ملحدین کا اعتراض ام قرفہ کو اونٹوں سے باندھ کر دو ٹکڑے کروانا
فیسبک کے ایک بدنامِ زمانہ اسلام مخالف گروپ میں ایک ملحد کی طرف سے پوسٹ کی گٸ کہ نبیﷺ کے دور میں ایک جنگ میں ”ام قرفہ“ نامی عورت پر ظلم کرتے ہوۓ اس کو اس طرح قتل کروایا گیا کہ اسکی دونوں ٹانگیں دو اونٹوں سے باندھ کر اونٹوں کو بھگایا گیا جس سے اس عورت کے دو ٹکڑے ہو گۓ“، اسی پوسٹ پر ایک اور کاپی پیسٹر ملحد بندر نے کمینٹ کرتے ہوۓ یہ روایت طبری کے حوالے سے پیش کی اور ایک اور چیز بیان کی کہ ”نبیﷺ کے حکم پر اس عورت کا سر نیزے پر لٹکا کر پورے مدینہ میں گھمایا گیا“۔
اس اعتراض کا تفصیلی تحقیقی جاٸزہ ملاحظہ فرماٸیں
یہ واقعہ ان الفاظ کے ساتھ کہ ام قرفہ کے پیروں کو دو اونٹوں کے ساتھ باندھ کر اس کے دو ٹکڑے کروا دیے گۓ تین کتب میں موجود ہے۔
اول یہ واقعہ امام ابن سعد نے بغیر سند کے واقدی کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔
(طبقات الکبریٰ لابن سعد، جلد 2، صحفہ 69)
واقدی نے یہ بات بغیر سند کے کی ہے۔
(کتاب المغازی، جلد 2، صحفہ 565)
واقدی جو کہ خود تیسری صدی ہجری کا مصنف ہے اس نے کوٸی سند بیان نہیں کی بلکہ خود یہ بات کی ہے اور واقدی خود کذاب اور متروک ہے۔
امام ذھبیؒ اس کے ترجمہ میں فرماتے ہیں!
”امام احمدؒ کہتے ہیں واقدی کذاب ہے احادیث کو الٹ پلٹ دیتا تھا، یحییٰ کہتے ہیں یہ ثقہ نہیں ہے اس کی حدیث کو تحریر نہیں کیا جاۓ گا، امام بخاریؒ اور امام ابوحاتمؒ کہتے ہیں یہ متروک ہے، امام ابوحاتمؒ اور امام نساٸیؒ کہتے ہیں یہ حدیث ایجاد کرتا تھا، ابن عدیؒ کہتے ہیں یہ خرابی کی جڑ ہے، ابن مدینیؒ کہتے ہیں واقدی حدیث ایجاد کرتا تھا“۔
(میزان الاعتدال، جلد 6، صحفہ 283)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بات ابن سعد نے واقدی کے حوالے سے نقل کی ہے اور واقدی نے بھی اس بات کی کوٸی سند بیان نہیں کی اور واقدی خود جھوٹا ہے جس کی بات سے استدلال جاٸز نہیں۔
یہ روایت طبری نے سند کے ساتھ بیان کی ہے۔طبری کی روایت کی سند کچھ یوں ہے!
”حدثنا ابن حمید قال، حدثنا سلمہ قال، حدثنی ابن اسحاق عن عبداللہ بن ابی بکر“۔
(تاریخ الطبری، جلد 2، صحفہ 643)
یہ روایت بھی باطل ہے اس میں دو علتیں ہیں!
پہلی علت ابن اسحاق کی تدلیس:
اس روایت میں محمد بن اسحاق بن یسار مدلس ہے اور عن سے روایت کر رہا ہے، (ابن اسحاق عن عبداللہ بن ابی بکرؓ)
اور محمد بن اسحاق چوتھے طبقہ کا مدلس ہے، امام ابن حجرؒ نے اس کو چوتھے طبقہ کے مدلسین میں شامل کر کے کہتے ہیں!
”محمد بن اسحاق ضعفا اور مجہولین سے تدلیس کرنے میں مشہور ہے“۔
(تعریف اھل التقدیس، صحفہ 51)
اور چوتھے طبقہ کے مدلسین کی ”معنن“ روایت کے بارے میں ابن حجرؒ فرماتے ہیں!
”یہ وہ ہیں جن کے بارے میں اتفاق ہے کہ ان کی روایت سے احتجاج نہیں کیا جا سکتا جب تک سماع کی تصریح نہ کریں، یہ کثرت سے ضعفا اور مجہولین سے تدلیس کرتے ہیں“۔
(تعریف اھل التقدیس، صحفہ 14)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ محمد بن اسحاق کی معنن مردود ہے اس سے احتجاج جاٸز نہیں۔
دوسری علت انقطاع:
اس سند میں انقطاع بھی ہے، محمد بن اسحاق نے حضرت عبداللہ بن ابی بکرؓ سے سماع نہیں کیا۔
حضرت عبداللہ بن ابی بکرؓ سنہ 11 ہجری میں فوت ہوۓ۔
(تاریخ الاسلام، جلد 3، صحفہ 49)
جبکہ ابن اسحاق سنہ 80 ہجری میں پیدا ہوا یعنی حضرت عبداللہ بن ابی بکرؓ کی وفات کے 69 سال بعد۔
(سیر اعلام النبلا، جلد 7، صحفہ 33،34)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ واقعہ باطل ہے اور اس سے کسی صورت استدلال جاٸز نہیں۔
اور ملحد بندر نے جو دوسری عبارت لکھی کہ ”نبیﷺ نے اس کا سر نیزہ پر لٹکا کر پورے مدینہ میں گھمایا“ یہ بات محض جھوٹ ہے جس کا حوالہ بھی یہ بندر نہیں دے سکا۔
اس سب کے برعکس صحیح مسلم میں جو واقعہ موجود ہے اس میں اس عورت کے قتل کا کوٸی ذکر موجود نہیں۔
صحیح مسلم کے الفاظ کچھ یوں ہیں!
حضرت سلمہ بن اکواعؓ نے چند عورتوں کو پکڑ لیا جن میں ام قرفہ اور اس کی بیٹی بھی تھی حضرت سلمہؓ نے ان سب عورتوں کو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے سامنے پیش کیا تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اس عورت(ام قرفہ) کی بیٹی کو حضرت سلمہ بن اکواعؓ کے سپرد کر دیا، اور حضرت سلمہؓ نے وہ لڑکی نبیﷺ کو ہبہ کر دی تو نبیﷺ نے اس لڑکی کو مکہ بھیج کر مسلمان قیدیوں کو چھڑوا لیا۔
(صحیح مسلم، روایت 4573)
اس روایت میں کہیں بھی ام قرفہ کے قتل کا ذکر نہیں بس یہ ہے کہ ان سب عورتوں کو قیدی بنا لیا گیا تھا، اور اس کی بیٹی کو مکہ بھیج کر اس کے بدلے مسلمان قیدیوں کو جھڑوا لیا گیا۔
ان تمام دلاٸل سے ثابت ہوتا ہے کہ ام قرفہ کے قتل کے جس واقعہ کی بنیاد پر ملحدین، اسلام پر اعتراض کرتے ہیں وہ واقعہ ہی جھوٹ ہے، اس لیے ملحدین کو بھی چاہیے کہ ایسے جعلی واقعات کی بنیاد پر اسلام پر اعتراض کر کے اِس طرح ذلیل ہونے سے بچیں۔
ازقلم: مناظر اسلام محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی