہی تھی کیونکہ ان کا قاریوں کو یہ حکم دینا کہ بیس رکعات تراویح پڑھاٶ اس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نے نبیﷺ کا ہی عمل دوبارہ جاری کروایا۔
اسی طرح حضرت علیؓ نے قاری کو کو بیس رکعات تراویح پڑھنے کا حکم دیا۔
جیسا کہ حضرت ابوالحسناؒ فرماتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے ایک آدمی کو رمضان میں بیس رکعات تراویح پڑھانے کا حکم دیا۔(مصنف ابن ابی شیبہ جلد 2 حدیث نمبر 7763)


ابوالحصیب فرماتے ہیں کہ حضرت سوید بن غفلہؓ رمضان میں ہماری امامت کرواتے تھے اور پانچ مرتبہ میں بیس رکعات پڑھاتے تھے۔(سنن الکبریٰ بیہقی جلد 3 صحفہ حدیث نمبر 4619الف)
جیسا کہ ہم صحابہ اکرامؓ سے یہ دکھا چکے کہ ان کے دور میں تراویح بیس رکعت پڑھاٸی جاتی تھی نا کہ آٹھ رکعات تو اب ہم تابعین کی طرف آتے ہیں کہ ان کا اس بارے کیا موقف تھا۔
تابعین میں سے حضرت علیؓ کے ساتھی شتیر بن شکل،حضرت ابن ابی ملیکہؒ،سفیان ثوریؒ،عبداللہ ابن مبارکؒ اور دوسرے بہت سے تابعین لوگوں کو رمضان میں بیس رکعات تراویح پڑھاتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن قیس فرماتے ہیں کہ شتیر بن شکل ہمیں رمضان میں بیس رکعات تراویح پڑھاتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبہ جلد 2 حدیث نمبر 7762،سنن الکبریٰ بیہقی جلد 3 حدیث نمبر 4619ب)


حضرت نافع بن عمر فرماتے ہیں کہ حضرت ابن ابی ملیکہؒ رمضان میں ہمیں بیس رکعات تراویح پڑھاتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبہ جلد 2 حدیث نمبر 7765،اثار السنن حدیث نمبر 783)


جیسا کہ ہم نے تابعین کا عمل بھی دکھایا کہ وہ بھی رمضان میں بیس رکعات تراویح کے قاٸل تھے۔اب ہم آتے ہیں آٸمہ کی طرف کہ وہ اس بارے کیا فرماتے ہیں۔
امام ترمذیؒ نے اپنی جامع میں تراویح کے بارے حدیث نقل کرنے کے بعد خود فرمایا کہ اس کی رکعات کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے۔اکثر اہل علم کا اس پر عمل ہے جو حضرت عمرؓ،حضرت علیؓ اور دوسرے صحابہ اکرام سے مروی ہے کہ بیس رکعات تراویح پڑھے۔سفیان ثوریؒ،عبداللہ ابن مبارکؒ اور امام شافعیؒ کا بھی یہی قول ہے۔(پھر امام شافعیؒ کا قول نقل کرتے ہیں کہ)امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اسی طرح اپنے شہر مکہ مکرمہ والوں کو بیس رکعات پڑھتے ہوۓ پایا ہے۔(جامع ترمزی جلد 1 حصہ دوم حدیث نمبر 785 مکتبة العلم)


تو ثابت ہوا کہ امام ترمذیؒ کے نزدیک بھی یہ چیز ثابت ہے کہ حضرت عمرؓ و علیؓ اور دوسرے صحابہ اکرام رمضان میں بیس رکعات تراویح ہی پڑھتے تھے اور تابعین میں عظیم تابعین سفیان ثوریؒ،عبداللہ ابن مبارکؒ اور امام شافعیؒ بھی بیس رکعات تراویح کے ہی قاٸل تھے۔اور اہل مکہ شروع سے ہی بیس رکعات تراویح پڑھتے آرہے ہیں جیسا کہ امام شافعیؒ کی گواہی سے معلوم ہو رہا ہے۔
پیر شیخ عبدالقادر جیلانیؓ بھی اس بارے یہی فرماتے ہیں کہ تراویح باجماعت ادا کرنا سنت اور اس کی بیس رکعات ہیں۔
وہ فرماتے ہیں کہ
تراویح کی جماعت اور اس میں بلند آواز کے ساتھ قرأت کرنا مستحب(سنت) ہے۔(پھر فرماتے ہیں کہ)یہ بیس رکعتیں ہیں ہر دو رکعتوں کے بعد قعدہ کرے اور سلام پھیرے یہ پانچ تراویح(ترویحات)ہیں ان میں سے ہر چار رکعتیں ایک ترویحہ ہے۔(غنیة الطالبین صحفہ نمبر 469)


اس کے بعد اہلحدیث کے معروف عالِم ابن تیمیہ نے بھی حضرت علی کی روایت نقل کی کہ حضرت علی نے رمضان میں قاریوں کو بلا کر ان کو حکم دیا کہ لوگوں کو بیس رکعات تراویح پڑھاٸیں۔(منھاج السنة صحفہ نمبر 779)


تو ثابت ہوا کہ تراویح باجماعت ادا کرنا سنت ہے اور امت کا اجماع ہے کہ تراویح بیس رکعات ہیں،اور کسی کے نزدیک آٹھ رکعت نہیں ہے۔امام مالک کے نزدیک تو تراویح چالیس رکعات نماز ہے کیونکہ ان کے نزدیک یہ سنت ہے اور جتنی زیادہ پڑھی جاٸیں اتنا اجر ہے۔جبکہ کچھ لوگ تو بیس پڑھنے سے بھی کتراتے ہیں۔اس لۓ ہمیں چاہیے کہ اس مسٸلے پر بحث نا کریں اور رمضان کریم میں زیادہ سے زیادہ عبادات کرنے کی کوشش کریں۔
دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو رمضان کریم کا ادب کرنے اور حق سننے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ۔(آمین)
تحقیق ازقلم:محمد ذوالقرنین الحنفی البریلوی


Powered by Blogger.