روزہ افطار کرنے کا وقت اور سُنی، شیعہ اختلاف
شیعہ روافض کی طرف سے اکثر اہلسنت پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اہلسنت جس وقت پر روزہ افطار کرتے ہیں اُس وقت پر افطار کرنا جائز نہیں اور اس طرح روزہ نہیں ہوتا، اور شیعہ خود سورج غروب ہونے کے تقریبا 20 منٹ بعد مغرب کی نماز کے بعد روزہ افطار کرتے ہیں۔
سُنی، شیعہ کا یہ اختلاف اور اس پر بحثیں کرنا ہی محض وقت کا ضیاع ہے۔
کیونکہ ہم اہلسنت کے نزدیک سورج کے غروب ہونے کا یقین ہوتے ہی فورا افطاری کرنا افضل اور سُنت عمل ہے اور تھوڑی دیر بعد افطار کرنا جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں، اور اس سے روزے پر بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اور شیعہ کتب میں بھی اس بات کی صراحت موجود ہے کہ سورج غروب ہوتے ہی افطار کرنا جائز ہے۔
لیکن اس مسئلہ میں بھی ہمیشہ روافض کا رویہ باقی تمام مسائل کی طرح غلط ہی رہا ہے۔
ذیل میں پہلے اہلسنت کی کتب سے اس بات پر دلائل مُلاحظہ فرمائیں کہ سورج غروب ہوتے ہی افطاری کرنا سُنت اور افضل ہے۔
امام بخاریؒ نقل فرماتے ہیں!
”نبیﷺ ایک بار سفر پر تھے اور آپ نے روزہ رکھا ہوا تھا، جب سورج غروب ہوا تو آپ نے کسی سے کہا اتر کر ہمارے لیے ستو تیار کرو، تو انہوں نے عرض کی یا رسول اللہﷺ کچھ دیر رُک جاتے ہیں تو نبیﷺ نے پھر فرمایا ہمارے لیے ستو تیار کرو (یہ تین بار ہوا) پھر ستو تیار کیا گیا تو نبیﷺ نے فرمایا جب تم رات کو دیکھو کہ وہ اِدھر(مشرق کی طرف) سے آگئی ہے تو روزے دار اپنا روزہ افطار کر دے“۔
(صحیح بخاری، جلد 1، حدیث 1956)
بخاری کی ایک اور روایت کچھ یوں ہے کہ!
”نبیﷺ سفر پر تھے اور روزہ رکھا ہوا تھا (سورج غروب ہوا) تو آپﷺ نے کسی سے کہا اتر کر ہمارے لیے ستو بنا دو تو انہوں نے عرض کی یارسول اللہﷺ ابھی تو آفتاب کی روشنی باقی ہے، تو نبیﷺ نے فرمایا ہمارے لیے ستو تیار کر دو (تین بار یوں ہوا) پھر ستو تیار کیا گیا تو نبیﷺ نے نوش فرمایا (افطاری کی) پھر اپنے ہاتھ سے مشرق کی جانب اشارہ کر کے فرمایا جب ادھر سے رات کا اندھیرا شروع ہو جائے تو روزہ دار کو روزہ افطار کرنا چاہیے“۔
(صحیح بخاری، جلد 1، حدیث 1941)
ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جب سورج غروب ہو جائے تب مشرق کی طرف اندھیرا ہونا شروع ہو جاتا ہے تب چاہے آسمان پر روشنی باقی بھی ہو تب بھی افطاری کر لینی چاہیے اور یہی افضل اور سُنت عمل ہے۔
ایک مقام پر نبیﷺ نے افطاری جلدی کرنے کے بارے میں فرمایا!
