رجب کے کونڈے

 کونڈوں کی شرعی حیثیت

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
آج کی اس پوسٹ میں ہم ماہ رجب کی ایک نیاز جس کو کونڈے کہا جاتا ہے کی تفصیل بیان کریں گے کہ یہ کیا ہے اور اس کا طریقہ کار کیا ہے اور ساتھ ہی اس کے بارے کچھ غلط فہمیوں کا ازالہ کریں گے۔
کُونڈا کا لغوی معنی ہے ”آٹا گوندھنے کا مٹی کا ظرف/پرات“۔(فیروزاللغات لفظ ک۔و صحفہ نمبر 1046)


اس نیاز کو کونڈے اس مناسبت سے کہا جاتا ہے کیونکہ اس نیاز کو کسی مٹی کے برتن میں رکھ کر تقسیم کیا جاتا ہے۔
یہ نیاز ایصالِ ثواب کی ہی ایک قسم ہے جو کہ 22 رجب کو حضرت امام جعفر صادق کے ایصالِ ثواب کے لۓ تقسیم کی جاتی ہے۔
اور ایصالِ ثواب کے پختہ ترین دلاٸل موجود ہیں ان میں سے ایک کا زکر میں کرتا چلوں۔
نبیﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا ”یارسول اللہﷺ میری والدہ فوت ہو گٸیں ہیں۔اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا ان کو نفع دے گا؟نبیﷺ نے فرمایا! ہاں۔اس شخص نے کہا۔میرا ایک پھل دار باغ ہے میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے وہ صدقہ کر دیا ہے“۔(صحیح بخاری حدیث نمبر 2770)


تو ثابت ہوا کہ زندہ کا فوت شدہ شخص کے لۓ کیا گیا عمل اس کو نفع دیتا ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس لفظ ”کونڈے“ کا مطلب بددعا ہے جو کہ کسی لغت سے ثابت نہیں۔
جبکہ ایک لفظ ہے ”کونڈا کرنا“ اس کا مطلب ہے ”کسی شخص کے ساتھ برا کرنا(یعنی اس کو نقصان پہنچانا)“۔(فیرواللغات ک۔و صحفہ نمبر 1046)
اس معنی کی بنیاد پر کچھ لوگ اس نام کو ہی غلط کہتے ہیں تو ہم بتاتے جاٸیں کہ یہ ایک ہی لفظ نہیں ہے پڑھنے میں اور دِکھنے میں ایک ہے نیاز کے لۓ جو لفظ استعمال ہوتا ہے وہ ”کونڈا یا کونڈا بھرنا“ ہے جبکہ یہ نقصان پہنچانے کے معنی والا لفظ ”کونڈا کرنا“ہے۔لیکن اگر پھر بھی کوٸی نہیں مانتا تو اس کے سامنے ہم لفظ ”عثمان“ کے کچھ معنی بیان کرتے چلیں وہابی مولوی علامہ وحید الزمان لفظ ”عُثماَنُ“ کے معنی میں لکھتا ہے”اژدہے کا بچہ،سانپ کا بچہ“۔اور لفظ ”ابو عُثمَان“ کے معنی میں لکھتا ہے”سانپ“اور پھر عُثماَن کے معنی میں لکھتا ہے ”تیسرے خلیفہ کا نام ہے“۔(لغات الحدیث کتاب ع صحفہ نمبر 23)


ملتے جلتے لفظ کے معنی کو بنیاد بنا کر کسی کام کو غلط کہنے والوں کو چاہیے کہ پہلے دیکھ لیں کہ ان کے اپنے علما نے کس کس لفظ کا کیا مطلب لکھا ہے۔
لیکن اگر پھر بھی اس نام سے مسٸلہ ہے تو اس کے نام کو بدل لیا جاۓ اور صرف ایصالِ ثواب کہہ کر اس کو کیا جاۓ تاکہ باطل اعتراضات کا خاتمہ ہو۔
اس نیاز کے بارے کچھ لوگوں کا کہنا یہ بھی ہے کہ یہ شیعوں کا شروع کردہ طریقہ ہے جو کہ حضرت امیر معاویہؓ کی وفات کی خوشی میں بانٹتے تھے اور اہلسنت میں یہ مشہور کر دیا کہ یہ امام جعفر کی نیاز ہے۔
ہم یہ بات واضح کرتے چلیں کہ اس تاریخ کو نہ ہی امام جعفر کا یوم ولادت ہے اور نہ ہی ان کا یوم وفات ہے،اور یہ بھی بیان کرتے چلیں کہ حضرت امیر معاویہؓ کی تاریخ وفات کے بارے میں بھی علما میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
اگر بلفرض مان بھی لیا جاۓ کہ حضرت امیر معاویہؓ کی تاریخ وفات 22رجب ہی ہے تو اہلسنت کا اس نیاز کو تقسیم کرنے کی یہ نیت نہیں کہ ہم ان کی وفات کی خوشی میں بانٹ رہے ہیں۔
نبیﷺ نے فرمایا ہے”اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کو اس کی نیت کے مطابق ہی پھل ملے گا“۔(صحیح بخاری حدیث نمبر 1)


