شراب اور خنزیر کے گوشت کے استعمال سے ممانعت موجودہ باٸبل کی روشنی میں

 السلام علی من اتبع الھدیٰ

آج کی اس تحریر میں ہم موجودہ باٸبل کی روشنی میں شراب پینے اور خنزیر کا گوشت کھانے کی ممانعت بیان کریں گے۔


بعض کم علم یہودی و مسیحی ناجانے کس وجہ سے شراب و خنزیر کے استعمال کو جاٸز و فاٸدہ مند ثابت کرنے کے لۓ ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں حالانکہ یہ بات میڈیکلی بھی پروفڈ ہے کہ ان دونوں کا انسانی صحت پر بہت برا اثر ہوتا ہے۔

خیر ہم باٸبل کی روشنی میں ہی یہودی و مسیحی حضرات کو دکھاٸیں گے کہ ان کا استعمال جاٸز ہے یا نہیں۔


شراب:

عہد نامہ قدیم میں کہیں پر بھی خدا کی طرف سے شراب پینے کی اجازت نہیں دی گٸ بلکہ شراب نوشی سے منع کیا گیا ہے اور اس کے نقصانات بیان کیے گۓ ہیں۔

جیسا کہ عہد عتیق کی کتاب ”امثال“ میں سلمیان نبی لکھتے ہیں کہ،

”اے میرے بیٹے!تُو سُن اور دانا بن اور اپنے دِل کی راہبری کر۔تُو شرابِیوں میں شامِل نہ ہو اور نہ حرِیص کبابِیوں میں کیونکہ شرابی اور کھاؤُ کنگال ہو جائیں گے اور نِیند اُن کو چِتھڑے پہنائے گی“۔

(عہد نامہ قدیم،امثال،باب 23 فقرہ 19 تا 21)



اس کے ساتھ ہی دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ،

”کَون افسوس کرتا ہے؟ کَون غَم زدہ ہے؟ کَون جھگڑالُو ہے؟ کَون شاکی ہے؟ کَون بے سبب گھایل ہے؟ اور کِس کی آنکھوں میں سُرخی ہے؟ وُہی جو دیر تک مَے نوشی کرتے ہیں۔ وُہی جو مِلائی ہُوئی مَے کی تلاش میں رہتے ہیں۔ جب مَے لال لال ہو۔جب اُس کا عکس جام پر پڑے اور جب وہ روانی کے ساتھ نِیچے اُترے تو اُس پر نظر نہ کر کیونکہ انجام کار وہ سانپ کی طرح کاٹتی اور افعی کی طرح ڈس جاتی ہے۔تیری آنکھیں عجِیب چِیزیں دیکھیں گی اور تیرے مُنہ سے اُلٹی سِیدھی باتیں نِکلیں گی.....“۔

(عہد نامہ قدیم،امثال،باب 23،فقرہ 29 تا 35)



ان دونوں حوالوں میں سلیمان نبی لوگوں کو شراب نوشی سے منع کرتے ہیں اور اس کے نقصانات بیان کرتے ہیں کہ اس سے عقل ماری جاتی ہے اور صحت پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔


اس کے علاوہ یسعیاہ نبی لکھتا ہے کہ،

”اُن پر افسوس جو صُبح سویرے اُٹھتے ہیں تاکہ نشہ بازی کے درپَے ہوں اور جو رات کو جاگتے ہیں جب تک شراب اُن کو بھڑکا نہ دے! اور اُن کے جشن کی محفِلوں میں بربط اور سِتار اور دف اور بِین اور شراب ہیں لیکن وہ خُداوند کے کام کو نہیں سوچتے اور اُس کے ہاتھوں کی کارِیگری پر غَور نہیں کرتے“۔


اور پھر لکھتا ہے کہ،

”اُن پر افسوس جو مَے پِینے میں زورآور اور شراب مِلانے میں پہلوان ہیں“۔

(عہد نامہ قدیم،یسعیاہ،باب 5،فقرہ 11,12 اور 22)



یہاں پر یسعیاہ نبی بھی شرابی لوگوں پر افسوس کر رہا ہے کہ وہ شراب خوری میں تو بہت پہلوان ہیں لیکن خدا کے احکامات کو نہیں مانتے۔


یہ تھے عہد نامہ قدیم سے چند دلاٸل اب ہم عہد نامہ جدید سے بیان کریں گے کہ وہاں شراب کے بارے میں کیا کہا گیا ہے۔


عہد نامہ جدید میں پولس افسیوں کے نام خط میں لکھتا ہے کہ،

”اور شراب میں متوالے نہ بنو کیونکہ اِس سے بدچلنی واقِع ہوتی ہے بلکہ رُوح سے معمُور ہوتے جاؤ۔اور آپس میں مزامِیر اور گِیت اور رُوحانی غزلیں گایا کرو اور دِل سے خُداوند کے لِئے گاتے بجاتے رہا کرو“۔

(عہد نامہ جدید،افسیوں،باب 5،فقرہ 18,19)



یہاں پر کچھ لوگ کہیں گے کہ پولس نے یہاں بہت زیادہ شراب پینے سے منع کیا ہے اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ خود دوسری جگہ پولس ہی تیمتھیس کو اپنے پہلے خط میں لکھتا ہے کہ،

”آیندہ کو صِرف پانی ہی نہ پِیا کر بلکہ اپنے مِعدہ اور اکثر کمزور رہنے کی وجہ سے ذرا سی مَے بھی کام میں لایا کر“۔

(عہد نامہ جدید،1 تیمتھیس،باب 5،فقرہ 23)



لیکن یہاں پر بھی شراب کی مکمل اجازت نہیں ہے اگر فقرے پر غور کیا جاۓ تو معلوم ہو گا کہ یہاں پولس نے صرف ”تھوڑی سی شراب“ کو ”دوا (میڈیسن)“ کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت دی ہے،کیونکہ پولس خود ہی کہتا ہے کہ ”معدے “ اور ”اکثر کمزور“ رہنے کی وجہ سے تو یہاں یہ ثابت ہو رہا ہے کہ اس نے معدے کی بیماری و کمزوری کی وجہ سے صرف تھوڑی سی شراب کو دوا کے طور پر پینے کی اجازت دی جس سے نشہ نہ ہو نہ کہ مکمل طور پر آزادی دی۔


اور شرابی کے بارے میں تو پولس،کرنتھیوں کے نام اپنے پہلے خط میں بہت سخت الفاظ استعمال کرتا ہے۔

لکھتا ہے،

”لیکن مَیں نے تُم کو در حقِیقت یہ لِکھا تھا کہ اگر کوئی بھائی کہلا کر حرام کار یا لالچی یا بُت پرست یا گالی دینے والا یا ”شرابی“ یا ظالِم ہو تو اُس سے صُحبت نہ رکھّو بلکہ اَیسے کے ساتھ کھانا تک نہ کھانا“۔

(عہد نامہ جدید،1 کرنتھیوں،باب 5،فقرہ 11)



یہاں پر پولس واضح الفاظ میں شرابی کے بارے میں کہہ رہا ہے کہ کسی شرابی کے ساتھ نہ ہی بیٹھو اور نہ ہی اس کے ساتھ کھانا کھاٶ۔


تو ثابت ہوا کہ عہد نامہ قدیم و جدید دونوں میں شراب پینے کی اجازت خدا کی طرف سے دی ہی نہیں گٸ بلکہ شراب پینے کو میعوب سمجھا گیا ہے اور اس کے نقصانات بیان کیے گۓ ہیں۔


خنزیر کا گوشت:

اب ہم خنزیر کے بارے میں دلاٸل دیں گے کہ باٸبل خنزیر کا گوشت کھانے سے بھی منع کرتی ہے۔


توریت کی کتاب استثنا کہتی ہے کہ،

”تُو کسی گھِنَونی چِیز کو مت کھانا۔جِن چَوپایوں کو تُم کھا سکتے ہو وہ یہ ہیں یعنی گائے بَیل اور بھیڑ اور بکری۔اور ہرن اور چکارا اور چھوٹا ہرن اور بُزِ کوہی اور سابر اور نِیل گائے اور جنگلی بھیڑ۔اَور چَوپایوں میں سے جِس جِس کے پاؤں الگ اور چِرے ہُوئے ہیں اور وہ جُگالی بھی کرتا ہو تُم اُسے کھا سکتے ہو۔لیکن اُن میں سے جو جُگالی کرتے ہیں یا اُن کے پاؤں چِرے ہُوئے ہیں تُم اُن کو یعنی اُونٹ اور خرگوش اور سافان کو نہ کھانا کیونکہ یہ جُگالی کرتے ہیں لیکن اِن کے پاؤں چِرے ہُوئے نہیں ہیں سو یہ تُمہارے لِئے ناپاک ہیں۔اور ”سُؤر“ تُمہارے لِئے اِس سبب سے ناپاک ہے کہ اُس کے پاؤں تو چِرے ہُوئے ہیں پر وہ جُگالی نہیں کرتا۔”تُم نہ تو اُن کا گوشت کھانا اور نہ اُن کی لاش کو ہاتھ لگانا““۔

