قبر میں سوالات کی تعداد اور زیارتِ مصطفیٰ کا بیان۔

 قبر میں سوالات کی تعداد اور زیارتِ مصطفیٰﷺ  کا بیان۔

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

آج کی اس پوسٹ میں ہم قبر میں ہونے والے سوالات  کا ذکر کریں گے کہ قبر میں مسلمان اور کافر سے کتنے سوالات کیے جاٸیں گے۔اور ساتھ ہی اس چیز کا ذکر بھی کریں گے کہ جب قبر میں نبیﷺ کے بارے میں سوال کیا جاۓ گا تو کیا نبیﷺ کی زیارت بھی کرواٸی جاۓ گی یا نہیں۔

تو میں بتاتا چلوں کہ حدیث کی رو سے مسلمانوں اور کافروں سے پوچھے جانے والے بنیادی سوالات تین ہی ہیں۔جو کہ یہ ہیں۔

تیرا رب کون ہے ؟

تیرا دین کیا ہے ؟

اور اس شخص (یعنی محمدﷺ) کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟

جب مسلمان ان تینوں سوالات کے درست جواب دے دے گا جو کہ یہ ہیں۔

اللہ میرا رب ہے۔

اسلام میرا دین ہے۔

اور یہ اللہ کے بندے اور آخری رسول محمدﷺ ہیں۔

جب مسلمان نبیﷺ کے بارے میں بتا دے گا تو اس سے ایک اور سوال کیا جاۓ گا کہ ”تجھے یہ کیسے پتہ چلا ؟“تو مسلمان کہے گا میں نے اللہ کی کتاب (قرآن) کو پڑھا اس پر ایمان لایا اور اس پر عمل کیا۔تو فرشتے اس کی قبر کو کشادہ کر دیں گے،جو کہ اس کے لۓ باعث راحت ہو گا۔

جبکہ کافر تینوں سوالات پر کہے گا ”ہاۓ میں نہیں جانتا“ تو فرشتے اس کی قبر کو تنگ کر دیں گے اور اسے عذاب دیا جاۓ گا۔

(سنن ابی داٶد حدیث نمبر 4753)


یہاں سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان جب تینوں سوالوں کا جواب دے دے گا تو فرشتے اس سے ایک اور سوال کریں گے۔لیکن وہ سوال بنیادی سوالات میں شامل نہیں کیونکہ اس سوال کا جواب نہ دینے پر بھی پکڑ نہیں۔

ایک روایت میں تین سوالات کا ذکر بھی ہوا ہے۔اور وہ روایت کچھ یوں ہے

”حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا جب مسلمان مرتا ہے تو قبر میں اس سے سوال ہوتا ہے تیرا رب کون ہے ؟ تیرا دین کیا ہے ؟ تیرا نبی کون ہے ؟ تو مسلمان جواب دیتا ہے اللہ میرا رب ہے،اسلام میرا دین ہے اور محمدﷺ میرے نبی ہیں، تو اس کی قبر کو وسیع کر دیا جاتا ہے“۔

(معجم الکبیر جلد 9 روایت نمبر 9145)


اس روایت کو دلیل بنا کر بعض لوگ کہتے ہیں کہ قبر میں مسلمان سے بھی صرف تین ہی سوالات ہوں گے۔کچھ اور نہیں پوچھا جاۓ گا۔

تو بیان کرتا چلوں کہ اس روایت میں مکمل تذکرہ ہی نہیں نہ ہی تفصیل ہے اور نہ ہی کافر کے سوال و جواب کا ذکر۔

کل کو اگر کوٸی اس روایت کو دلیل بنا کر یہ کہہ دے کہ قبر میں سوال ہی مسلمان سے ہو گا تو وہ بھی غلط ہے۔

اور بعض روایات تو ہیں ہی ایسی جن میں صرف ایک یا دو سوالات کا ذکر ہے جیسا کہ بخاری میں ہے۔

نبیﷺ نے فرمایا ”جب میت کو دفنا دیا جاتا ہے تو دو فرشتے اسے اٹھا کر بٹھا دیتے ہیں اور پوچھتے ہیں اس شخص یعنی محمد کے بارے میں تم کیا کہتے ہو ؟ تو مومن جواب دیتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔پھر اس کو جنت میں اس کا مقام دکھا دیا جاتا ہے،اور جب کافر یا منافق سے سوال کیا جاتا ہے کہ تم اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو تو وہ کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا تو اسے عذاب دیا جاتا ہے“۔

(بخاری حدیث نمبر 1374)


اس روایت سے تو ثابت ہوتا ہے کہ قبر میں سوال ہی ایک ہو گا پھر بندے کو جنت یا جہنم میں ڈال دیا جاۓ گا۔تو اگر کوٸی اس کو دلیل بنا کر کہے کہ ایک ہی سوال ہو گا تو وہ بھی غلطی پر ہے۔

ایک اور روایت میں ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا”مسلمان سے جب قبر میں سوال کیا جاتا ہے تو وہ شہادت دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوٸی معبود برحق نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں،اور یہی سورة ابراہیم آیت نمبر 27 کا مفہوم ہے“۔

(بخاری حدیث نمبر 4699)


اس روایت میں صرف دو سوالات کے جواب کا ذکر ملتا ہے جبکہ دین کے بارے میں سوال کا ذکر ہی نہیں ملتا۔تو اگر کوٸی یہ کہے کہ قبر میں دو سوالات ہی ہوں گے تو وہ بھی غلطی پر ہے۔

ان تمام روایات کو جمع کرنے سے ایک ہی بات پتہ چلتی ہے کہ بنیادی سوال تو تین ہی ہیں۔

لیکن جب مسلمان پہلے دو سوالات کے جواب کے ساتھ تیسرے سوال (جو کہ نبیﷺ کے بارے میں کیا جاۓ گا) کا درست جواب دے دے گا تو فرشتے حیرانی سے پوچھتے ہیں کہ ”تمہیں کیسے پتہ چلا؟“ یہ بھی ایک سوال ہی ہے لیکن بنیادی سوالات میں نہیں ہے۔کیونکہ یہ سوال صرف اس سے ہو گا جو نبیﷺ کے بارے میں کیے گۓ سوال کا درست جواب دے گا۔

جبکہ کافر کسی ایک سوال کا جواب بھی درست نہیں دے سکے گا تو اسے اسی وقت عذاب دینا شروع کر دیا جاۓ گا۔

شیخ الحدیث والتفسیر مولانا محمد قاسم قادریؒ سورة ابراہیم کی آیت نمبر 27 کی تفسیر میں ابو داٶد کی ہی روایت نقل کرتے ہیں کہ

”مسلمان تینوں سوالات کا درست جواب دے دیتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں تجھے کیسے معلوم ہوا تو وہ کہتا ہے میں نے اللہ کی کتاب پڑھی اس پر ایمان لایا اور اسے سچا جانا“۔

(صراط الجنان جلد 5 سورة ابراہیم آیت نمبر 27 کی تفسیر)


اب یہاں پر ایک سوال کیا جاۓ گا کہ یہ چوتھا سوال کس وجہ سے ہو گا ؟

تو اس کے دو جوابات ہیں

ایک تو یہ کہ یہ سوال حیرت کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ فرشتے حیران ہوں کہ تم(غیر صحابی) نے تو ان کو دیکھا ہی نہیں تو تم کو یہ کیسے پتہ چل گیا تو اس کے جواب میں مسلمان کہے گا کہ میں نے اللہ کی کتاب کو پڑھا جس میں ان کا ذکر کیا گیا تو مجھے معلوم ہوا۔

جیسا کہ نبیﷺ کا فرمان بھی ہے کہ 

”قبر میں تم میرے ذریعے آزماۓ جاٶ گے اور تم سے میرے بارے میں سوال ہو گا۔“

(مسند احمد حدیث نمبر 25602)


اب یہاں پر بعض حضرات یہ اعتراض بھی کر سکتے ہیں کہ صحابہ نے تو نبیﷺ کو دیکھا تھا تو کیا ان سے بھی یہ سوال ہوا ہو گا۔تو اس کا جواب دیتا چلوں کہ یہ اعتراض ہی بلکل باطل ہے اور ان سے بھی یہ سوال کیا گیا ہو گا جیسا کہ حدیث میں ہے۔

یہ اعتراض باطل اس وجہ سے ہے کہ نبیﷺ کے بارے میں سوال ہر کسی سے ہو گا خواہ صحابی ہو یا غیر صحابی۔کیونکہ یہ ایک آزماٸش ہے۔

ایسے اعتراضات کرنے والوں سے ہمارا سوال یہ ہے کہ آپ زرا یہ بتاٸیں کہ صحابہ سے نبیﷺ کے بارے میں سوال کیا گیا ہو گا یا نہیں ؟ اگر تو ہاں تو ہمارا اعتراض ہے ”کیوں“ کیونکہ صحابہ نے تو نبیﷺ کو دیکھا ہوا تھا اور یہ ان کے لۓ آزماٸش نہیں تھی لیکن  نبیﷺ نے تو فرمایا تھا کہ تم میرے ذریعے قبر میں آزماۓ جاٶ گے اور میرے متعلق تم سے سوال کیا جاۓ گا۔

تو یہ ایک جواب تھا کہ اس وجہ سے یہ سوال کیا جاۓ گا۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ سوال قرآن کی صداقت کی گواہی کے طور پر کیا جاۓ گا کیونکہ مسلمان جواب دے گا کہ میں نے یہ سب قران سے پڑھا اس پر ایمان لایا اور اس پر عمل کیا۔

تو اس طرح سے مسلمان کی زبان سے قرآن کی صداقت کی گواہی بھی لے لی جاۓ گی اور اس کی قبر کو گشادہ کر دیا جاۓ گا۔

تو ثابت ہوا کہ بنیادی سوالات تو تین ہی ہیں لیکن مسلمان سے ایک اور سوال پوچھا جاۓ گا جو کہ بطور حیرت ہو سکتا ہے یا قرآن کی صداقت کی گواہی کے لۓ ہو سکتا ہے۔اور اس سوال کا جواب نہ دینے پر بھی کسی قسم کی پکڑ نہیں کی جاۓ گی۔

اب ہم اس طرف آتے ہیں کہ کیا قبر میں نبیﷺ کی زیارت کرواٸی جاۓ گی یا نہیں ؟

تو شریعت نے اس کی کوٸی تفصیل بیان نہیں کی کہ نبیﷺ کی زیارت کروا کے نبیﷺ کے بارے میں پوچھا جاۓ گا یا بغیر زیارت کے۔

لیکن سوال کو دیکھیں تو اس میں اس چیز کا اشارہ ملتا ہے کہ یا تو نبیﷺ کی زیارت کروا کے یہ سوال کیا جاۓ گا یا نبیﷺ کے روضہ مقدسہ سے پردہ اٹھا کر ان کی طرف اشارہ کر کے سوال کیا جاۓ گا۔

کیونکہ سوال یہ ہے ”ما تقول فی ھذا الرجل؟“ یعنی کہ ”تم اِس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو؟“۔

تو یہ لفظ ”اِس“ قریب کا اشارہ ہے یعنی نبیﷺ کے قریب کر کے سوال کیا جاۓ گا۔

اعلیٰ حضرتؒ فرماتے ہیں

”جب یہ سوال ہو گا کہ ”ما تقول فی ھذا الرجل“یعنی ان کے بارے میں کیا کہتے ہو؟۔اب نہ معلوم کہ سرکار خود تشریف لاتے ہیں یا روضہ مقدسہ سے پردہ اٹھایا جاتا ہے،شریعت نے کچھ تفصیل نہ بتاٸی“۔

(ملفوظات اعلیٰ حضرتؒ صحفہ نمبر 526)


لیکن ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ قبر میں نبیﷺ کا دیدار کروا کے ان کے بارے میں سوال کیا جاۓ گا کیونکہ یہی امت کا عمل ہے۔

اعلیٰ حضرتؒ نے بھی اپنی کٸ نعتوں میں اس چیز کی طرف اشارہ کیا ہے کہ (ان شاء اللہﷻ) قبر میں ہم کو نبیﷺ کا دیدار کروایا جاۓ گا۔

اور مفتی احمد یار خان نعیمی اپنی نعت میں بھی کہتے ہیں کہ

”روح نہ کیوں ہو مضطرب موت کے انتظار میں،سنتا ہوں مجھ کو دیکھنے آٸیں گے وہﷺ مزار میں“۔

(دیوان سالک نعت نمبر 11)


ان تمام چیزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں اس چیز کی وضاحت نہیں کہ قبر میں نبیﷺ کا دیدار کروایا جاۓ گا یا نہیں لیکن اشارہ اسی طرف ہے کہ نبیﷺ کا دیدار کروا کر یہ سوال پوچھا جاۓ گا۔کیونکہ آزماٸش کا وقت ہے تو مسلمان کے لۓ یہ آزماٸش بھی ہو گی اور راحت کا باعث بھی ہو گا۔

دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو قبر میں نبیﷺ کی زیارت نصیب فرماۓ،اور قیامت کے دن نبیﷺ کا ساتھ نصیب فرماۓ۔(آمین)

تحقیق ازقلم:مناظر اہلسنت والجماعت محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی

Powered by Blogger.