وسیلہ بعد ازوفات قرآن و حدیث کی روشنی میں اور غیروں کی کتب سے

 وسیلہ بعد ازوفات قرآن و حدیث کی روشنی میں

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

آج کل دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ تو سرے سے ہی انبیا یا اولیا کے وسیلے کے قاٸل نہیں اور کچھ لوگ قاٸل ہیں لیکن وفات کے بعد وسیلہ بنانے کو جاٸز نہیں سمجھتے،آج ہم  ان شاء اللہ قران و حدیث کی روشنی سے وسیلے اور بعداز وفات وسیلے کے احکام کو واضح کریں گے۔

اس سے پہلے وسیلے کے معنی بتا دیتا ہوں۔وسیلہ کا معنی رغبت دلانا یا واسطہ پیش کرنا ہے۔

اب آتے ہیں وسیلے کے دلاٸل کی طرف۔

اللہ تعالی نے قران مجید میں وسیلے کے ساتھ دعا کرنے کا حکم دیا ہے،ارشاد باری تعالی ہے۔

”اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ“۔

(سورة الماٸدہ آیت نمبر 35)

اس آیت میں اللہ تعالی صاف طور پر وسیلہ تلاش کرنے کا حکم دے رہا ہے،کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس وسیلے سے مراد نماز اور عبادت کو وسیلہ بنانا ہے،جو کہ بلکل غلط ہے اللہ تعالی نے تمام حکم الگ الگ دے دیے کہ ڈرو وسیلہ تلاش کرو اور جہاد کرو اللہ سے ڈرنے والا وہی ہے جو متقی ہوتا ہے،تو یہ واضح ہو گیا کہ اللہ نے اس مقام پر انبیا یا اولیا کو وسیلہ بنانے کا حکم دیا۔

اب آتے ہیں ایک حدیث کی طرف جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے خود اپنے وسیلے سے ایک صحابی کو دعا کرنے کا حکم دیا۔

حدیث کچھ یوں ہے کہ

”ایک نابینا شخص نبیﷺ کے پاس آیا اور کہا: آپ دعا فرما دیجئیے کہ اللہ مجھے عافیت دے، آپ نے فرمایا: اگر تم چاہو تو میں دعا کروں اور اگر چاہو تو صبر کیے رہو، کیونکہ یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے۔ اس نے کہا: دعا ہی کر دیجئیے، تو آپ نے اسے حکم دیا کہ ،وہ وضو کرے، اور اچھی طرح سے وضو کرے اور یہ دعا پڑھ کر دعا کرے ،اے اللہ! میں تجھ سے مانگتا ہوں اور تیرے نبی محمد جو نبی رحمت ہیں کے ”وسیلے“ سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں، میں نے آپ کے واسطہ سے اپنی اس ضرورت میں اپنے رب کی طرف توجہ کی ہے تاکہ تو اے اللہ! میری یہ ضرورت پوری کر دے تو اے اللہ تو میرے بارے میں ان کی شفاعت قبول کر“۔

(جامع ترمزی حدیث نمبر 3578 اسناد حسن الصحیح)


یہاں پر نبی ﷺ نے خود صحابی کو اپنے وسیلے سے دعا کرنے کا حکم دیا ہے،اب کچھ لوگ کہیں گے کہ یہ تو زندہ کو وسیلہ بنانے کا حکم ہے،وفات کے بعد وسیلہ بنانا جاٸز نہیں۔

تو اب آتے ہیں وفات کے بعد وسیلہ بنانے کے بیان میں تو سب سے پہلے میں قران سے دلیل دیتا ہوں۔

ارشاد باری تعالی ہے ”اور جب ان کے پاس اللہ کی وہ کتاب ( قرآن ) آئی جو ان کے ساتھ والی کتاب ( توریت ) کی تصدیق فرماتی ہے اور اس سے پہلے وہ اسی (نبی) کے وسیلہ سے کافروں پر فتح مانگتے تھے تو جب تشریف لایا انکے پاس وہ جانا پہچانا اس سے منکر ہو بیٹھے تو اللہ کی لعنت کافروں پر“۔(سورة البقرا آیت نمبر 89)

اس آیت کی تفسیر میں مختلف علما یہی فرماتے ہیں کہ پہلی امت والے نبی ﷺ کے وسیلے سے ہی دعا کرتے تھے،

امام ابو القاسم محمد بن احمد المتوفی 741ھ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ وہ اس طرح دعا کرتے تھے

”اللھم انصرنا النبی المبعوث فی آخر الزمان“ یعنی اے اللہ ہمیں مدد دے اس نبی(کے وسیلے سے)جو آخری زمانے میں مبعوث ہو گا۔(التسہیل العلوم التنزیل،جلد 1،صحفہ نمبر 74)