(توریت،استثنا،باب 14،آیات 3 تا 8)



اس جگہ شریعت حکم دیتی ہے کہ نہ ہی سور کا گوشت کھاٶ اور نہ ہی اس کی لاش کو ہاتھ لگاٶ،لیکن ناجانے کیوں یہودی و نصرانی شریعت کے حکم کو چھوڑ کر اپنے من کی بات مانتے ہیں۔


اس کے بعد یسعیاہ کی کتاب میں خداوند کہتا ہے،

”جو قبروں میں بَیٹھتے اور پوشِیدہ جگہوں میں رات کاٹتے اور سُؤر کا گوشت کھاتے ہیں اور جِن کے برتنوں میں نفرتی چِیزوں کا شوربا مَوجُود ہے۔جو کہتے ہیں تُو الگ ہی کھڑا رہ۔میرے نزدِیک نہ آ کیونکہ مَیں تُجھ سے زِیادہ پاک ہُوں۔یہ میری ناک میں دُھوئیں کی مانِند اور دِن بھر جلنے والی آگ کی طرح ہیں“۔

(عہد نامہ قدیم،یسعیاہ،باب 65،فقرہ 4,5)



یہاں باٸبل میں خدا ان لوگوں کو جو خنزیر کا گوشت کھاتے ہیں کہتا ہ کہ وہ دن بھر جلنے والی آگ کی طرح ہیں(یعنی بلکل خاک ہیں)


اس کے بعد خداوند کہتا ہے کہ،

”کیونکہ آگ سے اور اپنی تلوار سے خُداوند تمام بنی آدم کا مُقابلہ کرے گا اور خُداوند کے مقتُول بُہت سے ہوں گے۔وہ جو باغوں کے وسط میں کِسی کے پِیچھے کھڑے ہونے کے لِئے اپنے آپ کو پاک و صاف کرتے ہیں جو سُؤر کا گوشت اور مکرُوہ چِیزیں اور چُوہے کھاتے ہیں خُداوند فرماتا ہے وہ باہم فنا ہو جائیں گے“۔

(عہد نامہ قدیم،یسعیاہ،باب 66،فقرہ 16,17)



یہاں پر بھی خدا کہتا ہے کہ میری آگ(یعنی جہنم) اور تلوار کے ساتھ میں ان لوگوں کو قتل کروں گا جن میں سور کا گوشت کھانے والے بھی شامل ہیں۔


اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ سور کا گوشت کھانے والا خدا کو پسند نہیں اور اس پر خدا غضب ناک ہوتا ہے۔


لیکن یہاں کچھ مسیحی یہ کہانی سنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ موسیٰ کی شریعت ہے اور موسیٰ کی شریعت منسوخ ہو چکی۔

اور دلیل کے طور پر پولس کے ایک دو اقوال سنا دیتے ہیں کہ پولس کہتا ہے،

”اِیمان کے آنے سے پیشتر شرِیعت کی ماتحتی میں ہماری نِگہبانی ہوتی تھی اور اُس اِیمان کے آنے تک جو ظاہِر ہونے والا تھا ہم اُسی کے پابند رہے۔پس شرِیعت مسِیح تک پُہنچانے کو ہمارا اُستاد بنی تاکہ ہم اِیمان کے سبب سے راست باز ٹھہریں۔مگر جب اِیمان آ چُکا تو ہم اُستاد کے ماتحت نہ رہے“۔

(عہد نامہ جدید،گلتیوں،باب 3،فقرہ 23 تا 25)



اس قول کو سنا کر مسیحی حضرات بھڑکیں مارنا شروع کر دیتے ہیں کہ موسیٰ کی شریعت منسوخ ہو چکی ہے اس لۓ اس کے احکامات ہمارے لۓ قابل حجت نہیں۔


لیکن یہاں پولس کا یہ قول یسوع مسیح کے اقوال کے خلاف آرہا ہے اور جب نبی کی بات کے خلاف امتی کا قول آۓ تو امتی کی بات کو رد کر دیا جاۓ گا،اور پولس خود بھی اپنے قول پر قاٸم نہیں رہا اور موسیٰ کی شریعت کو حجت سمجھتا تھا جو کہ اب آپ نیچے ملاحظہ فرماٸیں گے۔


یسوع مسیح نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوۓ فرمایا،

”یہ نہ سمجھو کہ مَیں تَورَیت کی شریعت اور نبِیوں کی تعلیمات کو منسُوخ کرنے آیا ہُوں۔ میں ان کو منسُوخ کرنے نہیں بلکہ پُورا کرنے آیا ہُوں۔کیونکہ مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ آسمان اور زمِین کے فنا ہونے تک شریعت سے کچھ بھی غاٸب نہ ہو گا جب تک سب کُچھ پُورا نہ ہو جائے۔شریعت کا ایک حرف یا ایک لفظ تک غاٸب نہ ہو گا جب تک سب پورا نہ ہو جاۓ،پس جو کوئی اِن چھوٹے سے چھوٹے حُکموں میں سے بھی کِسی کو توڑے گا اور یہی آدمِیوں کو سِکھائے گا وہ آسمان کی بادشاہی میں سب سے چھوٹا کہلائے گا لیکن جو اُن پر عمل کرے گا اور اُن کی تعلِیم دے گا وہ آسمان کی بادشاہی میں بڑا کہلائے“۔

(عہد نامہ جدید،متی کی انجیل،باب 5،فقرہ 17 تا 19)



یہاں ہی یسوع مسیح نے پولس کی بات کا مکمل رد کر دیا کہ قیامت تک شریعت کا ایک لفظ یا ایک حرف تک منسوخ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی میں شریعت کو منسوخ کرنے آیا ہوں سو جو کوٸی اس کے ایک چھوٹے سے حکم کی بھی خلاف ورزی کرے گا وہ سب سے حقیر ہو گا اور جو اس پر عمل کرے گا وہ سب سے بڑا ہو گا۔

اس لۓ جو جو خدا نے عہد نامہ قدیم میں حکم دیا یا کہا ہے وہ سب پورا ہو گا اور کسی کے کہنے سے اس کا انکار نہیں ہو گا۔خدا نے کہا ہے کہ سور کھانے والوں کو ماروں گا تو خدا ضرور یہ کرے گا،اور اس کا انکار ممکن نہیں۔


ایک اور مقام پر یسوع کہتے ہیں کہ،

”پس جو کُچھ تُم چاہتے ہو کہ لوگ تُمہارے ساتھ کریں وُہی تُم بھی اُن کے ساتھ کرو کیونکہ تَورَیت اور نبیوں کی تعلِیم یِہی ہے“۔

(متی کی انجیل،باب 7،فقرہ 12)



یہاں پر بھی یسوع موسی کی شریعت کے مطابق ہی لوگوں کو تعلیمات دے رہے ہیں کہ لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو کیونکہ یہی توریت کی تعلیم ہے اور باقی نبیوں کی۔

اگر یسوع کے نزدیک شریعت منسوخ ہو چکی ہوتی تو یسوع یہ کہتے کہ ”یہ میری تعلیم ہے“۔لیکن یسوع نے ایسا کچھ نہیں کہا اور نہ ہی سابقہ شریعت کو منسوخ کیا۔


تو یسوع سے ثابت ہو گیا کہ سابقہ شریعت منسوخ نہیں ہو سکتی اور نہ ہی کبھی ہو گی۔


اب ہم پولس کی طرف آتے ہیں کہ اس کا دوہرا معیار کیا ہے۔

ایک جگہ تو وہ کہتا ہے کہ شریعت ہمارے لۓ ختم ہو چکی اور یسوع نے صلیب پر شریعت کو منسوخ کر دیا۔


جبکہ دوسری جگہ جب وہ یسوع کے مصلوب ہونے کے بعد پکڑا گیا تو فیلکس کے سامنے اپنی صفاٸی میں کیا کہا وہ خود ہی دیکھیں۔

پولس کہتا ہے،

“میں یہ اِقرار کرتا ہُوں کہ میں اپنے اجداد کے خُدا کی عبادت بحثیت شاگردِ یسوع کے طریقے پر کرتا ہوں یہودی کہتے ہیں کہ یسوع کے طریقے غلط ہیں لیکن جو کچھ موسیٰ کی شریعت میں ہے اس پر میں ایمان رکھتا ہوں اور اس کے علاوہ جو کچھ باقی نبِیوں کی کتابوں میں لکھا ہے اُس سب پر میں ایمان رکھتا ہوں“۔

(عہد نامہ جدید،اعمال،باب 24،فقرہ 14)



یہاں پر یا تو پولس یسوع کے شریعت کو منسوخ کرنے کے بات کو چھپا کر جوتوں سے بچنے کے لۓ موسیٰ کی شریعت پر ایمان رکھنے کی بات کر رہا ہے یا پھر بعد میں پولس نے شریعت میں ڈنڈی مارنے کی کوشش کی ہے۔

اگر یسوع شریعت کو منسوخ کر چکے تھے تو فیلکس کے سامنے بھی پولس یہی کہتا کہ موسیٰ کی شریعت منسوخ ہو چکی ہے لیکن وہاں اس نے جان بچانے کے لۓ سچ کہہ دیا۔


اور پھر پولس خود ہی اپنے خطوط میں موسیٰ کی شریعت کے منسوخ ہو جانے کے ذکر کی بجاۓ موسیٰ کی شریعت کو دلیل بنا کر اپنی رسالت کے لۓ حجت قاٸم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔


جیسا کہ وہ کرنتھیوں کے نام لکھے گۓ پہلے خط میں لکھتا ہے کہ،

”کیا مَیں یہ باتیں اِنسانی قِیاس ہی کے مُوافِق کہتا ہُوں؟کیا تَورَیت بھی یِہی نہیں کہتی؟ چُنانچہ مُوسیٰ کی تَورَیت میں لِکھا ہے کہ دائیں میں چلتے ہُوئے بَیل کا مُنہ نہ باندھنا۔ کیا خُدا کو بَیلوں کی فِکر ہے؟ یا خاص ہمارے واسطے یہ فرماتا ہے؟ ہاں یہ ہمارے واسطے لِکھا گیا کیونکہ مُناسِب ہے کہ جوتنے والا اُمّید پر جوتے اور دائیں چلانے والا حِصّہ پانے کی اُمّید پر دائیں چلائے“۔

(عہد نامہ جدید،1 کرنتھیوں،باب 9،فقرہ 8 تا 10)



یہاں پر پولس نے خود کو یسوع کا نبی ثابت کرنے کے لۓ موسیٰ کی شریعت سے دلیل کا سہارا لیا اور وہ یہاں یہ اصول بھول گیا کہ موسیٰ کی شریعت تو منسوخ ہو چکی ہے۔


ایک اور جگہ کرنتھیوں کو لکھے خط میں پولس کہتا ہے کہ،

”عَورتیں کلِیسیا کے مجمع میں خاموش رہیں کیونکہ اُنہیں بولنے کا حُکم نہیں بلکہ تابِع رہیں جَیسا تَورَیت میں لِکھا ہے۔اور اگر کُچھ سِیکھنا چاہیں تو گھر میں اپنے اپنے شَوہر سے پُوچھیں کیونکہ عَورت کا کلِیسیا کے مجمع میں بولنا شرم کی بات ہے“۔

(عہد نامہ جدید،1 کرنتھیوں،باب 14،فقرہ 34,35)



یہاں پر بھی پولس نے عورتوں کے کلیسیا میں باتیں کرنے کے بارے میں کہا کہ ان کو خاموش رہنا چاہیے جیسا کہ توریت میں لکھا ہے،اگر یہاں بھی پولس کے نزدیک توریت کی تعلیمات منسوخ ہو چکی ہیں تو وہ ان سے دلیل نہ دیتا بلکہ یہ کہتا کہ یسوع کی شریعت میں ایسا ہے۔


لیکن پولس کا دوہرا معیار آپ کے سامنے ہے کہ خود شرعی احکامات سے بچنے کے لۓ موسیٰ کی شریعت کو منسوخ قرار دے دیا لیکن جب باقی لوگوں کو تعلیمات دینے اور اپنی رسالت ثابت کرنے کی باری آٸی تو موسیٰ کی شریعت سے دلاٸل دیتا رہا۔


پولس یہ سب کر کے یسوع کے اس فرمان کا مستحق ٹھہرا کہ جو بھی موسیٰ کی شریعت سے چھوٹے سے چھوٹے حکم کو توڑے گا وہ خداوند کے سامنے سب سے حقیر ہو گا۔


اب مسیحیوں کو چاہیے کہ آنکھیں کھول کر حق قبول کریں اور پولس کی دو نمبریوں کو ملاحظہ فرماٸیں اور یسوع کے احکامات کو مانیں یا یسوع کو چھوڑ کر پولس کا دوہرا معیار قبول کریں۔


ہم نے الحَمْدُ ِلله بفضل باری تعالیٰ یہ ثابت کیا کہ باٸبل کے مطابق بھی شراب اور سور کا گوشت کھانا جاٸز نہیں اور یہ خدا کی نافرمانی والے کام ہیں،اور ساتھ ہی یہ بھی ثابت کیا کہ موسیٰ کی شریعت مسیحیوں کے لۓ منسوخ نہیں ہوٸی اور پولس ایک کذاب آدمی تھا۔


دعا ہے کہ اللہ ان سب کو حق سننے سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ۔(آمین)


تحقیق ازقلم:مناظر اسلام محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی

Powered by Blogger.