خدا کہتے نہیں بنتی جدا کہتے نہیں بنتی کی تشریح

 اہلسنت والجماعت کی نعتوں میں شرک ؟

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

کچھ دن قبل میرے پاس وہابیوں کی طرف سے ایک اعتراض آیا کہ بریلوی حضرات اپنی نعتوں میں شرکیہ کلمات پڑھتے ہیں۔پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہابی،امام احمد رضا خان بریلویؒ کے فرزند حامد رضا خانؒ کی نعت میں سے ایک شعر کو پکڑ کر شرک شرک کے فتوے لگا رہا ہے۔

شعر کچھ اس طرح ہے کہ

”خدا کہتے نہیں بنتی،جُدا کہتے نہیں بنتی“

”خدا پر اس کو چھوڑا ہے،وہی جانے کیا تمﷺ ہو۔“

(حداٸق بخش حصہ دوم صحفہ نمبر 104)



اس شعر پر موصوف کا اعتراض تھا کہ نبیﷺ کو خدا کہا جا رہا ہے اور یہ شرک و کفر ہے۔

اب ہم اس جاہلانہ اعتراض کا جواب مکمل قران و حدیث کی روشنی میں دیں گے کہ اس شعر کا مکمل مطلب و مفہوم کیا ہے۔اور وہابی حضرات اپنی کم علمی کی وجہ سے اس کو شرک کہہ رہے ہیں۔

شعر کا پہلا حصہ ”خدا کہتے نہیں بنتی“ اس پر تو کوٸی اعتراض نہیں کیونکہ یہ تو بلکل ٹھیک بات ہے کہ نبیﷺ کو خدا نہیں کہہ سکتے کیونکہ خدا صرف اللہ کی ذات ہے۔

دوسرا حصہ ”جُدا کہتے نہیں بنتی“ اس پر اصل اعتراض ہے کہ اللہ و محمد کو ایک سمجھا جا رہا ہے۔

تو بتاتا چلوں کہ اس شعر کا یہ مطلب بلکل نہیں کہ نبیﷺ کو اور اللہ کو ایک سمجھا جا رہا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبیﷺ کو اللہ نے اپنے سے جدا نہیں رکھا،جہاں پر بھی اللہ نے اپنی اطاعت کا حکم دیا وہاں پر نبیﷺ کی اطاعت کو لازم قرار دیا،اور دیگر عبادات کے ساتھ بھی نبیﷺ کی اطاعت کو لازم قرار دیا۔

اللہ تعالیٰ نبیﷺ کو حکم فرماتا ہے

”اے محبوب تم فرما دو کہ لوگوں! اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے(محمدﷺ کے) فرمانبردار ہو جاٶ،اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا“۔(آل عمران آیت نمبر 31)


اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ اگر کوٸی شخص اللہ کو دوست رکھنا چاہتا ہے تو اللہ کے رسولﷺ کا فرمانبردار ہونا لازمی ہے پھر ہی اللہ اپنا دوست رکھے گا اور گناہ بخشے گا۔

ایک دوسرے مقام پر اللہ فرماتا ہے کہ

”اللہ و رسول کے فرمانبردار رہو اس امید پر کہ تم پر رحم کیا جاۓ“۔(آل عمران آیت نمبر 132)


یہاں پر اللہ نے رحمت کے حصول کے لۓ اپنی فرمانبرداری کے ساتھ ساتھ نبیﷺ کی فرمانبرداری کو لازم قرار دیا ہے۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

”(اے نبیﷺ) تم فرما دو کہ حکم مانو اللہ اور رسولﷺ کا پھر اگر وہ منہ پھیریں تو اللہ کو خوش نہیں آتے کافر“۔(آل عمران آیت نمبر 32)


اس مقام پر اللہ نے سخت الفاظ میں اپنے حکم کے ساتھ ساتھ نبیﷺ کے حکم کو ماننے کی تلقین کی ہے اور جو اللہ یا رسولﷺ کے حکم کو نا مانے گا اللہ اسے یہاں پر کافر قرار دے رہا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

”اے ایمان والو،اللہ کا حکم مانو اور رسولﷺ کا حکم مانو اور اپنے عمل باطل (ضاٸع) مت کرو“۔(سورة محمد آیت نمبر 33)


اس مقام پر بھی اللہ نے اعمال کو بچانے کا طریقہ یہ بتایا ہے کہ اللہ و رسول دونوں کا حکم مانا جاۓ۔اگر ایک کے حکم سے بھی انحراف کیا تو اعمال ضاٸع ہو جاٸیں گے۔

اس کے بعد اللہ مسلمانوں کو عبادات کا حکم دیتے ہوۓ فرماتا ہے کہ

”نماز قاٸم کرو اور زکوٰة دو اور رسولﷺ کی فرمانبرداری کرو اس امید پر کہ تم پر رحم ہو“۔(سورة النور آیت نمبر 56)


اللہ نے یہاں پر نماز،زکوٰة کے ساتھ ساتھ رسول اللہ کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور اسی کو رحمت کا باعث قرار دیا ہے۔

اب ہم چلتے ہیں حدیث کی طرف تو نبیﷺ نے ایمان کی خصلتیں بیان فرماٸی ہیں

نبیﷺ فرماتے ہیں کہ تین خصلتیں ایسی ہیں جس میں یہ پیدا ہو جاٸیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا۔ایک یہ کہ اللہ اور اس کا رسولﷺ اس کے نزدیک باقی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں.......(بخاری حدیث نمبر 16)



نبیﷺ نے بھی ایمان کی مٹھاس حاصل کرنے کی شرط بیان کی ہے جس میں اللہ کی محبت کے ساتھ ساتھ اپنی محبت کو بھی لازم قرار دیا۔

تو اب مکمل شعر کی تشریح سمجھ میں آچکی ہو گی کہ اللہ نے نبیﷺ کو کبھی اپنے سے جدا نہیں کیا بلکہ جہاں جہاں پر اپنی عبادت اپنے حکم کو ماننے اور اپنی اطاعت کا حکم دیا ہے وہاں رسول اللہﷺ کی اطاعت اور ان کے حکم کو ماننا لازمی قرار دیا ہے۔

اور شعر کا دوسرا حصہ ”خدا پر اس کو چھوڑا ہے وہی جانے کیا تم ہو“ کا مطلب ان تمام آیات سے ہی اخذ کیا گیا ہے کہ ہم نبیﷺ کی شان بیان نہیں کر سکتے نہ ہی ہمارے گمان میں آسکتا ہے کہ اللہ کے نزدیک نبیﷺ کا مقام کیا ہے تو اس چیز پر جھگڑنے کی بجاۓ اس کو اللہ پر ہی چھوڑ دیا ہے کیونکہ وہی جانتا ہے کہ رسولﷺ کا مقام کیا ہے۔

تو ہم کیوں نا کہیں 

”خدا کہتے نہیں بنتی،جُدا کہتے نہیں بنتی“

”خدا پر اس کو چھوڑا ہے وہی جانے کیا تم ہو“

تحقیق ازقلم مناظر اہلسنت والجماعت محمد ذوالقرنین حنفی بریلوی

Powered by Blogger.