اور وہابیوں کا ثناءاللہ امرتسری بھی اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوۓ لکھتا ہے کہ

”وہ (سابقہ امتیں) محض دنیاوی اغراض کے لیے اس سے انکاری ہو گیے حالانکہ اس سے پہلے اسی کے وسیلے سے اپنے مخالف کفار پر فتح چاہا کرتے تھے آڑے وقت میں کہا کرتے تھے اے اللہ ہم تیرے دین کے خادم اور اور نبی آخرالزمان کے منتظر ہیں،پس تو ہم کو دشمنوں پر فتح دے دے۔

(تفسیر ثناٸی جلد 1 صحفہ نمبر 74)


اور وہابیوں کا عبدالرحمن بن ناصر السعدی اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوۓ واضح الفاظ میں لکھتا ہے کہ

”جاہلیت کے زمانے میں جب ان کے اور مشرکین کےدرمیان جنگ ہوتی تو وہ یہ دعا کرتے تھے اے اللہ اس نبی کے ذریعے سے ہماری مدد فرما اور ساتھ ہی مشرکین کو ڈرایا کرتے تھے کہ اس نبی کا ظہور ہونے والا ہے،ہم ان کے ساتھ مل کر تم مشرکین کے خلاف جنگ کریں گے“۔

(تفسیر سعدی جلد 1 صحفہ 135)


اب کچھ لوگ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے وفات کے بعد وسیلے کی بات کر کے ولادت سے پہلے وسیلہ کیوں ثابت کیا تو ولادت سے پہلے کی کیفیت اور وفات کے بعد کی کیفیت ایک ہی ہے،اور یہ میں نہیں کہتا بلکہ اللہ تعالی خود قران میں فرما رہا ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے

”بھلا تم کیونکر خدا کے منکر ہو گے،حالانکہ تم مردہ تھے اس نے تمہیں زندگی دی پھر تمہیں مارے گا پھر تمہیں زندہ کرۓ گا پھر اسی کی طرف پلٹ کر جاؤ گے“۔

(سورة البقرا آیت نمبر 28)

اس آیت میں اللہ نے انسان کے پہلی مرتبہ پیدا ہونے سے پہلے کی حالت کا زکر لفظ ”امواتا“ سے کیا ہے جس کا مطلب ہے ”موت“ یعنی کہ انسان کے پیدا ہونے سے پہلے کی کیفیت بھی موت ہی کہلاتی ہے۔

اب جیسا کہ قران سے ثابت ہو چکا کہ وفات کے بعد بھی انبیا کے وسیلے سے دعا کرنا جاٸز ہے تو اب آتے ہیں احادیث کی طرف۔

حدیث کچھ یوں ہے کہ

”اوس بن عبداللہؒ بیان کرتے ہیں کہ مدینہ والے شدید قحط میں مبتلا ہو گۓ تو لوگوں نے حضرت عاٸشہ کے پاس شکایت کی تو حضرت عاٸشہ نے فرمایا کہ نبی ﷺ کی قبر کی طرف دیکھو اور حجرے کی چھپ میں اس طرح سوراخ کر دو کے نبی ﷺ کی قبر مبارک اور آسمان کے درمیان کوٸ چیز حاٸل نہ رہے راوی کہتے ہیں کہ ہم نے ایسا ہی کیا تو  ہم پر بارش برسنے لگی اور گھاس اگ آٸی اور اونٹ ایسے موٹے ہوۓ کہ ان کی آنکھیں چربی سے پھول گٸیں اس سال کا نام عام الفتق (یعنی چوپایوں کے موٹا ہونے کا سال) سال رکھا“۔

(سنن دارمی جلد 1 حدیث نمبر 93)


اس حدیث سے وفات کے بعد نبی ﷺ کے وسیلے سے دعا کرنا ثابت ہوتا ہے کیونکہ حضرت عاٸشہ نے نبی ﷺ کی قبر کی طرف توجہ دلاٸی صحابہ اکرام کی۔

دوسری حدیث کچھ یوں ہے کہ

”حضرت عمر کے دورِ حکومت میں ایک بار قحط آگیا تو ایک شخص نے نبیﷺ کی قبر مبارک کے پاس آکر کہا یا رسول اللہﷺ اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجیے وہ تو ہلاک ہو چکے ہیں پس خواب میں رسول اللہﷺ اس کے پاس آۓ اور فرمایا عمر کے پاس جا کر انہیں میرا سلام کہو اور انہیں بتاٶ کہ وہ سیراب کیے جاٸیں گے اور انہیں کہنا کہ عقل مندی اختیار کرو،اس شخص نے آکر حضرت عمر کو بتایا تو آپ نے فرمایا اے اللہ میں اسی کام میں کوتاہی کرتا ہوں جس سے عاجز آجاتا ہوں“۔

(تاریخ ابن کثیر جلد 7 صحفہ نمبر 126)


اس روایت کو ابن کثیر نے سند کے ساتھ بیان کیا ہے اور پھر خود کہا ہے کہ یہ صحیح الاسناد ہے۔

اس روایت کو امام قرطبی نے بھی تفسیر قرطبی میں  نقل کیا ہے۔

اس روایت کے ساتھ چار عقیدے ثابت ہوتے ہیں پہلا تو نبیﷺ زندہ ہیں،امت کے حالات سے باخبر ہیں،وفات کے بعد وسیلہ پیش کیا جا سکتا ہے اور یارسول اللہ کہہ کر پکارنا جاٸز ہے۔

اب جب کہ ہم قران و حدیث سے یہ ثابت کر چکے کہ نبیﷺ کو وفات کے بعد وسیلہ بنانا جاٸز ہے تو اب آتے ہیں منکرین کی طرف کہ ان کے نزدیک نبیﷺ کو وفات کے بعد وسیلہ بنانا جاٸز ہے یا نہیں۔

سب سے پہلے ہم دیوبندی مولویوں کی طرف آتے ہیں کہ انہوں نے نبیﷺ کو وسیلہ بنانے پر کیا لکھا ہے۔

اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب نشر الطیب میں صحفہ نمبر 262 پر باب باندھا ہے کہ دعا کہ وقت آپﷺ کا توسل حاصل کرنا۔اس میں روایت نمبر دو بیان کر کے نیچے لکھتا ہے کہ ”اس سے توسل بعداز وفات بھی ثابت ہوا۔۔۔۔“


اشرف علی تھانوی ایک اور جگہ لکھتا ہے کہ ”اہل قبور کے توسل سے خود دعا کرنا ثابت ہے“۔

(ملفوظات حکیم الامت،جلد 21،صحفہ نمبر 26)


دیوبندیوں کا مولوی محمد زکریا جس کی کتب کو اول درجہ دیا جاتا ہے اپنی کتاب فضاٸل اعمال میں لکھتا ہے کہ

”امام ابن ہمام نے فتح القدیر میں لکھا ہے اور اس سے حضرت قدس سرہ نے زبدہ میں نقل کیا ہے کہ سلام کے بعد پھر حضورﷺ کے وسیلے سے دعا کرۓ اور شفاعت چاہیے پھر یوں کہے کہ یارسول اللہ میں آپ کی شفاعت چاہتا ہوں اور آپ کے وسیلے سے اللہ سے یہ دعا مانگتا ہوں کہ میری موت آپ کے دین اور آپ کی سنت پر ہو۔“”اس کے بعد لکھتا ہے کہ نبیﷺ کے توسل سے دعا کرنا سلف صالحین کا طریقہ ہے اور انبیا اور اولیا نے نبی کے وسیلے سے دعا کی ہے“۔

(فضاٸل اعمال،جلد 2،صحفہ نمبر 771)


اب جب کہ ہم دیوبندی مولویوں سے بعداز وفات توسل ثابت کر چکے ہیں تو اب آتے ہیں اہلحدیث مولویوں کی طرف۔

وہابی مولوی البانی لکھتا ہے کہ

”امام احمد بن حنبل اور امام شوکانی کے نزدیک نبیﷺ،انبیا اکرام اور صالحین کو وسیلہ بنانا جاٸز ہے“۔

(التوسل،صحفہ نمبر 42)


اور وہابی مولوی ابن تیمیہ سے نبیﷺ کو وسیلہ بنانے کے بارے میں سوال ہوا تو اس نے کہا

”امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ جاٸز ہے“۔

(مجموعہ فتاویٰ،جلد1،صحفہ نمبر 140)


ہم نے الحَمْدُ ِلله،اللہ کے فضل سے قرآن و حدیث اور منکرین کے مولویوں سے یہ ثابت کیا کہ نبیﷺ کو وفات کے بعد وسیلہ بنانا جاٸز ہے۔لیکن اب بھی اگر کوٸ شخص ہٹ دھرمی دکھاۓ اور نامانے تو میرا ان کو یہی کہنا ہے کہ اگر قران و حدیث کی نہیں ماننی تو اپنے مولویوں کی ہی مان لیں۔

تحقیق ازقلم:محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی

Powered by Blogger.