”لوگ اس وقت تک بھلائی پر رہیں گے جب تک وہ افطار کرنے میں جلدی کریں گے“۔
(صحیح مسلم، جلد 2، حدیث 2554)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نبیﷺ نے سورج غروب ہوتے ہی افطاری کرنے کی تلقین فرمائی اور اُسی میں بہتری ہے۔
ان دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ سورج غروب ہوتے ہی فوراً افطاری کر لینی چاہیے اور یہی افضل و سُنت ہے۔
شیعہ کی پیش کردہ ایک روایت کا تحقیقی جائزہ:
شیعہ اکثر اہلسنت کی کتاب سے ایک روایت پیش کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ رمضان میں مغرب کی نماز پہلے پڑھتے تھے اور افطاری بعد میں کیا کرتے تھے۔
روایت کچھ یوں ہے!
”امام زہریؒ، حمید بن عبدالرحمنٰ بن عوف سے "عن" سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ رمضان میں مغرب کی نماز پڑھ کر افطاری کیا کرتے تھے“۔
(موطا امام محمد، جلد 1، صحفہ 468)
اس روایت سے روافض اکثر استدلال کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ، رمضان میں مغرب کی نماز پڑھ کر افطاری کیا کرتے تھے۔
جبکہ ہماری نظر میں یہ روایت ہی صحیح نہیں۔
کیونکہ اس کی سند میں امام زہری مدلس ہیں اور ”عن“ سے روایت کر رہے ہیں۔
امام ابن حجرؒ نے زہریؒ کو تیسرے طبقہ کے مدلسین میں شامل کیا اور اس طبقہ کے مدلسین کے بارے میں فرمایا! یہ وہ ہیں جن کی (معنن) احادیث سے آئمہ نے احتجاج نہیں کیا اور جب تک یہ سماع کی تصریح نہ کریں ان کی احادیث مطلقاً رد ہوتی ہیں۔
(تعریف اھل التقدیس، صحفہ 45)
اور اس روایت کے مرکزی راوی ”حمیدؒ بن عبدالرحمنٰ بن عوف“ نے حضرت عمرؓ سے سماع نہیں کیا اور یہ ان کے زمانہ خلافت کے آخر میں پیدا ہوئے۔
امام ذھبیؒ ان کے ترجمہ میں فرماتے ہیں!
”ان کی مُلاقات حضرت عمرؓ سے نہیں ہوئی بلکہ یہ اُن کے دور میں پیدا ہوئے“۔
(سیر اعلام النبلاء، جلد 4، صحفہ 293)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حمید بن عبدالرحمن نے حضرت عمرؓ کا یہ عمل نہیں دیکھا اور اس روایت میں زہری مدلس ہیں اور تدلیس کر رہے ہیں۔
اس روایت کے برعکس ایک روایت حضرت عمرؓ سے مروی ہے جو کچھ یوں ہے کہ!
”حضرت عمرؓ نے مختلف علاقوں کے گورنروں کو خط میں لکھا کہ تم لوگ افطاری کرنے میں تاخیر کرنے والے نہ ہو جانا“۔
(مصنف عبدالرزاق، جلد 3، حدیث 7590)
اس روایت سے تو ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں گورنروں کو تلقین کی کہ کبھی افطاری میں دیر مت کرنا، تو بھلا پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ خود افطاری دیر سے کرتے ہوں ؟ اس سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ پچھلی روایت جس میں مغرب کے بعد افطاری کا ذکر ہے وہ ضعیف ہے۔
اور ہمارے نزدیک افطاری میں کچھ تاخیر کرنا بھی جائز ہے، اور اس پر بعض اصحاب کا عمل بھی تھا۔
جیسا کہ امام مسلمؒ نقل فرماتے ہیں!
