حدیث قرطاس اور شیعوں کے اعتراض کا جواب

 حدیثِ قرطاس اور شیعوں کے اعتراض کا جواب

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
آج کی اس پوسٹ میں ہم حدیثِ قرطاس اور اس کی بنا پر کیے جانے والے اعتراض کا جواب دیں گے۔
بخاری میں موجود حدیث ہے جو کہ آپ نیچے ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔
حدیث کچھ یوں ہے ”حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ جب نبیﷺ کی وفات کا وقت قریب آیا (وفات سے چار دن پہلے) تو ان کے گھر میں کٸ صحابہ اکرامؓ موجود تھے۔ان میں حضرت عمرؓ بھی موجود تھے،تو نبیﷺ نے فرمایا مجھے ایک قلم کاغذ لا کر دو تاکہ تمہارے لۓ ایک ایسی تحریر لکھ دوں جس سے تم میرے بعد کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔تو حضرت عمرؓ نے فرمایا نبیﷺ پر بیماری کا غلبہ ہے اور تمہارے پاس قرآن مجید موجود ہے ہمارے لۓ اللہ کی کتاب کافی ہے،اس مسٸلے پر گھر میں موجود صحابہ اکرامؓ میں اختلاف پیدا ہو گیا کچھ صحابہؓ کہتے کہ کاغذ قلم لا دو اور کچھ نے منع کیا تو جھگڑا شروع ہونے کی وجہ سے نبیﷺ نے ان کو گھر سے چلے جانے کا کہا تو تمام صحابہ اکرامؓ چلے گۓ“۔(بخاری حدیث نمبر 114,4432,5669)


اس حدیث کو بنیاد بنا کر شیعے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے نبیﷺ کے حکم کی خلاف ورزی کر کے گستاخی کی۔
تو پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ حکم کی خلاف ورزی نہیں تھی بلکہ ان کا ادب تھا نبیﷺ بیمار تھے اور حضرت عمرؓ نہیں چاہتے تھے کہ ان کو تحریر لکھتے ہوۓ اور تکلیف برداشت کرنی پڑۓ اس لۓ منع کر دیا۔
اگر پھر بھی کوٸی شیعہ نا مانے تو ہم حضرت علی کا ایک واقعہ بیان کرتے چلیں جس میں انہوں نے نبیﷺ کے نام کے ادب میں ہی نبیﷺ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا،یہ واقعہ اہلسنت اور اہلتشیع دونوں کے ہاں معتبر ہے۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ
”صلح حدیبہ کے وقت حضرت علیؓ نے صلح نامہ تحریر کیا تو انہوں نے جب نبیﷺ کا نام لکھا تو اس طرح لکھا ”محمد رسول اللہ“ تو مشرکین نے کہا محمد رسول اللہ نا لکھو۔اگر آپ اللہ کے رسول ہوتے تو ہم آپ سے لڑاٸی نا کرتے۔تو نبیﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا اس کو مٹا دو تو حضرت علی نے کہا ”میں اس کو نہیں مٹاٶں گا“ تو نبیﷺ نے قلم پکڑ کر اپنے دست انور سے اسے مٹا دیا۔۔“(صحیح بخاری حدیث نمبر 2698)


اس حدیث سے تو پتہ چلتا ہے کہ حضرت علیؓ نے واضح طور پر انکار کر دیا تھا نام مٹانے سے۔تو پھر شیعہ اس حدیث کو بنیاد بنا کر مولا علیؓ کو گستاخِ رسولﷺ کیوں نہیں کہتے ؟
اس کو تو شیعے بھی ادب کے زمرے میں لے جاتے ہیں۔
تو ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کا عمل گستاخی نہیں بلکہ ادب تھا شیعوں کو بھی چاہیے کہ ایسے بےبنیاد اعتراضات سے لوگوں میں گمراہی نا پھیلاٸیں۔
لیکن اب بھی اگر کوٸی شیعہ نا مانے تو ہمارا اس سے ایک سادہ سا سوال یہ ہے کہ اگر حضرت عمرؓ نے گستاخی کی تھی تو حضرت ابن عباسؓ نے نبیﷺ کا حکم کیوں نا مانا ؟
اور اگر اس وقت مولا علیؓ موجود نا تھے تو ان کو جب پتہ چلا ہو گا تب انہوں نے نبیﷺ کے پاس جا کر ان سے وصیت کیوں نا لکھواٸی ؟
اگر تو شیعہ حضرات کے پاس ان سوالات کے جواب نہیں تو پھر مان لیں کہ حضرت عمرؓ کا یہ عمل گستاخی نہیں بلکہ ادب تھا۔
تحقیق ازقلم:محمد ذوالقرنین الحنفی البریلوی

Powered by Blogger.