یعنی کہ ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق اس کے کام پر اجر یا گناہ ملے گا۔تو ہماری نیت تو ایصال ثواب ہے نہ کے امیر معاویہ کی وفات پر خوشی منانے کی۔اور اگر 22رجب امیر معاویہؓ کی تاریخ وفات ہے بھی تو اس نیاز سے امیر معاویہ کی شان میں اضافہ ہو گا کیونکہ اس طرح ان کی وفات کے دن ان کی روح کو اس کا ثواب مل رہا ہے اور ان کے درجات بلند ہو رہے ہیں۔کیونکہ ہم ایصالِ ثواب میں دعا کرتے ہوۓ تمام انبیا و صحابہ اکرام اور مسلمانوں کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔
لیکن اگر پھر بھی کوٸی شخص ہٹ دھرمی دکھاۓ اور نہ مانے تو ہم ان کو عقلی دلاٸل دیتے ہیں جس سے ممکن ہے وہ حق کو تسلیم کرۓ۔
پہلی عقلی دلیل:
ہر سال 18 ذی الحج کو تمام مسلمان حضرت عثمان غنیؓ کے یوم شہادت پر ان کے درجات میں بلندی کے لۓ ایصالِ ثواب کا احتمام کرتے ہیں اور ان کے لۓ دعا کرتے ہیں۔جبکہ اس دن پوری دنیا کے شیعے ان کی شہادت کی خوشی میں عید غدیر مناتے ہیں نۓ کپڑے پہنتے ہیں کھانے تقسیم کرتے ہیں خوشیاں مناتے ہیں۔
تو کیا شیعوں کے اس عمل سے ہم حضرت عثمانؓ کا یوم شہادت منانا چھوڑ دیں ؟
ہرگز نہیں کیونکہ شیعوں کی نیت الگ ہے اور ہماری نیت الگ ہے۔
اس لۓ کونڈے پر یہ اعتراض کرنا کہ یہ شیعوں کا شروع کردہ عمل ہے وہ خوشی مناتے ہیں تو ہم کو ایصالِ ثواب نہیں کرنا چاہیے جہالت ہے۔
دوسری عقلی دلیل:
ہر سال 10 محرم کو پوری دنیا کے شیعے شہداۓ کربلا کا سوگ مناتے ہیں اور ماتم کرتے ہیں۔جبکہ اُسی دن تمام مسلمان ان کی یاد میں ایصالِ ثواب کا احتمام کرتے ہیں اور ان کی یاد مناتے ہیں۔
تو کیا اس بنا پر ہم بھی شیعوں جیسے ہو گۓ ؟
ہرگز نہیں کیونکہ ان کی نیت الگ ہے اور ہماری نیت الگ ہے۔
تو ثابت ہوا کہ شیعوں کی نیت 22 رجب والے دن جو مرضی ہو ہمارے نیت وہ نہیں،اس لۓ یہ کہنا کہ یہ عمل غلط ہے بلکل جہالت ہے۔
اب اگر کوٸی شخص یہ اعتراض کرۓ کہ یہ کام اِسی دن کرنا شیعوں کو خوش کرنا ہے تو اس کا جواب دیتا چلوں کہ ضروری نہیں کہ ہم ایصالِ ثواب اسی دن کریں کسی اور دن بھی کیا جا سکتا ہے۔اس دن نہ بھی کریں تو بھی کوٸی حرج نہیں اور اگر کر بھی لیں تو بھی کوٸی حرج نہیں کیونکہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔
اور جہاں تک بات ہے امام جعفر صادق کے اس دن تاریخ وفات کے نا ہونے کی تو یہ بھی ضروری نہیں کہ جس کے لۓ کیا جاۓ اس کی وفات کے دن ہی ایصالِ ثواب کریں۔آپ سال کا کوٸی ایک دن طے کر سکتے ہیں کہ ہر سال اس دن میں ایصالِ ثواب کیا کروں گا۔
اب اس کا طریقہ کار بیان کرتا چلوں:
ایصالِ ثواب کا طریقہ یہ ہے کہ قرآن خوانی کرواٸی جاۓ نبیﷺ کی سیرت و فضیلت اور صحابہ اکرام کی شان بیان کی جاۓ۔اور دعا کرواٸی جاۓ۔
دیکھا گیا ہے کہ ایصالِ ثواب میں کچھ من گھڑت قصے بیان کیے جاتے ہیں جن میں ”لکڑہارے کی کہانی،بی بی فاطمہ کی کتاب،دس بیبیاں“وغیرہ شامل ہیں جو کہ صرف لاشعور افراد میں راٸج ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ ان قصے کہانیوں کو بیان کرنے سے بچیں اور آگے پھیلانے والوں کو بھی روکیں کیونکہ یہ صرف من گھڑت کہانیاں ہیں ان کا حقیقت سے کوٸی تعلق نہیں۔
دعا کرنے کے بعد لوگوں میں کھانا تقسیم کیا جاۓ۔اور لوگوں کے گھر بھی نیاز بھیجی جاۓ۔اور چھوٹے چھوٹے مٹی کے برتنوں میں بھر کر بچوں میں بھی تقسیم کی جاۓ جو کہ اس کے نام کی اصل ہے۔
ہم نے الحَمْدُ ِللهﷻ نصِ قطعی سے ثابت کیا کہ کونڈے نامی نیاز ایصالِ ثواب کی ایک قسم ہے۔اور جاٸز ہے۔اور اس نیاز کو دلیل بنا کر اہلسنت حضرات کو شیعوں سے تشبیہ دینا بہت بڑی جہالت ہے۔
دعا ہے کہ اللہ ہمیں حق سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ۔(آمین)
تحقیق ازقلم:محمد ذوالقرنین الحنفی البریلوی
Powered by Blogger.