”حضرت عائشہؓ سے کہا گیا کہ نبیﷺ کے صحابہ میں دو آدمی ہیں، ان میں سے ایک جلدی افطاری کرتا ہے اور جلدی نماز پڑھتا ہے اور دوسرا کچھ تاخیر سے افطاری کرتا ہے اور تاخیر سے نماز پڑھتا ہے، تو حضرت عائشہؓ نے پوچھا اُن دونوں میں سے کون جلدی روزہ کھولتا ہے اور جلدی نماز پڑھتا ہے ؟ تو جواب دیا حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا، رسولﷺ اِسی طرح کیا کرتے تھے،(دوسرے صحابی حضرت ابو موسیٰؓ تھے)۔
(صحیح مسلم، جلد 2، حدیث 2556)
اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض صحابہ کرام بھی تھوڑی تاخیر سے روزہ افطار کر لیا کرتے تھے، اور ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عائشہؓ نے جلدی افطاری کرنے پر یہ فرمایا کہ نبیﷺ بھی ایسے ہی کرتے تھے۔
شیعہ کُتب سے غروبِ آفتاب کے وقت افطاری کا وقت شروع ہونے کا ثبوت:
اب ہم یہ ثابت کریں گے کہ شیعہ کُتب میں بھی یہ بات موجود ہے کہ سورج غروب ہوتے ہی افطاری کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔
شیعہ روافض اپنے اس دعوے پر کہ اہلسنت کی افطاری کا وقت صحیح نہیں اور اہلسنت کا روزہ صحیح نہیں ہوتا پر جو دلیل پیش کرتے ہیں وہ سورة البقرة کی آیت 187 ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے!
”ثم اتموا الصیام الی الیل“.
کہ رات تک روزہ پورا کرو۔
اس آیت کو پیش کر کے روافض کہتے ہیں کہ اللہ نے روزہ رات کو افطار کرنے کا حکم دیا ہے نہ کہ شام کو، اور اس رات سے شیعہ یہ مُراد لیتے ہیں کہ آسمان پر پوری طرح اندھیرا چھا جائے، جو کہ شیعوں کے مطابق غروبِ آفتاب سے 20 سے 25 منٹ بعد کا وقت بنتا ہے۔
پہلی بات ہم بتاتے چلیں کہ اللہ نے قُران میں صرف دو الفاظ استعمال کیے ہیں ”لیل والنہار“ ”رات اور دن“، اللہ نے کہیں بھی قرآن میں ”شام“ کا لفظ استعمال نہیں کیا جس کی بنیاد پر روافض یہ کہہ سکیں کہ ”اللہ نے شام کے وقت افطاری کرنے کا کیوں نہیں کہا“۔
اب قرآن میں یہ لفظ ”لیل“ ”رات“ سے مُراد کون سا وقت ہے یہ ہم شیعہ زاکرین سے ہی جانتے ہیں۔
معتبر شیعہ مفسر طبرسی ”لیل“ کے بارے میں لکھتا ہے کہ!
”سورج غروب ہونے سے لے کر اگلی طلوع فجر تک کا وقت ”لیل“ رات ہے“۔
(مجمع البیان فی تفسیر القرآن، جلد 1، صحفہ 146)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شیعہ علما کے نزدیک جب سورج غروب ہو جائے تبھی ”لیل“ یعنی رات شروع ہو جاتی ہے۔
شیعوں کا ایک اور معتبر زاکر مُلا باقر مجلسی لکھتا ہے!
”سورج غروب ہونے سے لے کر طلوع فجر تک کا وقت ”اللیل“ رات ہے“۔
(بحار الانوار، جلد 80، صحفہ 76)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مُلا باقر مجلسی کے نزدیک بھی رات تبھی شروع ہو جاتی ہے جب سورج غروب ہو جائے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ نے قرآن میں بھی سورج غروب ہونے تب روزہ رکھنے کا حکم دیا کہ جب سورج غروب ہو جائے تو افطار کر لیا جائے۔
ایک اور شیعہ مفسر حسین بخش لکھتا ہے!
”لیل سے مُراد غروب شمس کا یقین ہے، علماء نے اس کی علامت مشرق کی سُرخی کا دور ہونا بیان فرمایا ہے، اگر مشرق کی سُرخی پوری طرح زائل نہ ہوئی ہو اور غروب شمس کا یقین ہو تو افطار جائز ہے“۔
(تفسیر انوارِ نجف، جلد 2، صحفہ 238)
اس سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ شیعہ علما کے نزدیک بھی جب سورج غروب ہو جائے تب رات شروع ہو جاتی ہے، اور افطار کا وقت شروع ہو جاتا ہے، شیعہ مفسر مزید کہتا ہے کہ اگر مشرق کی سُرخی ختم نہ بھی ہوئی ہو اور سورج غروب ہو جانے کا یقین ہو تب بھی افطار جائز ہے۔
یہی شیعہ مفسر مزید ایک مسئلہ بیان کرتا ہے!
”نماز مغرب کے بعد افطار کرنا بہتر ہے لیکن اگر نفس افطار کی طرف زیادہ متوجہ ہو یا کچھ آدمی اس کے افطار کے منتظر ہوں تو نماز سے پہلے افطار کرنا بہتر ہے“۔
(تفسیر انوارِ نجف، جلد 2، صحفہ 238)
اس سے بھی یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے ہے کہ شیعوں کے نزدیک بھی سورج غروب ہوتے ہی فوراً افطار کر لینا جائز ہے۔
اب شیعہ کتاب سے نبیﷺ کا فرمان ملاحظہ فرمائیں کہ شیعہ کتب میں نبیﷺ سے افطاری کا کیا وقت منقول ہے۔
شیعہ زاکر عاملی نقل کرتا ہے!
”امام محمد باقرؒ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا جب سورج کا گولہ چھپ جائے (یعنی غروب ہو جائے) تو روزہ دار افطار کر سکتا ہے“۔
(وسائل الشیعة (عربی)، جلد 4، صحفہ 179)
(وسائل الشیعة (اردو)، جلد 3، صحفہ 123)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شیعہ کتاب میں بھی نبیﷺ سے افطاری کا جو وقت منقول ہے وہ یہی ہے کہ جب سورج غروب ہو جائے نہ کہ غروب کے 20 منٹ بعد۔
اب مُلاحظہ فرمائیں کہ امام جعفر صادقؒ افطاری کے وقت کے بارے میں کیا فرماتے ہیں۔
شیعہ زاکر عاملی، شیخ صدوق کے حوالے سے نقل کرتا ہے کہ!
”امام جعفر صادقؒ نے فرمایا جب سورج ڈوب جائے تو روزہ کھولنا جائز ہو جاتا ہے اور نماز پڑھنا واجب ہو جاتا ہے“۔
(وسائل الشیعة (عربی)، جلد 4، صحفہ 179)
(وسائل الشیعة (اردو)، جلد 3، صحفہ 123)
اور یہ روایت شیعہ کے شیخ صدوق نے ”من لا یحضر الفقیہ، جلد 1، صحفہ 155“ پر نقل کی ہے۔
ان تمام دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ شیعہ کتب کے مطابق بھی ”اللیل“ یعنی رات، سورج غروب ہونے کو کہتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہو گیا کہ شیعہ علما کے نزدیک بھی افطاری کا وقت سورج غروب ہوتے ہی شروع ہو جاتا ہے، اس لیے کسی شیعہ کا اس مسئلہ پر اہلسنت کے بارے میں یہ کہنا کہ اہلسنت کا افطاری کا وقت ہی ثابت نہیں اور اس وقت پر افطاری نہیں ہوتی، بلکل باطل قول ہے، کیونکہ ان کی کتب کے مطابق بھی سورج غروب ہونے پر افطاری کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور افطار کرنا جائز ہو جاتا ہے، جبکہ ہمارے نزدیل سورج غروب ہوتے ہی افطاری کرنا سنت و افضل ہے۔
اس لیے اس مسئلہ پر بحث کرنے کی بجائے روافض کو حق کو تسلیم کرنا چاہیے۔
تحقیق ازقلم: مناظر اہلسنت وجماعت محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی